مندرجات کا رخ کریں

دیگر پسماندہ طبقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دیگر پسماندہ طبقات (یا او بی سی جو انگریزی کے Other Backward Castes کا اختصار ہے) اجتماعی اصطلاح ہے جسے حکومت ہند ان ذاتوں کے لیے مخصوص کر چکی ہے جو سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ یہ کئی سرکاری درجہ بندیوں میں سے ایک ہے، جن میں درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل بھی ایک ہیں۔ منڈل کمیشن کے مطابق ملک کی 52% آبادی دیگر پسماندہ طبقات پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ 1980ء میں پیش کی گئی تھی۔ نیشنل سیمپل آرگنائزیشن نے 2006ء میں یہ تناسب 41% بیان کیا۔[1][2][3]

دستور ہند میں او بی سی کو "سماجی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقات" قرار دیا گیا ہے اور حکومت ہند ان کی ترقی کی کوشاں ہے— مثلاً او بی سی کواو بی سی کو عوامی شعبہ میں ملازمتوں اور اعلٰی تعلیم میں 27% تحفظات حاصل ہیں۔ او بی سی کی فہرست بھارت کی سماجی انصاف اور تفویض اختیارات وزارت دیکھتی ہے جو حرکیاتی ہے کیونکہ اس میں ذاتیں اور برادریاں بڑھائی اور گھٹائی جاتی ہیں جس میں سماجی، تعلیمی اور معاشی عموامل کا دخل ہوتا ہے۔ حق معلومات قانون سے پتہ چلا ہے ان تحفظات کے باوجود صرف 12% او بی سی ہی ملازمتیں پاسکے ہیں جبکہ کچھ محکموں یہ تناسب 6.67% ہی ہے[4] 2015ء تک تعلیمی اداروں میں او بی سی کے لیے مختص مالی تعاون کا صحیح استعمال نہیں کیا گیا تھا یا کم استعمال ہوا تھا۔ اس میں بنیادی ڈھانچوں میں بہتری لانا اور اساتذہ کے تقرر میں 27% تحفظات پر عدم عمل آوری جیسے امور شامل تھے۔[5]

1985ء تک پسماندہ طبقات کے معاملات وزارت داخلہ کی پسماندہ طبقات کی اِکائی دیکھتی تھی۔ ایک علاحدہ وزارت فلاح و بہبود 1985ء میں بنی تھی (جسے 1998ء میں سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے طور اس کا بازتسمیہ ہوا)۔ اس کا مقصد درج فہرست طبقات، درج فہرست قبائل اور او بی سی کی فلاح و بہبود پر نظر رکھے۔ وزارت کا پسماندہ طبقات ڈیویژن او بی سی کی پالیسی، منصوبہ بندی اور پروگراموں کی سماجی اور معاشی تفویض اختیارات پر عمل آوری اور او بی سی کی بھلائی کے لیے دو ادارہ جات کے قیام سے جڑے معاملے دیکھتا ہے۔ یہ ادارہ جات قومی پسماندہ طبقات مالیہ و ترقی کارپوریشن اور قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات ہیں۔

حکومت کی ذمے داریاں

[ترمیم]

دستور ہند کی دفعہ 340 کی رو سے یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ او بی سی کی بھلائی کو فروغ دے۔

صدر جمہوریہ ایک کمیشن کا قیام کر سکتے ہیں جس میں وہ اشخاص شامل ہو سکتے ہیں جنہیں وہ مناسب سمجھیں تاکہ تحقیق ہو کہ سماجی اور تعلیمی پسماندہ طبقات کے حالات بھارت کے علاقے میں کیسے ہیں اور وہ مشکل حالات جن میں وہ مزدوری کرتے ہیں اور اس لیے کہ وہ مرکز یا کسی ریاستی حکومت ان اقدامات کی سفارش کرے جن سے ان کے حالات سدھریں، مشکلات دور ہوں، امداد حاصل ہوں، اور ایک حکم تاکہ ایسا کمیشن قائم ہو جو اس طور طریقوں پر عمل پیرا ہو جو اپنا عملی ضابطہ طے کرے۔...اس طرح قائم ہونے والا کمیشن اس کے حوالے کردہ معاملات کی تحقیقات کرے گا اور صدر جمہوریہ کو ایک رپورٹ پیش کرے گا جس میں ان حقائق پر روشنی ڈالی جائے گی جو تحقیق سے پتہ چلے ہیں اور اسی سے صوابدید کے مطابق مناسب سفارشات کرے۔

— 

1992ء کے ایک سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ سیول سروسیز میں 27% عہدے او بی سی کے حوالے کیے جائیں۔[6] اگست 2010ء میں ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ 27% تحفظات کے باوجود صرف 7% اہل امیدوار ہی نشستیں بھر پائے ہیں۔[7] یہ فرق ابتدائی اسکولوں میں کم بھرتیوں کے سبب سے ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے ان برادریوں کو ووٹ بینک کے طور استعمال کیا ہے۔ [حوالہ درکار]

شماریاتِ آبادی

[ترمیم]

پہلا پسماندہ طبقات کمیشن

[ترمیم]

نیچے مختلف مذاہب میں موجود ذاتوں کے زمرے موجود ہیں جو 1999ء-2000ء اور 2004ء–05ء کے اخذ کردہ ہیں:[8]

آبادی اور ذاتوں کی تقسیم بلحاظ مذہب
مذہب/ذات دلت درج فہرست طبقات اوبی سی پیش رفتہ ذاتیں/دیگر
ہندو مت 32.2% 5% 42.8% 26%
اسلام 0.8% 0.5% 39.2% 59.5%
مسیحیت 3.0% 30.8% 28.6% 39.3%
سکھ مت 19.1%[9] 0.9% 2.4% 77.5%
جین مت 0.0% 2.6% 3.0% 94.3%
بدھ مت 89.5% 7.4% 0.4% 2.7%
زرتشتیت 0.0% 15.9% 13.7% 70.4%
دیگر 2.6% 82.5% 6.25 8.7%
کل 19.7% 8.5% 41.1% 30.8%

پہلا پسماندہ طبقات کمیشن 29 جنوری 1953ء کو صدارتی حکمنامے کے تحت کاکا کیلکر کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ اس کمیسن نے 30 مارچ 1955ء کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس میں 2,399 پسماندہ طبقات یا برادریوں پر ایک مکمل رپورٹ پیش کی تھی جن میں 837 کو "سب سے پسماندہ" قرار دیا گیا تھا۔ کیلکر کمیشن کے سب سے قابل ذکر سفارشات اس طرح ہیں:

  1. 1961ء کی رائے شماری میں ذات واری اعداد شمار جمع کرنا؛
  2. سماجی پسماندگی کو روایتی بھارتی سماج کی کم تر موقف فراہمی سے جوڑنا؛
  3. سبھی عورتوں کو بطور طبقہ پسماندہ سمجھنا؛
  4. تکنیکی اور پیشہ ورانہ اداروں میں 70 فی صد نشستوں کی پسماندہ طبقات کو فراہمی؛
  5. سبھی خالی سرکاری اور مقامی اداروں کی جائدادوں کو پسماندہ طبقات کے لیے محفوظ کرنا۔

کمیشن نے ذات کو پسماندگی کا معیار قرار دیا۔ تاہم حکومت نے ان سفارشات کو منظور نہیں کیا۔[حوالہ درکار]

منڈل کمیشن

[ترمیم]
این ایف ایچ ایس سروے سے صرف ہندو او بی سی آبادی کا اندازہ لگایا گیا۔ مکمل او بی سی مسلمان او بی سی آبادی کو ہندو او بی سی کے تناسب میں تصور کرتے ہوئے اخذ کی گئی ہے۔

دوسرا پسماندہ کمیشن سرکاری طور 1 جنوری 1979ء کو صدر جمہوریہ کی جانب سے قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کو، جسے عرف عام میں منڈل کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، بی پی منڈل کی قیادت میں قائم ہوا تھا۔ اس کمیشن نے دسمبر 1980ء کو اپنی رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق او بی سی آبادی جو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں پر مشتمل ہے، آبادی کا 52 فیصد حصے پر مشتمل ہیں۔1979ء-80ء میں منڈل کمیشن کی ابتدائی فہرست کے مطابق پسماندہ طبقات اور برادریوں کی تعداد 3,743 تھی۔[10][11]

مرکزی فہرست میں او بی سی کی فہرست اب بڑھ کر 2006ء میں قومی کمیشن برائے پسماندہ طبقات کے مطابق 5,013 ہو گئی (جس میں زیادہ تر مرکزی زیر انتظام علاقوں کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں)۔[12][13][14] منڈل کمیشن 11 اشاریے تیار کیا جن سے او بی سی کی شناخت کی جا سکتی ہے۔ ان میں سے چار معاشی اشاریے ہیں۔[15]

تاہم یہ پیش کردہ معلومات پر تنقید ہوئی [کس نے؟] کہ "فرضی حقائق" پر مبنی ہے۔ نیشنل سیمپل سروے یہ عدد کو 32% بتاتی ہے۔[16] اس بات پر خاطر خواہ بحث ہوئی کہ او بی سی کی تعداد کتنی ہے۔ یہ عام طور سے تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قابل لحاظ ہیں، مگر منڈل کمیشن اور نیشنل سیمپل سروے دونوں کے اعداد و شمار سے کم ہیں۔[17] 27 فی صد تحفظات کی وکالت کی گئی تھی کیونکہ یہ ایک قانونی رکاوٹ تھی کہ کل تحفظات 50 فی صد سے زائد نہیں ہونے چاہیے۔ وہ ریاستیں جہاں او بی سی کے تحفظات پہلے ہی سے 27 فی صد سے آگے ہیں، وہ اس سفارش ہے غیر متاثر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے او بی سی کے تحفظات کے لیے حسب ذیل سفارشات رکھے:

  1. او بی سی امیدوار اگر مقابلے میں سیدھی قابلیت سے منتخب ہوں، تو ان کا معاملہ 27 تحفظات سے الگ ہے۔
  2. یہ تحفظات ہر سطح پر تحفظات پر بھی رائج رہے گا۔
  3. محفوظ کوٹا پُر نہ ہونے کی صورت میں تین سال تک جاری رہے گا اور اس کے بعد غیر محفوظ ہو جائے گا۔
  4. درج فہرست ذاتوں کی طرح اوبی سی کو عمر میں چھوٹ حاصل ہونا چاہیے۔
  5. درج فہرست ذاتوں کی طرح اوبی سی کے لیے روزنامچے کا نظام ہونا چاہیے۔
  6. رہائشی اسکولوں کی تعمیر۔
  7. علاحدہ ہاسٹلوں کی تعمیر۔
  8. لازمی پیشہ ورانہ تربیت۔
  9. سرکاری نشستوں اور تعلیمی اداروں میں نشستوں کا تحفظ۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "OBCs form 41% of population: Survey"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2016 
  2. "OBc count: 52 or 41%? - The Times of India"۔ The Times Of India۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2016 
  3. "OBCs make up 41% of population: Survey"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2016 
  4. "20 years after Mandal, less than 12% OBCs in central govt jobs" 
  5. "'Funds not used fully in educational institutions for OBC reservation'" 
  6. Kumar, D Suresh (25 September 2010)۔ "17 yrs after Mandal, 7% OBCs in govt jobs"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 27 اکتوبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اکتوبر 2010 
  7. Rajindar Sachar (2006)۔ "Sachar Committee Report(2004–2005)" (PDF)۔ Government of India۔ 02 اپریل 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 ستمبر 2008 
  8. "Sikhs constituted 63 per cent of the population. The population of Scheduled Castes is projected to have increased to 31-32 per cent as per Census 2001." 
  9. "BC, DC or EC? What lies ahead of the census- Haphazard lists and multiple definitions could pose hurdles in establishing identity during the caste count"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016 
  10. "OBCs: Who are they?-Reservation policy for OBCs: Who would benefit and what are the costs involved"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جولا‎ئی 2006 
  11. ""Time to curb number of backward castes""۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016 
  12. "The Muslim OBCs And Affirmative Action-SACHAR COMMITTEE REPORT"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016 
  13. "SECC 2011: Why we are headed for Mandal 2 and more quotas before 2019"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016 
  14. "Redesigning reservations: Why removing caste-based quotas is not the answer"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016 
  15. "The Tribune, Chandigarh, India — Main News"۔ Tribuneindia.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 ستمبر 2012 
  16. Arun Anand (24 May 2006)۔ "What is India's population of other backward classes?"۔ 26 مئی 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016