دلبر نظری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دلبر نظری
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1958ء (عمر 65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت افغانستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کابل   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

دلبر نظری (پیدائش 1958) ایک افغانی سیاست دان ہیں جو خواتین کے امور کی آخری وزیر تھیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم[ترمیم]

دلبر نظری صوبہ بلخ کے ضلع خلم سے تعلق رکھنے والی ایک ازبک خاتون ہیں۔ انھوں نے بلخ کے ٹیچرز ٹریننگ سینٹر سے ڈگری اور کابل یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ۔[1][2]

پیشہ[ترمیم]

دلبر نظری سمنگان کے  نعیمشاہد ہائی اسکول میں استاد اور پرنسپل  بھی رہیں۔ وہ یونیسیف میں کام بھی کرتی رہیں۔ وہ 2005 سے 2010 تک سمنگان کی رکن پارلیمنٹ رہیں۔ انھوں نے الیکٹرانک قومی شناختی کارڈ کی ترقی کے لیے وزارت داخلہ کے محکمے میں کام کیا۔انھیں سی ای او  عبد اللہ کی ٹیم نے قومی اتحاد کی حکومت کی کابینہ کے لیے نامزد کیا تھا اور اپریل 2015 میں انھیں خواتین کے امور کی وزیر مقرر کیا گیا  جو اس وقت کابینہ میں مقرر کی گئی چار خواتین میں سے ایک تھیں دلبر نظری کا بھائی وزارت میں مشیر کے طور پر کام کرتا ہے۔[3][4][5].[6] وہ کہتی ہیں کہ اسے  بطور محرم بھائی کی ضرورت ہے۔

13 جولائی 2016 کو دلبر نظری کے خلاف ایوان زیریں میں عدم اعتماد کا ووٹ لایا گیا جس میں ان پر بدعنوانی اور پیشہ ورانہ غیر موثر ہونے کا الزام لگایا گیا، جو حکومتی وزراء کے خلاف اس طرح کی تحریکوں کے ایک طویل سلسلے میں سے ایک ہے۔

وہ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ سے بال بال بچ گئیں۔یہ وزراء کے خلاف اس طرح کی تحریکوں کے ایک طویل سلسلے  کی کڑی تھی جو ایک طویل عرصے سے پارلیمنٹ میں پراکسی کے ذریعے سیاسی محاذ آرائی کا ذریعہ بنی ہوئی تھی ۔ تاہم  ارکان پارلیمنٹ حال ہی میں خود اس طرز عمل سے اکتا گئے  یوںوہ عدم اعتماد کے ووٹ سے بچ گئیں


لیکن اس ووٹ کو شکست ہوئی ۔

اکتوبر 2016 میںدلبر نظری بی بی سی کے پروگرام اوپن جرگہ میں تمام خواتین کے پینل پر نمودار ہوئیں، جس میں گذشتہ روز شہر میں ہونے والے بم دھماکوں اور حملوں کے باوجود برابری کے مسائل پر بات کی گئی۔ 13 دسمبر 2016 کو، نظری نے صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں 87 فیصد سے زیادہ خواتین محفوظ نہیں ہیں، ان کا کہنا تھا کہ "محرومیت نے پورے ملک میں خواتین کے لیے بہت سے خطرات پیدا کیے ہیں۔" اس کی وزارت نے پچھلے نو مہینوں میں خواتین کے خلاف تشدد کے 4,000 سے زیادہ کیسز ریکارڈ کیے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Cabinet overview: Who's who"۔ Afghanistan Today۔ 22 April 2015۔ 07 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2017 
  2. "New minister seeks wider role for women in govt"۔ Sada-e Azadi۔ 20 April 2015۔ 08 جنوری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 جنوری 2017 
  3. "Nazari, Dilbar Mrs."۔ Who is who in Afghanistan?