دوست محمد قریشی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دوست محمد قریشی
معلومات شخصیت
پیدائشی نام دوست محمد
پیدائش 15محرم 1339ھ بمطابق 29 ستمبر 1920ء بروز بدھ، بوقت صبح صادق
بستی ریح کلاں، محمد پور دیوان، ضلع ڈیرہ غازی خان، برطانوی ہند (موجودہ ضلع راجن پور، پنجاب، پاکستان)
وفات 1974ء
ضلع بھکر
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت امام المناظرین علامہ دوست محمد قریشی
مذہب اسلام
رشتے دار علی محمد قریشی (والد) ، فیض محمد قریشی (بھائی)،محمد عمر قریشی (بیٹا)
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ، دارلعلوم دیوبند ہندوستان، دارالمبلغین لکھنؤ
پیشہ تدریس وخطابت،مبلغ ومناظر،تحقیق، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہلبیت، مبلغ ومناظر تنظیم اہلسنت والجماعت، تصانیف: اہلسنت پاکٹ بک ، جلاءالاذھان
باب ادب

دوست محمد قریشی پاکستانی سنی متبحر عالم دین، مبلغ ومدرس،خطیب ومناظر،محقق ومصنف اور شیخ طریقت تھے۔ آپ تنظیم اہلسنت پاکستان کے مرکزی مبلغ و مناظر اور فعال راہ نما تھے۔

نام ونسب[ترمیم]

آپ کا نام دوست محمد ولد علی محمد قریشی تھا۔ فیض محمد قریشی آپ کے بردارکبیر تھے۔ آپ قریشی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔

ولادت[ترمیم]

آپ 15محرم 1339ھ بمطابق 29 ستمبر 1920ء بروز بدھ بوقت صبح صادق بستی ریح کلاں، علاقہ محمد پوردیوان تحصیل جام پور ضلع راجن پور میں محمد علی قریشی کے ہاں پیدا ہوئے۔[1]

وطن[ترمیم]

آپ کا تعلق تحصیل کوٹ ادو (موجودہ ضلع کوٹ ادو)ضلع مظفرگڑھ صوبہ پنجاب، پاکستان سے تھا۔

حلیہ[ترمیم]

درمیانہ قد(مائل بطول) بارعب گول چہرہ،موٹی آنکھیں ان پر دارز پلکیں، فراخ پیشانی، ہوٹے اور گھنے بھنویں، متناسب اعضاء،مضبوط جسم ،سینہ تک بھرنے والی ڈاڑھی زیر لب کچھ سفید بال، اکثر سر مبارک پر دستار باندھتے کبھی کبھی عربی رومال بھی استعمال فرماتے تھے۔[2]

تعلیم[ترمیم]

آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن کریم ناظر مکمل فرمایا، بعد ازاں مقامی اسکول میں اردو تعلیم حاصل کرنا شروع کی چھ جماعتیں پڑھنے کے بعد دینی کتب پڑھنا شروع فرمایا، فارسی، اپنی والدہ محترمہ سے پڑھی۔ پھر محمد پور دیوان شہر میں واقع جامع مسجد میں مولانا شیر محمد کے پاس صرف پڑھی۔ جلالین شریف تک دیگر اسباق کی تعلیم اپنے وقت کے مشہور و معروف استاذ محمد حیات سے حاصل کی۔

علوم آليه[ترمیم]

علوم آلیہ کی تعلیم کے لیے مشہور زمانہ منطقی و فلسفی ماہر استاذ واحد بخش کے پاس کوٹ مٹھن حاضری دی۔

دیوبند اور ڈابھیل میں حصول تعلیم[ترمیم]

آپ نے دار العلوم دیوبند میں دو ہفتہ قیام فرمایا اور حسین احمد مدنی سے بخاری شریف کے اسباق پڑھے، ان سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے بعد آپ 1355ھ میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل بمبئی تشریف لیے گئے، کیونکہ ان دنوں اس وقت کے تمام نامور اساتذہ ادھر منتقل ہو چکے تھے۔[3]

مشہور اساتذہ[ترمیم]

آپ کے چند مشہور و معروف اساتذہ درج ذیل ہیں۔

نکاح[ترمیم]

1941ء میں پہلی شادی آرائیں خاندان میں ہوئی جس سے ایک صاحبزادہ الطاف الرحمن اور تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ آپ کا دوسرا نکاح بستی اوباڑوہ تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان میں سردار احمد شاہ کی بیٹی سے ہوا۔ نکاح کے بعد 1950ءمیں آپ حجازمقدس تشریف لے گئے اور واپسی پر رخصتی ہوئی۔ اس سے دو اولادیں ایک بیٹا محمد عمر قریشی اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کا روحانی تعلق خواجہ عبد المالک نقشبندی سے تھا۔ انھوں نے آپ کو خلافت بھی عطاء کی۔

تدریس وتبلیغ[ترمیم]

1944ء کے آخر میں مدرسہ مفتاح العلوم بستی اللہ بخش بنگلہ باڑھ میں تدریس وخطابت شروع کی۔ 15شعبان کو ایک خواب کی بنیاد پر شرک وبدعت کے خاتمہ کے لیے خان گڑھ میں طلبہ کے مصارف برداشت کرتے ہوئے دورہ تفسیر شروع کیا۔ جس میں تفسیر معارف القرآن از مفتی محمد شفیع کے دروس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ درس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات نے بھی شریک ہونا شروع کر دیا۔

احمد پور شرقیہ میں قیام[ترمیم]

حجاز مقدس سے واپسی پر کچھ سال احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور میں قیام فریاما ذاتی پلاٹ خرید کر مسجد و مدرسہ کی بنیاد رکھی اور محلہ کا نام قریش آباد تجویز فرمایا۔ مگر اہلیان شہر احمد پور شرقیہ نے حسب توقع تعاون نہ فرمایا جس کے پیش نظر آپ نے کوٹ ادو قیام کا مصمم ارادہ فرمایا۔ حضرت کے والد علی محمد قریشی کی قبر بھی محلہ قریش آباد ذاتی پلاٹ میں بنائی گئی۔

کوٹ ادو مستقل قیام[ترمیم]

خواجہ عبد المالک نقشبندی نے خرقہ خلافت عطاء فرمایا تو مخلوق خدا بکثرت آپ کے دست مبارک پر بیعت ہو کر فیض یاب ہونے لگی۔ آپ کاحلقہ ارادت زیادہ تر شمالی علاقہ (اٹک ، پنڈی ، سرگودھا، جھنگ، بھکر ، لیہ ) کی طرف بڑھنے لگا تو آپ نے محمد مسعود بانی مدرسه دار العلوم مدنیہ کوٹ ادو کے مشورہ سے اور بار بار استخارہ کے نتیجہ میں کوٹ ادو کو ہی منتخب فرمایا۔ چنانچہ 1964ء میں باقاعدہ کوٹ ادو منتقل ہو گئے۔ چوہدری فاروق احمد نے مسجد کے لیے رقبہ وقف فرمایا، جہاں پر جامع مسجد نقشبندی کی بنیاد رکھی گئی ساتھ ہی مدرسہ فرقانیہ کے نام سے تحفیظ قرآن مجید کا ادارہ قائم کیا۔

دارالمبلغین[ترمیم]

یہ درحقیقت اس تربیتی مرکز کا نام ہے جس کی بنیاد عبدالشکورفاروقی لکھنوی نے لکھنؤ میں رکھی تھی۔ اس مناسبت سے تنظیم اہل سنت نے بھی پاکستان میں دارالمبلغین کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ جس میں سید نور الحسن شاہ بخاری،دوست محمد صاحب قریشی، عبد الستار تونسوی،علامہ خالد محمود، محمد نافع محمدی شریف جھنگ،لال حسین اختر ، عبد الرحیم منہاج، مولانا محمد حیات،منظور احمد چنیوٹی،امین صفدر اوکاڑوی نے وقتاً فوقتاً فرق باطلہ کے خلاف عملی طور پر علما کو تیار فرمایا۔[4]

مشہور تلامذہ[ترمیم]

  • مفتی احمد الرحمن ،رئیس الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن
  • مصباح اللہ شاہ صاحب شیخ الحدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
  • حبیب اللہ مختار صاحب مدیر جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
  • بدیع الزمان استاذ حدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی
  • محمد ضیاء القاسمی صاحب سر پرست اعلی سپاہ صحابہ پاکستان
  • عبدالشکور دین پوری صدر مجلس علما اہل السنتہ پاکستان
  • منظور احمد چنیوٹی جنرل سیکٹری ختم نبوت مومنٹ پاکستان
  • عبد القادر آزاد خطیب بادشاہی مسجد جامع مسجد لاہور
  • غلام قادر خلیفہ مجاز احمد علی لاہوری ناظم تنظیم اہلسنت
  • محمد لقمان علی پوری مرکزی راہنما جمیعت علما اسلام پاکستان
  • عبد المجید شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ شرف الاسلام چوک سرور شهید
  • محمدعبد اللہ مرکزی لال مسجد اسلام آباد
  • حق نواز جھنگوی سر پرست سپاہ صحابہ پاکستان[5]

سیاست میں حصہ[ترمیم]

آپ کی طبع پر درویشی و تصوف کا غلبہ تھا مگر تقسیم پاک و ہند سے پہلے بھی اکابرین نے دوست محمد قریشی کو اپنے آبائی ضلع میں جمعیت علما ہند کا جنرل سیکرٹری مقرر فرمایا تھا۔تقسیم کے بعد 1970 الیکشن میں اکابرین جمعیت علما اسلام پاکستان کے حکم سے کوٹ ادو سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا اور پچیس ہزار کے قریب ووٹ لے کر جمیعت علما اسلام کے بینک ووٹ میں اضافہ فرمایا۔[6]

عادات وخصائل[ترمیم]

آپ طبعی طور پر خوش اخلاق غمخوار اور متواضع مزاج تھے۔ ہر ملنے والا یہ سمجھتا کہ جتنی محبت حضرت کو میرے ساتھ ہے اور کسی سے نہیں ناواقف ملتے وقت اجنبیت کا تصور ہی نہیں کر سکتا تھا، بلکہ یوں سمجھتا کہ مدتوں سے حضرت جانتے تھے۔عمومی طور پر کھانا کھاتے وقت احباب کو شریک فرماتے بلکہ اپنے ہاتھ سے لقمہ بنا بنا کر ان کے منہ میں دیتے ۔ معانقہ فرماتے تو عموماً پیشانی کا بوسہ لے کر آنے والے کا دل موہ لیتے۔

منہاج التبلیغ[ترمیم]

  • اہلسنت پاکٹ بک
  • جلاءالاذھان
  • جلاءالافہام
  • القول الجلی فی صلوۃ علی
  • ردالمطاعن
  • براھین اہلسنت دوحصے
  • مصباح المقررین
  • عظمت صحابہ
  • منھاج التبلیغ
  • مخزن التقاریر
  • مدلل عقیدے
  • تعارف خلفائے راشدین
  • کشف الطریقت عن المسائل معرفت والطریقت
  • التشریح علی التلویح
  • وضاحت النحو شرح ھدایۃ النحو
  • جامع المجربات الہاشمیہ
  • منھاج الالطباء
  • مناظرہ جھوک دایہ(جھنگ)
  • مناظرہ میراں ملھہ (ملتان)
  • نظام خالص اسلام
  • ماہنامہ دعوت اور تنظیم اہلسنت[7]

سفر آخرت[ترمیم]

26 مئی 197٤ء بروز اتوار بستی ملانوالی تحصیل و ضلع بھکر میں بعد نماز ظہر خطاب فرمایا۔ شام کو بھکر اسٹیشن پر پہنچے۔ ارادہ تھا کہ سلسلہ نقشبندیہ کے بزرگ خواجہ عبد المالک نقشبندی (جو ملتان میں زیر علاج تھے اور آپریشن ہونا تھا) کی خدمت میں ملتان حاضری دی جائے۔عشاء کی نماز ریلوے اسٹیشن بھکر کی مسجد میں ادا فرمائی۔ مرید ومتعلقین حاضر خدمت تھے۔ آپ ان سے وعظ و نصائح ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک عزیز نے بجلی کا بلب بجھا دیا۔ حضرت نے فرمایا میاں ہو سکتا ہے یہ چہرے پھر ایک دوسرے کو نہ دیکھیں بجلی جلنے دو یہاں تک کہ گاڑی کا ٹائم ہو گیا ملتان کا ٹکٹ لے کر پلیٹ فارم پر تشریف لائے۔احباب نے سونے کے لیے برتھ پر جگہ بنائی گاڑی بالکل جانے کے لیے تیار تھی کہ فرمایا سامان اتاراو دل میں کچھ تکلیف محسوس ہو رہی ہے۔ سامان اتار لیا گیا ساتھ ہی ریلوے ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب کو بلایا اس کے پاس مطلوبہ دوائی نہ تھی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی تو آپ نے نیچے کپڑے پر بیٹھ کر سب کو تو بہ کا گواہ بنایا۔ با آواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد فرمانے لگے۔ چار پائی پر اٹھا کر سول ہسپتال بھکر لے جایا گیا حضرت چار پائی پر آیتہ الکرسی پڑھتے گئے۔ سول ہسپتال کے ڈاکٹر نے جس وقت دیکھا تو نوشتہ تقدیر سناتے ہوئے انا لله وانا اليه راجعون پڑھنے لگا۔ آپ کی روح پرواز کر چکی تھی۔[8]

جنازہ وتدفین[ترمیم]

آپ کی میت کو بھکر سے کوٹ ادو لایا گیا جہاں پر ہزاروں کا مجمع آپ کا منتظر تھا تھا آپ کی نماز جنازہ عبدالستار تونسوی نے پڑھائی اور آپ کو آپ کے بھائی فیض محمد قریشی کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 12،خانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  2. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 18،خانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  3. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 26،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  4. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 91،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  5. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 120،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  6. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 107،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  7. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 98،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ 
  8. سوانح حیات علامہ دوست محمد قریشی ،از محمد عمر قریشی ،صفحہ 115،اشاعت اول 2006ءخانقاہ نقشبندیہ ہاشمیہ کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ