درد بحیثیت صوفی شاعر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دردؔ بحیثیتِ صوفی شاعر[ترمیم]

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کدھر چلے؟

تصوف کس لفظ سے نکلا اور اس کے معانی کیا ہیں؟ اس بارے میں اتنا کچھ کہا گیا ہے کا اس کہ یہاں دہرانا ممکن نہیں۔ بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ تصوف سے مراد ہے،خود کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے وقف کردینا۔ بیشتر صوفیا کا عقیدہ ہے کہ ساری کائنات خدا کے نور سے بنی ہے اور اسی کی ذات کا ایک جزو ہے۔ گویا ”ہمہ اوست“ یعنی سب کچھ خدا ہی ہے۔ یہ فلسفہوحدت الوجود“ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس فلسفے کی سب سے زیادہ وکالت شیخ محی الدین ابن عربی نے کی۔ اس پر ویدانت اور افلاطونی فلسفے کا بھی اثر ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ساری کائنات خدا کے نورسے نہیں بلکہ اس کے حکم سے بنی ہے۔ اس لیے اُن کا جزو نہیں ہو سکتی۔ ”ہمہ از اوست“ یعنی سب کچھ اس کے اشارے پر ہوا۔ یہ فلسفہ ”وحدت الشہود“ کہلاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی اس فلسفے کے علمبردار ہیں۔ ]1[

مکمل اُردوشاعری پر عموماً اور دبستانِ دلّی کی شاعری پر خصوصاً تصوف کا رنگ غالب تھا۔ یہ رنگ اس زمانے میں عالمگیر تھا۔ وجہ یہ تھی کہ شعرا اکثر صوفی مشرب ہوتے یا کم از کم آخر عمر میں ہوجایا کرتے تھے۔ پیری مریدی کا بازار گرم تھا۔ فارسی شعرائے متاخرین کی شاعری تصوف میں ڈوبی ہوئی تھی اور اُردو شاعری اسی کی نقل میں لگی ہوئی تھی۔ دکن میں شاعری کی ابتدا مذہب سے ہوئی اور تصوف مذہب کا جزوِ اعظم تھا۔ انھیں اسباب سے اُردو شاعری پر بھی تصوف کا رنگ اچھا خاصا چڑھ گیا]2[۔(اس موضوع پر بھی خاصی بحث ہو چکی ہے: کہ ”تصوف، مذہب کا جزو نہیں“۔ لیکن اس کا بیان یہاں شاید مناسب نہ ہوگا)]3[۔

دردؔ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے اہم شاعر اور صوفی منش شخصیت تھے۔ دردؔ کا سلسلہ نسب،والد خواجہ محمد ناصر عندلیبؔ کی طرف سے خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور والدہ کی طرف سے حضرت غوث اعظم قادریہ سے ملتا ہے، اس لیے عین عالمِ شباب یعنی انتیس(29) برس کی عمر میں ترکِ دنیا کی اور باپ کی وفات پر 29 برس کی عمر میں سجادہ نشین بنے۔ اس لیے اُن کی شاعری میں بھی تصوف کی جڑیں مضبوط ہونے لگی۔

؎پھولے گا اس زمیں میں بھی گلزارِ معرفت

میں یاں زمینِ شعر میں وہ تخم بو گیا

دردؔ کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے تھا]4[۔ جس کے بارے میں ”نالہئ درد“ میں لکھتے ہیں: ”محفل میں ہوتے ہوئے تنہا رہنا ہمارے طریقہ نقشبندیہ کی کیفیات میں سے ہے اور وطن میں ہوتے ہوئے بھی سفرمیں رہنا اس سلسلہئ عالی والوں کے ارادے اور حالات میں سے ہے“۔]5[

اپنے بارے میں لکھتے ہیں: ”جوانی میں یہ فقیر کچھ عرصہ دنیا داری میں گرفتار رہا لیکن اُس کے فضل سے ابھی جوانی کے کچھ دن باقی تھے کہ اس غفلت سے نجات مل گئی اور انتیس (29) سال کی عمر میں مَیں نے درویشی اختیار کر لی۔“ ]6[

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا خواجہ میردردؔ ایک درویش اور خدا رسیدہ بزرگ خواجہ محمد ناصر عندلیبؔ کے نورِنظر تھے۔ کچھ اپنی طبیعت کی افتاد اور کچھ اس مردِ درویش کی صحبت کا فیض کہ اٹھائیس برس کی عمر میں کاروبارِ دنیا سے منھ موڑکر درویشی اختیار کر لی اور انتالیس برس کی عمر میں والد کی رحلت کے بعد مسند نشینِ ارشاد ہو گئے۔ شاعری پہلے بھی کرتے تھے۔ گوشہ نشینی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر اندازِ کلام یکسر بدل گیا۔ اب صوفیِ صافی تھے اور معشوقِ حقیقی کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر۔ پھر شاعری میں بھی اس دائرے سے باہر قدم رکھنے کو ایک صوفی کی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ چناں چہ ان کا بیشتر کلام ایک متصوفانہ رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ ]7[

؎ جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

کلامِ دردؔ کی اسی رنگ کو دیکھ کر مولانا محمد حسین آزادؔ نے فرمایا کہ ”تصوف جیسا انھوں نے کہا اُردو میں آج تک کسی سے نہیں ہوا۔“ ]8[

تاریخِ ادب اُردو کے مؤلف جناب رام بابو سکسینہ نے یہاں تک لکھ دیا کہ ”خواجہ میر درد کے شعر میں معشوق سے مراد معشوقِ حقیقی یا مرشد ہے۔“]9[

؎تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

مولانا عبدالسّلام ندوی شعرالہند میں لکھتے ہیں: ”جس زمانے میں اُردو شاعری، اُردو شاعری ہوئی، خواجہ میر دردؔنے سب سے پہلے اس زبان کو صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔“ عظمت اللہ خان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ”(دردؔ) اُردو میں صوفیانہ شاعری کے باوا آدم ہیں“۔

؎بیگانہ گر نظر پڑے تو آشنا کو دیکھ

بندہ گر آئے سامنے، تو بھی خدا کو دیکھ

اگر چہ سید عبداللہ نے ان خیالات اور آرا کو ”غلط فہمی“ کہاہے کہ دردؔ پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اُردو زبان کو صوفیانہ خیالات سے آشنا کیا۔ اور اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ درد ؔ کے کلام کی عظمت اُن صوفیانہ عقائد ومسائل کی وجہ سے ہے جو اُن کے اشعار میں بیان ہوئے ہیں ]01[۔ بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے جسے ہم تنقید نگاروں پر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن دردؔ کی شاعری میں تصوف کا رنگ جس طرح غالب ہے شاید کسی اور کی شاعری میں ہو۔ اور دبستانِ دلّی کی شاعری کی تو یہ ایک مستقل خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہاں تصوف کا رنگ ہر شاعر اور ہر ادیب پر پڑا نظر آتا ہے۔ لیکن دردؔ مستقل طور پر ایک صوفی تھے اور اُن کی شاعری ایک صوفی کی شاعری ہے۔

؎ وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے

پردے تعیّنات کے جو تھے اُٹھا دیے

؎ وحدت میں تری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال کہ تجھے منھ د کھا سکے

دردؔ کے مندرجہ ذیل اشعار کو پڑھیے اور دیکھیے کہ اِن میں اُس صوفی شاعر کی آواز اس دور کے غیر صوفی شعرا سے کتنی مختلف ہے۔

؎ کسی سے کیا بیاں کیجے اِس اپنے حا لِ ابتر کو

دل اُس کے ہاتھ دے بیٹھے جسے جانا نہ پہچانا

؎ شب و روز اے درد ؔ درپے ہو اس کے

کسو نے جسے یا ں نہ سمجھا نہ دیکھا

دردؔ ایک صوفی تھے لیکن تصوف میں جس مقام پر وہ پہنچے، بہت کم لوگ اُس مقام تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اس لیے دردؔ نے تصوف کا ہر پہلو اپنے کلام میں بیان کیا۔ مثلاً: عرفانِ ذات، عرفانِ خداوندی، احترامِ آدمی، وحدت الوجود، وحدت الشہود وغیرہ کے مضامین اُن کے کلام میں جابجا ملتے ہیں۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ میں اس لڑائی میں پڑنا نہیں چاہتا۔ میں ایک صوفی ہوں اور میری نظر صرف منزل پر ہے۔ اُن کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ وحدۃ الشہود عین شریعت کے مطابق ہے۔ شاید وہ اس نظریے کے قائل تھے۔ بعض کے مطابق وہ وحدۃ الوجود کے قائل ہے۔ اور ان دونوں نظریوں کے متعلق اشعار اُن کے کلام میں موجود ہیں۔ جس طرح وہ فرماتے ہیں: ؎جگ میں آکر ادھر اُدھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

؎وحدت نے ہر طرف ترے جلوے دکھا دیے

پردے تعیّنات کے جو تھے اُٹھا دیے

؎نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر

جدھر دیکھتا ہوں وہی روبرو ہے

؎ کون سا دل ہے وہ جس میں آپ

خانہ آبا د تو نے گھر نہ کیا

؎ کھل نہیں سکتیں ہیں اب آنکھیں مری

جی میں یہ کس کا تصّور آگیا

؎ دین و دنیا میں تو ہی ظاہر ہے

دونوں عالم کا ایک عالم ہے

؎ غافل خدا کی یا د پہ مت بھول زینہار

اپنے تیئں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

؎ یارب! یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

دنیا کی بے ثباتی]] بھی تصوف اور صوفیوں کا اہم موضوع ہے جسے بھی دردؔ نے دیگر شعرا سے ہٹ کر بہترین پیرائے میں بیان کیا ہے۔ چوں کہ صوفی راہِ طریقت کا مسافر ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا اور دنیا کی ہر چیز اُن کی نظر میں ہیچ ہوتی ہیں۔ اور ان چیزوں کو وہ ناپائیدار سمجھتے ہیں اس لیے یہاں کی کسی چیز سے دل لگانا بھی احمقانہ فعل جانتے ہیں۔ دردؔ کی شاعری میں جابجا دنیا کی بے ثباتی، ناپائیداری اور کم ظرفی کا ذکر ملتا ہے۔

؎ وائے نادانی بوقتِ مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

؎ عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں


؎ مانند ِ حباب آنکھ تو اے دردؔ کھلی تھی

کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا

تسلیم کرنا چاہیے کہ دردؔ کا اصل رنگ وہ ہے جو ان کے متصوفانہ کلام میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کلام بلاشبہ خواجہ میر دردؔ کی زندگی کا آئینہ ہے۔ کاروبارِ دنیا سے تعلق منقطع کرلینے کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے اور قناعت کی زندگی گزارنے لگے۔ اب اُنھوں نے اپنی شاعری کو درسِ اخلاق اور تصوف کی تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔]11[

؎ ارض و سماں کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

؎ کیا فرق داغ و گُل میں اگر گُل میں بُو نہ ہو

کس کام کا وہ دل ہے جس دل میں تو نہ ہو

؎ مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے

زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

؎ ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے

تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے

؎ مدرسہ یا دیر تھا کعبہ یا بت خانہ تھا

ہم سبھی مہمان تھے واں تو ہی صاحب خانہ تھا

بہر حال دردؔ کی شخصیت اُردو شاعری میں ایک خاص شخصیت ہے۔ اپنے معاصرین پر اور نیز بعد کی نسلوں پر اُن کی شاعری کا ایک گہرا اثر پڑا۔ تصوف کے رنگ میں وہ بے نظیر اور بے مثال ہیں۔]21[

حوالہ جات[1][1][1][2] [2][3][4][5][6] [7][8][9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ سنبل نگار: اُردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ
  2. ^ ا ب رام بابو سکسینہ: تاریخِ ادبِ اُردو (اُردو ترجمہ مرزا محمد عسکری)
  3. علی عباس جلال پوری: عام فکری مغالطے (عنوان:یہ کہ تصوف مذہب کا جزو ہے)
  4. ڈاکٹر سلیم اختر: اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ (اُردو ترجمہ مرزا محمد عسکری)
  5. میر دردؔ: نالہئ درد،
  6. میردردؔ: نالہئ درد،
  7. آبِ حیات
  8. رام بابو سکسینہ: تاریخِ ادبِ اُردو (اُردو ترجمہ مرزا محمد عسکری
  9. سید عبد اللہ: ولی سے اقبال تک