مندرجات کا رخ کریں

درخت ممنوعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اورویٹو، اٹلی کے کیتھیڈرل میں لورینزو میتانی کی طرف سے ریلیف۔ حوا اور درخت کو دکھایا گیا ہے۔

درخت ممنوعہ جسے روکا گیا شجر یا منع کیا گیا شجر بھی کہا جاتا ہے، وہ درخت ہے جو جنت میں واقع تھا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ اور حوّاؑ پر اس کے پھل کھانے کو حرام قرار دیا تھا۔ اسے شجرۂ معرفت (یعنی نیکی اور بدی کی معرفت دینے والا درخت) بھی کہا جاتا ہے۔ آدم اور حوّا نے باوجود اس کے کہ اس درخت کا پھل کھانا منع تھا، پھر بھی اس سے کھا لیا، جس کے نتیجے میں انھیں جنت سے نکال دیا گیا۔

اسلام میں

[ترمیم]

قرآن مجید میں اس درخت کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:

"پس ہم نے کہا: اے آدم! بیشک یہ (شیطان) تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، پس ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے اور تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ یقیناً تمھارے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوک لگے گی اور نہ ننگا رہو گے۔ اور نہ تمھیں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ لگے گی۔ پھر شیطان نے اُس کے دل میں وسوسہ ڈالا، کہا: اے آدم! کیا میں تجھے ہمیشگی کے درخت اور ایسی بادشاہی کا پتہ نہ دوں جو کبھی ختم نہ ہو؟ تو ان دونوں نے اس درخت سے کھا لیا، تب ان پر ان کی شرمگاہیں کھل گئیں اور وہ جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپنے لگے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی، تو وہ راہ سے بھٹک گیا۔"

— [سورہ طٰہٰ: 117–121]

بائبل (عہد نامہ قدیم) میں

[ترمیم]

سفرِ پیدائش باب 2 کے مطابق، خدا نے آدم و حوّا کو ایک ایسی جنت میں رکھا جہاں بہت سی درختوں کے پھل ان کے لیے حلال تھے، لیکن "نیکی اور بدی کی پہچان کے درخت" (Tree of Knowledge of Good and Evil) کے پھل کو کھانے سے منع کیا تھا۔ پھر سفرِ پیدائش 3 میں سانپ عورت کو قائل کرتا ہے کہ وہ اس درخت کا پھل کھائے، جس کے بعد دونوں نے نافرمانی کی اور جنت سے نکالے گئے۔

نیکی اور بدی کا مفہوم

[ترمیم]

عبرانی فقرہ: טוֹב וָרָע (تُوْڤ وَرَع)، کا لفظی ترجمہ ہے: "نیکی اور بدی"۔ یہ فقرہ ممکنہ طور پر ایک خاص طرزِ بیان تقاسمیہ (Merism) کی مثال ہے، جو ایک ادبی تکنیک ہے جس میں دو متضاد اصطلاحات کو ملا کر ایک جامع مفہوم پیدا کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، "نیکی اور بدی" کا مطلب سادہ طور پر "ہر چیز" ہو سکتا ہے۔ یہی مفہوم ہمیں مصری اصطلاح "شر-خیر" میں بھی ملتا ہے، جو عام طور پر "ہر چیز" کے معنٰی میں استعمال ہوتی ہے۔ یونانی ادب میں، ہومر نے بھی اسی اسلوب کو استعمال کیا ہے، جب ٹیلیماخوس کہتا ہے: "میں ہر چیز جاننا چاہتا ہوں، نیکی اور بدی"۔ اگرچہ یونانی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں:ἐσθλός (نیکی کے لیے) اور χερείων (بدی کے لیے)، لیکن ان کو بہتر طور پر "اعلیٰ" اور "ادنیٰ" کے معنوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔[1][2]

اگر اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ "شجرۂ علمِ خیر و شر" دراصل وہ درخت ہے جس کا پھل کھانے سے ہر چیز کا علم حاصل ہوتا ہے، تو اس صورت میں یہ اصطلاح کسی اخلاقی مفہوم کی طرف اشارہ نہیں کرتی۔ بہت سے محققین اسی رائے کی تائید کرتے ہیں۔[3]

تاہم، چونکہ یہ سارا معاملہ اللہ کے حکم کی نافرمانی سے جڑا ہے، اس لیے اس فقرے کے ممکنہ اخلاقی یا شرعی نتائج پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ رابرٹ ایلٹر اس نکتہ پر زور دیتے ہیں کہ جب خدا نے آدم کو اس مخصوص درخت کا پھل کھانے سے منع کیا، تو اس نے کہا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ "یقیناً مرے گا"۔ عبرانی زبان میں استعمال ہونے والے الفاظ اس طرزِ بیان کے لیے مخصوص ہیں جو عبرانی بائبل میں سزائے موت سنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔[4]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Ill-WD2|id=Q5671393|نص=هاري أورلنسكي's notes to the NJPS Torah.
  2. Nicolas Wyatt (2001)۔ Space and Time in the Religious Life of the Near East۔ A&C Black۔ ISBN:978-0-567-04942-1
  3. Homer, Odyssey, 20:309–310۔ 26 مايو 2020 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا {{حوالہ کتاب}}: تحقق من التاريخ في: |آرکائیو تاریخ= (معاونت)
  4. Alter 2004، صفحہ 21