درویش محمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
درویش محمد
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 6 فروری 1444ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 4 نومبر 1562ء (118 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ زاہد وخشی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ درویش محمد نقشبندیہ سلسلہ کے معروف اکابرین میں شامل ہیں انھیں خواجہ ڈنہ بھی کہا جاتا ہے۔

ولادت[ترمیم]

درویش محمد کے بچپن کے حالات پردہ اخفا میں ہیں۔ صرف اسی قدر پتہ چلتا ہے کہ آپ 16 شوال 846ھ بمطابق 6 فروری 1444ء کو اسقرار (ترکی کے ایک گاؤں) میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون اور ولی کامل عارف باللہ محمد زاہد کی بہن تھیں۔ اسی نسبت سے آپ کی تربیت پر خاص توجہ دی گئی۔

ولی کامل کی پیشین گوئی[ترمیم]

آپ نہایت ہی عظیم المرتبت اور صاحب فضیلت بزرگ مانتے جاتے تھے لیکن مخلوق کی کثرت سے بچنے کے لیے آپ نے بچوں کو تعلیم و تدریس دینی شروع کردی تھی۔ اسی لیے لوگ آپ کو ایک مولوی ہی سمجھتے تھے اور آپ نے بھی اسی کو غنیمت جانا اور اسی پر پوری توجہ رکھی۔ لیکن ایک روزنور الدین خوانی آپ کے علاقے میں آئے تو اپنے فرزند ارجمند امکنگی سے درویش محمد سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا اور اپنے فرزند عزیز کے ہمراہ شیخ نور الدین خوانی کی ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ جب آپ شیخ نور الدین کی خدمت میں پہنچے تو اس وقت شیخ نور الدین ٹوپی اور کرتا پہنے ہوئے بے تکلف بیٹھے تھے۔ آپ کو دیکھ کر شیخ نور الدین فورًا اٹھے اور پرجوش معانقہ کیا اور بڑی دیر تک بغلگیر رہے۔ پھر شیخ نور الدین نے اپنی دستار مبارک سر پر سجائی اور جبہ مبارک زیب تن فرمایا اور دوزانو مراقب ہوکر آپ کے حضور بیٹھ گئے۔ جب تک آپ وہاں تشریف فرما رہے شیخ نور الدین اسی حالت میں رہے۔ جب آپ نے واپسی کا قصد فرمایا تو شیخ نور الدین نے کچھ دور چل کر آپ کو رخصت فرمایا۔ اس کے بعد شیخ نور الدین نے لوگوں سے پوچھا کہ طالبان معرفت و حقیقت کی درویش محمد کے پاس کافی آمد و رفت ہوگی تو لوگوں نے عرض کیا کہ جناب یہ تو کوئی شیخ نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایک مولوی ہیں جو بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ سن کر شیخ نور الدین نے فرمایا کہ یہاں کے لوگ کس قدر نابینا اور مردہ دل ہیں کہ ایسے ولی کامل اور مرد قلندر سے اکتساب فیض نہیں کرتے۔
شیخ نور الدین کے اس کلام کے مشہور ہوتے ہی آپ کے پاس طالبان خدا کا تانتا بندھ گیا۔ لوگ آپ کی خدمت میں آکر معرفت الٰہی کی تحصیل کرنے لگے، لیکن آپ ہمیشہ اپنی عزلت اور گوشہ نشینی کو یاد فرماتے

خضر سے ملاقات[ترمیم]

درویش محمد کو اپنے ماموں زاہد وخشی سے نیابت و خلافت حاصل تھی۔ بیعت سے تقریبًا پندرہ سال پہلے ہی آپ کے بے چین اور خدا کی محبت کے طالب دل کو کسی کل چین نہیں پڑتا تھا اور ہمہ وقت زہد و عبادت میں مشغول رہتے اور خلوت نشینی کی حالت میں بغیر کھائے پیئے اکثر ویرانوں کی سیر کرتے تھے۔ اسی عالم میں ایک روز بھوک کی شدت کے باعث آپ نے اپنا رخ انور آسمان کی طرف اٹھایا تو اسی وقت خضر علیہ السلام کو اپنے سامنے موجود پایا۔ خضر علیہ السلام نے اپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر صبر و قناعت مطلوب ہے تو محمد زاہد کی خدمت میں جاکر قدمبوسی کا شرف حاصل کرو اور ان کی صحبت کو اختیار کرو، وہ تمھیں صبر و قناعت سکھادیں گے۔ اتنا سننا تھا کہ آپ اسی وقت محمد زاہد کی طرف چل دیے اور آپ کی خدمت میں پہنچ کر شرف بیعت حاصل کیا اور مسلسل ریاضت و مجاہدے سے درجہ کمال و ارشاد تک پہنچے اور محمد زاہد کے انتقال فرمانے کے بعد آپ جانشین مقرر ہوئے اور آپ کے طریقۂ عالیہ کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آپ پر بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبت و معرفت کا غلبہ رہتا تھا اسی لیے آپ نے تنہائی کو پسند فرمایا۔ لیکن محمد زاہد کے وصال کے بعد آپ زیادہ عرصہ مخلوق کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کے مراتب عالیہ کو مخلوق پر ظاہر فرمایا۔[1]

باطنی تصرف[ترمیم]

آپ کے ایک ہمعصر بزرگ حسین خوارزمی اپنے وقت کے مقتدر اور صاحب نسبت و تصرف بزرگ تھے۔ آپ جہاں کہیں بھی تشریف لے جاتے وہاں کے مشائخ کی آپ کے روحانی تصرف کے سامنے کوئی حیثیت نہ رہتی اور جو بزرگ و درویش آپ سے ملاقات کے لیے آتا، آپ روحانی توجہ سے اس کی باطنی نسبت سلب فرمالیتے۔ ہوتے ہوتے یہ بات درویش محمد تک بھی جا پہنچی، لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔ ایک مرتبہ حسین خوارزمی کا گذر آپ کے علاقے سے ہوا تودرویش محمد نے بھی حسین سے ملاقات کا ارادہ ظاہر فرمایا اور کہا کہ ہم کو بھی حسین کی ملاقات کے لیے جانا چاہیے۔ یہ کہہ کر آپ نے توجہ فرمائی اور حسین کی نسبت اپنے باطن میں سلب فرما لی۔ ادھر حسین نے اپنے آپ کو نسبت سے خالی پایا تو نہایت درجہ حیران اور پریشان ہوئے، ادھر درویش محمد آپ سے ملاقات کے لیے سواری پر سوار ہوئے تو حسین نے اپنے باطن میں نسبت کی خوشبو پائی۔ اسی وقت سواری کا اونٹ منگوایا اور اس خوشبو کی طرف چل دیے۔ جس قدر آپ اس خوشبو سے قریب ہوتے چلے جاتے اپنی گم شدہ نسبت کی خوشبو زیادہ محسوس کرتے۔ آخر راستے میں دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی تو وہ خوشبو بھی یکدم ختم ہو گئی۔ اس وقت حسین نے جانا کہ میری نسبت درویش محمد نے سلب فرما لی ہے۔ آپ اسی وقت درویش محمد کے قدموں پر گر پڑے اور نہایت عاجزی و انکسار کا اظہار فرمایا اور عرض کیا کہ جناب مجھے علم نہ تھا کہ یہ اقلیم آپ کے زیر حکومت ہے۔ مجھے معاف فرمائیے اور اب میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ آپ کو حسین کی آہ و زاری پر رحم آگیا اور آپ نے ان کی باطنی نسبت واپس فرما دی۔ جیسے ہی حسین نے اپنے باطن کو نسبت سے معمور محسوس کیا تو اسے غنیمت جان کر اسی سواری پر انہی قدموں اپنے وطن مالوف کی طرف روانہ ہو گئے۔
یہ تھا آپ کا باطنی تصرف اور روحانی مقام کہ جہاں پر آپ قیام فرماتے تھے لوگوں کو فیض سے نوازتے تھے تو کسی دوسرے کو وہاں تصرف حاصل نہ ہوتا تھا۔ آپ کی ذات اقدس کے باعث طریقہ نقشبندیہ کو بڑا فروغ حاصل ہوا اور ایک خلق نے آپ سے تکمیل کے مراحل طے فرمائے۔

وصال[ترمیم]

آپ کا وصال بروز جمعرات 19 محرم الحرام 970ھ بمطابق 1562ء کو ہوا۔ آپ کا مزار اقدس آپ کے آبائی گاؤں اسقرار (سبزوار)(ماوراء النہر) میں ہی مرجع خاص و عام ہے۔[2][3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مختصر تاریخ اسلام ہند صفحہ 25 مورخ مولوی سید محمد رفیع کمہیڑہ
  2. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ211 تا 213 ناشر مشتاق بک کارنر لاہور
  3. سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سرداریہ