رائے احمد خاں کھرل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رائے احمد خاں کھرل
معلومات شخصیت
پیدائش 2 فروری 1777ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ساندل بار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 21 ستمبر 1857ء (80 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

رائے احمد خاں کھرل (1776ء-1857ء) 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں نیلی بار کے علاقے میں مقامی قبیلوں کی برطانوی راج کے خلاف بغاوت (گوگیرہ بغاوت) کے رہنما اور سالار تھے۔ [1] 21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔

تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔

رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے سے تھا وہ یہاں 1777ء میں پیدا ہوئے۔ انگریز دشمنی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں جب دلی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کے آثار دکھائی دینے لگے۔ اس وقت برکلے ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ اس نے کھرلوں اور فتیانوں کو اس وسیع پیمانے پر پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کر دیا کہ گوگیرہ ایک بہت بڑ ی جیل میں بدل گیا۔ ادھر برکلے یہ کارروائی کر رہاتھا ،تو دوسری طرف احمد خان کھرل نے راوی پار جھامرہ رکھ میں بسنے والی برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار کر لیا چنانچہ تمام مقامی سرداروں کی قیادت کرتے ہوئے رائے احمد خاں کا گھوڑ سوار دستہ رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ آور ہوا اور تمام قیدیوں کو چھڑالے گیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ خود قیدی بھی بڑی بے جگری سے لڑے۔ اس لڑائی میں پونے چار سو انگریز سپاہی مارے گئے۔ اس واقعہ سے ا نگریز انتظامیہ میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ رائے احمد خان گوگیرہ جیل پر حملہ کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت آس پاس کے جنگلوں میں جا چھپا۔ برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں ، عزیزوں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا اور پیغام بھیجاکہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دے ،ورنہ اس کے گھر والوں کو گولی مار دی جائے گی۔ اس پر رائے احمد خان کھرل پہلی مرتبہ گرفتار ہوا، مگر فتیانہ ، جاٹوں اور وٹوئوں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کو چھوڑ دیا گیا البتہ اس کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کر دیا گیا۔ اس دوران میں رائے احمد خان نے خفیہ طریقے سے بیک وقت حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی، مگر افسوس کہ کمالیہ کا کھرل سردار سرفراز اور علاقے کا سکھ سردار نیہان سنگھ بیدی دونوں غداری کر گئے اور اس سارے منصوبے سے ڈپٹی کمشنر کو اطلاع کر دی۔ دراصل سردار سرفراز کی رائے احمد خان کھرل سے خاندانی دشمن تھی۔ اس مُخبری پر برکلے نے چاروں طرف اپنے قاصد دوڑائے۔ برکلے خود گھڑ سوار پولیس کی ایک پلٹن لے کر تیزی کے ساتھ راوی کے طرف بڑھا تاکہ رائے احمد خان کھرل کو راستے میں ہی روکا جاسکے۔ اس دوران میں حفاظتی تدابیر کے طور پر گوگیرہ سے سرکاری خزانہ، ریکارڈ اور سٹور تحصیل کی عمارت میں منتقل کر دیے گئے اور گوگیرہ میں انگریز فوجیوں نے مورچہ بندیاں کر لیں۔ کرنل پلٹین خود لاہور سے اپنی رجمنٹ یہاں لے آیا۔ اس کے ہمراہ توپیں بھی تھیں۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد جب برکلے اپنی فتح یاب فوج کے ساتھ خوشی خوشی جنگل عبور کر کے گوگیرہ چھاؤنی کی طرف جا رہا تھا کہ احمد خاں کے ساتھی مراد فتیانہ نے صرف تیس ساتھیوں کے ہمراہ اس کا تعاقب کیا اور کوڑے شاہ کے قریب راوی کے بیٹ میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ برکلے کی تدفین بنگلہ گوگیرہ میں ہوئی ،جو اُن دنوں ضلعی ہیڈکوارٹر تھا۔ آج اس قبر کے کوئی آثار نہیں ملتے۔

انگریزوں کا پنجاب پر قبضہ[ترمیم]

1849ء میں انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر جب پنجاب پر قبضہ کر لیا تو راوی کے علاقے سے کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ اور دیگر خوددار خاندانوں کی مزاحمت پر قابو پانے کے لیے پاکپتن، اوکاڑہ، منٹگمری (موجودہ ساہیوال) گوگیرہ اور ہڑپہ کے علاقوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا گیا جس کا صدر مقام پہلے پاکپتن اور پھر گوگیرہ کو رکھا گیا۔

1857ء کی جنگ آزادی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی ہے لیکن رائے احمد خان کھرل شہید کا غیرت مند کردار تاریخ میں ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ نامساعد حالات اور قلیل ترین وسائل ہونے کے باوجود انھوں نے انگریز سامراج کی پالیسیوں سے 81 سال کی عمر میں بغاوت کی۔ 1776ءکو جھامرہ ضلع فیصل آباد میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونیوالے رائے احمد خاں نے انگریزی سامراج کی پالیسیوں کو للکارا اور ماننے سے انکار کر دیا اور دوسرے فتیانہ اور وینیوال قبیلوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اور انھوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ رائے احمد خان کو قابو کرنے کے لیے انگریز نے گوگیرہ بنگلہ کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ انگریزی فوجوں نے مجاہدین کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں بند کرنا شروع کر دیا۔ کچھ مجاہدوں کو دہشت پھیلانے کے لیے پھانسی بھی لگا دیا۔ ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ نواب بہاولپور نے اسلحہ کی صورت میں مجاہدوں کی مدد کی تھی۔ جن قبیلوں نے انگریز کا ساتھ دیا ان کو انعامات ‘ القابات اور جاگیروں سے نوازا گیا۔ مئی جون‘ جولائی کے مہینوں میںگھمسان کی جنگ جاری رہی۔ گوگیرہ بنگلہ میں مجاہدین کو قید میں رکھا گیا۔ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان نے اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ساتھ جیل پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ جس میں رائے احمد خان کھرل بھی زخمی ہوا۔ 16 ستمبر کو کمالیہ میں تمام زمینداروں کا ایک اجلاس ہوا اگر اجلاس میں آنیوالے سرداروں نے رائے احمد خان کا ساتھ دینے کا وعدہ تو کیا لیکن ان میں سے کسی نے اس اجلاس کی مخبری انگریز کو بھی کر دی۔ 17 ستمبر کو اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی انگریزی فوجوں نے جھامرے پر چڑھائی بھی کر دی لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ لیکن گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ اور تمام مال مویشی کو قبضہ میں لے لیا۔ گوگیرہ‘ چیچہ وطنی‘ ہڑپہ‘ ساہیوال میدان جنگ کی شکل اختیار کر گئے۔ 21 ستمبر 1857ءکو ایک بڑا معرکہ ہوا۔ انگریز فوج کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان شہید ہو گئے وہ اس وقت عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ سردار سانگ بھی شہید ہو گئے۔ 22 ستمبر کو برکلے کا آمنا سامنا دریائے راوی کے کنارے پر مجاہدین کے ساتھ ہو گیا۔ جس میں مراد فتیانہ اور سو جا بھدرو کے ہاتھوں برکلے مارا گیا۔ گورا فوج نے ان کو پکڑ کر کالے پانی بھجوا دیا۔

نیا ضلع بننے کے بعد کے واقعات[ترمیم]

صدر مقام میں ضلع کچہری، بخشی خانہ اور جیل تعمیر کی گئی۔

گوگیرہ کے بالمقابل راوی کے دوسرے کنارے پر واقع گاؤں جھامرہ میں کھرل قبیلے کا سردار احمد خان کھرل رہائش پزیر تھا۔

انگریز سرکار کی جانب سے صدر مقام میں لارڈ برکلے نامی گورے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا تو اُس نے علاقے کے سرداروں کو طلب کیا۔

معروف تاریخ دان محمد حسن معراج لکھتے ہیں کہ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نبٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛

"صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا" اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔ یہیں سے اصل جنگ شروع ہوئی۔ گوگیرہ میں انگریز دور کی عدالتوں کی عمارت جو اباسکول میں تبدیل ہو چُکی ہے

اگلے کچھ عرصہ میں انگریز نے علاقے کے بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جس کے نتیجہ میں احمد خان کھرل نے تمام قبائل کو متحد کرکے 26 جولائی 1857ء کو گوگیرہ جیل پر حملہ کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کروایا۔

انگریزوں کے صبر کی انتہا ہوئی تو احمد خان بھی زیر عتاب ٹھہرے۔ انگریز فوج نے اُن کی گرفتاری کے لیے جھامرے پر حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا کر عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔

بے گناہوں پر حملہ اس سردار کو للکار تھی سو اُس نے دیگر سرداروں کے ساتھ مل کر انگریز چوکیوں پر ایک ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی کمالیہ کے سردار کمال کھرل نے مخبری کر دی۔

21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب 'نورے دی ڈل' کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بڑی بہادری سے لڑے اور انگریز فوج کے کم و بیش بیس سپاہی مار دیے۔

اس جنگ میں احمد خان کھرل، ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سارنگ کھرل بھی شہید ہو گئے۔ جھامرہ میں احمد خان کھرل کا دربار

انگریز نے ساہیوال میں اپنے افسر برکلے کی ایک یاد گار بنوائی جو آج بھی یہاں موجود ہے۔

رائے احمد خاں کھرل[ترمیم]

دریا کے ساتھ ساتھ چلیں تو سید والہ سے آگے جھامرہ کا قصبہ ہے۔ اس قصبے میں ایک مزار ہے اور صاحب مزار اب صرف، پنجاب کو یاد کر کے، آہیں بھرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ کہنے کو تو اس سرہنگ زادے کی شہرت کا علاقہ، دریا کے دونوں جانب پھیلا ہے مگر بہادری کی سرحد نہیں ہوتی اور روایت جغرافیہ کو نہیں مانتی۔ اب ریل جہاں رکتی ہے اور جہاں نہیں رکتی ان تمام اسٹیشنوں کے آس پاس کھرلوں کی کہانیاں ہیں۔ زمین کی بندر بانٹ، ضمیر کی تجارت، مخبریوں کے قصوں اور سمجھوتوں کی باتوں سے قطع نظر، ان جاٹوں نے بہادری کی کئی داستانیں تحریر کی ہیں۔ مرزا کے بعد اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پہ فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے۔ تاریخ کے قبرستان میں، ان بہادروں کے ساتھ ساتھ، ان کے قصے کہنے والے بھاٹ بھی مدفون ہیں اور ان کے گائے ہوئے ڈھولے اور لکھے ہوئے وار بھی۔ مگر ایک وقت تھا کہ جب پنجاب کی مائیں، احمد خان کھرل کی کہانی لوریوں میں سنایا کرتی تھیں۔ کھرل اگنی کلا راجپوت ہیں اور اپنا تعلق رامائن کے کرداروں سے جوڑتے ہیں مگر کہانی میں کہیں مخدوم جہانیاں شاہ شریف بھی آتا ہے جہاں سے کھرلوں کی تاریخ مسلمان ہو جاتی ہے۔ کوئی نواب سعادت علی کھرل تھے جنہیں عالمگیر نے کمالیہ کی جاگیر دی اور یہ لوگ اس بار میں آباد ہو گئے۔ زمین کی سانجھے داریاں، مذہب کی تفریق سے گہری تھیں سو نکئی سردار گیان سنگھ، خزان سنگھ اور بھگوان سنگھ، رائے صالح خان کھرل کو اپنا بھائی گردانتے تھے۔ گیان سنگھ کی بیٹی، رنجیت سنگھ کی بیوی راج کور بنی تو کھرلوں نے بھی ڈولی کو کاندھا دیا۔ رائے صالح کا آخری وقت آیا تو اس نے سرداری کی پگڑی اپنے بیٹے کی بجائے اپنے بھتیجے احمد خان کے سر پہ رکھی اور کھرلوں کی سربراہی اسے سونپ دی۔ اسی دوران میں رنجیت سنگھ پنجاب کے تخت پہ بیٹھ گیا۔ جب پورا پنجاب سکھوں کے زیر نگین ہوا تو مہاراجا نے یہ معمول بنایا کہ ایک ایک علاقے میں جا کر عمائدین سے ضرور ملتا۔ سید والہ آمد پہ مصاحبین نے رائے احمد خان کا تعارف کروایا۔ مہاراجا نے احمد خان کو گلے لگایا اور اپنا بھائی کہا۔ سن سینتالیس ابھی بہت دور تھا۔ پنجاب کے حصول کی جنگ انگریزوں نے بہت سہج سہج کر لڑی۔ بھیرووال کے معاہدے سے لے کر لاہور میں جھنڈا لہرانے تک، مزاحمتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ تھا اور احمد خان کھرل کی جدوجہد بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ پنجاب کیا گرا، بار کے باسیوں پہ قیامت ٹوٹ گئی۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں سن ستاون ہو گیا۔ دلی اور میرٹھ میں جنگ کے شعلے بھڑکے تو بار میں بھی اس کی تپش محسوس ہوئی۔ انگریزوں نے شورش سے بچنے کے لیے پکڑ دھکڑ شروع کی۔ اس مقصد کے لیے جگہ جگہ جیل خانے بنائے اور باغیوں کا جوش ٹھنڈا کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایسی ہی ایک جیل گوگیرہ میں بھی بنی۔ سن ستاون کی پہلی گولی مئی میں چلی تھی۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان، برکلے کو ملے۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نپٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛ ’’صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘‘ اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔

انگریز فوج نے احمد خان کھرل کی گرفتاری کے سلسلے میں جھامرے پہ حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا دی اور بے گناہ عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔

اسی دوران میں گوگیرہ کے بہت سے خاندان قید کر لیے گئے۔ مقامی سرداروں نے حکام بالا کو لوگوں کی بے گناہی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخرکار مراد فتیانہ اور بہلول فتیانہ جیسے جی داروں کی معیت اور احمد خان کی سرداری میں ان لوگوں نے 24 جولائی 1858 کو گوگیرہ جیل پہ حملہ کر کے قیدیوں کو رہا کروا لیا۔ سامراج کے صبر کی انتہا ہوئی تو رائے احمد خان بھی زیر عتاب ٹھہرا۔ گوگیرہ کے برکلے نے ساہیوال کے مارٹن کو لکھا جس نے ملتان کے میجر ہملٹن کو لکھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں ملتان سے لاہور تک احمد خان کے چرچے، چھاؤنیوں اور کچہریوں تک جا پہنچے۔ اب جس عمر میں لوگ سمجھوتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں، احمد کھرل اس وقت جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔ جس وقت انگریز فوج جوان بھرتی کر رہی تھی، اس وقت اس کھرل سردار کی عمر 80 سے اوپر تھی۔

رائے احمد آکھے،​
جمنا تے مر ونجنا،
ایہہ نال ٹھوکر دے بھج جاونا،
کنگن اے کچی ونگ دا، آکھے لڑ ساں نال انگریز دے،​
جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ دا​

گوگیرا جس کا نام اب ساہیوال ہے کے اسسٹنٹ کمشنر انچارج نے ملتان ڈویژن کے کمشنر اور سپر نٹنڈنٹ کو بتاریخ 30 جنوری 1948ء لکھا کہ ’’7 ستمبر کی صبح کو مجھے مسٹر برکلے سے ایک مراسلہ ملا جس میں انھوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ احمد خان کھرل کو راستہ میں روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور جس کشتی میں اس نے دریا پار کیا ہے وہ دریا کے کنارے ایک ایسی کھاڑی میں لنگر انداز ہے جہاں ہماری بندوقوں کی گولیاں نہیں پہنچ سکتی ہیں۔ وہاں پر تعینات چوکیدار نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ کشتی کو کسی حالت میں واپس نہیں لے جانے دے گا چونکہ اسے اس کے متعلق سخت احکامات ملے ہوئے ہیں۔ احمد خاں اس علاقہ کا بادشاہ بنا بیٹھا ہے۔ وہ سردار خود مسٹر برکلے کے پاسے حاضر ہوا اور ان کے ڈانے دھمکانے کے جواب میں اسے کہنے لگا کہ اس نے حکومت برطانیہ کی اطاعت کو رد کر دیا ہے اور اب خود کو شہنشاہ دہلی کی رعایا تسلیم کرتا ہے جس سے اسے تمام ملک میں بغاوت کرانے کے احکامات ملے ہیں۔ اس کے بعد اس کے ساتھیوں نے گولا باری شروع کر دی جس کا جواب ہماری گھوڑ سوار فون نے دیا۔‘‘ احمد خان کھرل کی شہادت سے پہلے ہی دہلی کے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ احمد خان کھلر کے خلاف دس فوجی دستے کرنل پیٹن (ol Paton ) لفٹینٹ چیشٹر(t. Chichester) کیپٹن چیمبرلین (ap. Chamberlaine) کیپٹن سنو (apt. Snow) کیپٹن میک اینڈ ریو (apt. Macandrew) لیفٹینٹ نیوائل (t. Neville) اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی کمان میں بھیجے گئے تھے۔ احمد خان کی شہادت 21 ستمبر 1857ء کو ہوئی۔ احمد خان کے ساتھیوں نے Lt. neville اور اسسٹنٹ کمشنر برکلے کو بھی مار دیا تب جا کر ہیں نومبر میں امن قائم ہوا۔ مراد فتیانہ نے برکلے کو مارا تھا اور اس کے متعلق ایک مندرجہ زیل لوک گیت بھی رائج ہے۔

آکھے مراد فتیانہ: ساوی تینوں پھراں نت کھرکھرے
تے دیواں کھنڈ نہاری
ہک واری لے چل انگریز برکلی تے
میں ویکھاں اس دی بگھی کالی
ساوی آکھیا: توں کر بسم اللہ دھر پیر رکابے میں حاسداں مار اُڈاری
انگریز دا کلمہ گیا ڈھے سنہری
تے مُڑ ہینوں کڈھ برکلی نوں سٹوئس
جیویں مٹ وچوں لچھا لیندا جھول ہلاری

یہ واقعہ یوپی دہلی اور بہار میں جنگ ختم ہو جانے کے بہت عرصہ بعد کا ہے۔ امیر آف بہاولپور، پنجاب کی چار سکھ ریاستوں کے مہا راجائوں۔ اور پنجاب کے بڑے بڑے جاگریدار خاندانوں نے جو فویں انگریزوں کی مدد کو دی تھیں انھیں کی مدد سے انگریزوں کی مدد کو دی تھیں انھیں کی مدد سے انگریزوں نے دوبارہ طاقت پکڑ لی۔ پنجاب کے یہ جاگیر خاندان اس وقت بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پوری طرح حاوی ہیں یہ خبر دریا کے اس پار احمد خان کو بھی پہنچی۔ عورتوں پہ حملہ جاٹ کو للکار تھی سو وٹوؤں نے سیدوالہ میں بنے نئے تھانے پہ حملے کا مشورہ دیا مگر احمد خان جانتا تھا کہ تھانے میں پیٹ کا دوزخ بھرنے والے غریب سپاہی ملیں گے اور ان کے بھی بچے اور عورتیں ہوں گی۔ بات گھر تک آ پہنچی تو مقامی سرداروں نے اکٹھ کیا۔ نورے کی ڈل نامی اس جگہ پہ، راوی کے سب سردار اکٹھے ہوئے۔ ان میں وٹو، قریشی، مخدوم اور گردیزی بھی شامل تھے۔ انگریزوں کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں کچھ لوگ تو احمد خان کے ساتھ ہو گئے اور کچھ نے اس کو مشورہ دیا کہ سرکار سے جنگ نہیں کی جا سکتی ۔

پنجاب کے مزاج میں ایک دو آتشہ ہے۔ یہاں بھائیوں کی محبت میں محبوب لٹانے والی صاحباں بھی ملتی ہے اور مادھو کی محبت میں دشنام کمانے والا شاہ حسین بھی۔ اکٹھ میں بڑھ بڑھ کر بولنے والے کمالیہ کے سردار سرفراز کھرل نے رات پڑتے ہی گھوڑیاں سیدھی کیں اور گوگیرے بنگلے جا پہنچا۔ رات کے دو بجے تھے جب برکلے صاحب کو جگا کر سب کچھ بتا دیا۔

اگلی صبح، بانگوں سے پہلے بگل بجے اور باغیوں کی بیخ کنی کے لیے کیپٹن بلیک کی کمان میں رسالے کا دستہ روانہ ہوا۔ دوسرے پہر مزید کمک کی صورت ایک اور انگریز افسر، گشکوری کے جنگل جا پہنچا اور آخر میں برکلے بھی آن ملا۔

احمد خان سے منسوب تمام کہانیاں، کہیں نہ کہیں، موقع پہ موجود، دادے پھوگی سے ضرور جا ملتی ہیں۔ جنگ شروع ہونے سے ذرا پہلے جاٹ سردار نے اپنے ساتھیوں سے کچھ باتیں کیں۔ اب نہ تو احمد خان فاتح تھا اور نہ ہی انگریز، وگرنہ اس کی یہ تقریر محفوظ ہوتی اور اسکولوں میں نصاب کے طور پڑھائی جاتی۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ان لفطوں نے مٹھی بھر سواروں میں آگ بھر دی تھی۔ بار کے جاٹ ایسی بے جگری سے لڑے کہ توپخانے سے مسلح انگریزوں کے لشکر کو ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹنا پڑا۔

ظہر کے قریب، دھوئیں اور بادل کے ساتھ ساتھ انگریز فوج بھی چھٹ گئی۔ سردار نے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ تین چار درخت پرے برکلے بھی اپنے پنجابی سپاہیوں کے ساتھ چھپا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی جب ایک سپاہی نے ہاتھ کا کلاوہ بنا کر برکلے صاحب کو درخت کی اوٹ سے رائے احمد خان دکھایا۔ صاحب نے ’’گولی مارو‘‘ کا آرڈر دیا اور دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی میں سے کسی ایک نے گولی چلا دی۔

یہاں پہنچ کر وار سنانے اور ڈھول گانے والوں کے گلے رندھ جاتے ہیں۔ دادا پھوگی بتاتا ہے جس دن کھرل گرا، وہ محرم کا دسواں دن تھا۔ گولی لگتے ہی احمد خان سجدے میں گر گیا۔ کہانی، لفظوں کی سیڑھی پہ صدیوں کا زینہ چڑھتے ہوئے 1857 عیسوی سے 61 ہجری میں جا رکتی ہے۔ آن کی آن میں نورے کی ڈل، کربلا کا میدان بن جاتی ہے۔ فرق بس یہ ہے کہ اس بار حسین کی جگہ احمد خان کا سر نیزے پہ دھرا ہے۔ ’’باغیانہ سر‘‘، گوگیرہ کی جیل میں کڑے پہرے میں رکھا گیا۔

روایت ہے کہ پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ ایک رات اسے خواب میں احمد خان ملا اور کہنے لگا؛ ’’ میرا سر اس مٹی کی امانت ہے مگر انگریز اسے ولائت لے جا نا چاہ رہے ہیں‘‘۔

پہرے کی باری آ ئی تو سپاہی نے سر اتار کر گھڑے میں رکھا اور جھامرے لے آیا۔ یہ گرفتاریوں کا دور تھا اور سائے سے بھی مخبری کا خطرہ رہتا تھا سو سپاہی نے رات کے اندھیرے میں احمد خان کی قبر ڈھونڈھی اور کسی کو بتائے بغیر سر دفنا کر لوٹ گیا۔

رائے احمد خان کو گولی مار نے کے بعد برکلے نے مشیروں کے کہنے پہ اس کے زن بچہ کو بھی مروانے کا حکم دے دیا۔ سردار کی بیگم نے بچوں کو مراد فتیانہ کے گاؤں روانہ کیا اور ساتھ پیغام بھجوایا کہ تیرا بھائی مارا گیا ہے۔ مراد فتیانہ نے بچوں کے سر پہ ہاتھ رکھا اور گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ جاتے جاتے اپنی بیگم کو کہا کہ لوٹ آیا تو انھیں خود پالوں گا اور نہ آ سکا تو جہاں چار کا چوگا اکٹھا کرو گی، وہاں ان دو کا بھی کر لینا۔

فتح کی نشانی کے طور پہ انگریز افسروں نے پہلے جھامرے کو آگ دکھائی، پھر وٹوؤں کے کئی گاؤں نذر آتش کیے اور آخر کار پنڈی شیخ موسیٰ تک پہنچ گئے۔ دریا پار کرنے کی نوبت آ ئی تو دور جاٹوں کے بلارے سنائی دیتے تھے۔ برکلے نے خیال کیا کہ احمد خان کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں لہٰذا اس نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ تھوڑا آگے چل کر گھوڑا ذرا ٹھٹھکا اور پھر الف ہو گیا۔ پانیوں سے فتیانے کے مراد نے اٹھ کر برکلے کو پہلا نیزہ مارا۔ پے در پے وار ہوئے تو صاحب گھوڑے سمیت دریا برد ہو گیا اور انگریز سپاہ تتر بتتر ہونا شروع ہو گئی۔ سرکاری تاریخ اسے دلدل کی موت مانتی ہے جب کہ دادا کہتا ہے راوی سدا کا بے اعتبارا ہے۔

احمد خان کے بعد ملتان تک انگریزوں کے سامنے کوئی کھڑا نہ ہوا۔ کچھ عرصہ بعد برکلے کا بھائی، بڑا انگریز افسر ہو کر گوگیرہ آیا اور احمد خان کے بیٹے کو طلب کیا۔ پیش ہونے پہ برکلے کے بھائی نے محمد خان سے باپ کا خون بخشنے کو کہا۔ محمد خان نے جواب دیا کہ وہ بیٹا ہو کر باپ کا خون نہیں بخش سکتا۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا اور انگریز مزاج میں بھی مصلحت آئی تھی۔ لاٹ صاحب نے اٹھتے ہوئے بات یوں ختم کی؛ ’’ٹھیک ہے! تمھارا باپ مرا اور مرا بھائی، حساب برابر!! مگر اب راوی آباد رہنی چاہیے‘‘، سو راوی دوبارہ بس گئی۔

کئی دہائیوں بعد جب دوسری نسل جوان ہوئی تو ملک آزاد ہو چکا تھا۔ پوتے کو دادے احمد خان کی قبر پکی کروانے کی سوجھی۔ قبر کے ارد گرد بنیادیں کھودی جا رہی تھیں کہ ایک کدال گھڑے کو لگی۔ مزدوروں نے گھڑا توڑ ا تو اندر سر تھا۔ ایک سو دس سال پرانی وجاہت میں ذرا فرق نہیں پڑا تھا۔ داڑھی کے بال ویسے ہی باریک تھے اور آنکھیں ویسی ہی سالم تھیں۔ البتہ، جہاں نیزہ گاڑا گیا تھا وہاں ذرا ذرا نمی محسوس ہوتی تھی۔ عقیدت مندوں کو تو رستا ہوا خون تک دکھائی دے رہا تھا۔ رائے احمد خان کے پوتے نواب احمد علی خان نے جنازہ پڑھایا۔ سر تو جسم کے ساتھ دفن ہو گیا مگر کہانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھاٹوں کے لب و لہجے میں محفوظ ہو گئی۔ اب اسے حب حسین کہئے یا بغض معاویہ کہ کارل مارکس بھی ’’ساہیوال کے ان شہیدوں‘‘ کا تذکرہ کرنے سے نہیں چوکتا۔

انگریزوں نے زمین کے ان بیٹوں کا لہو بہا نے کا معاوضہ بھی زمین کی صورت ہی چکایا۔ پنجاب کی بغاوت کی رپورٹیں پڑھی جائیں تو ملتان کے گردیزیوں سے بار کے سیدوں تک تمام نام، پٹڑی کے ساتھ ساتھ سر سبز زمینوں کے مالکان کے ہیں۔ مراد فتیانہ کے بھائی نے بہاولپور کے نواب کو خط لکھا کہ مجھے اسلحے اور ہتھیاروں کی مد میں کچھ مالی امداد درکار ہے۔ نواب صاحب نے مدد تو خیر کیا کرنا تھی، الٹا چٹھی لے کر انگریز سرکار کے پاس چلے گئے۔ یہ چٹھی آج بھی پنجاب کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑی حکمران مزاجوں کا مزاق اڑاتی ہے۔

اوھنوں انکھی نہیں سمجھدی جیہڑا احمد خان دا دکھ وسارے

جنگ[ترمیم]

[2]

جنگ کی شروعات[ترمیم]

1857ء کی جنگ آزادی کے عظیم ہیرو رائے احمد نواز خان کھرل نے 21ستمبر کو حالت سجدہ میں یوم شہادت نوش کیا۔ 1776ء کو جھامرہ میں رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہونے والے کھرل قبیلے کے سردار رائے احمد نواز خاں نے 80سال کی عمر میں "ساوی" (رائے احمد خان کی گھوڑی کا نام) کی لگام تھامی اور انگریز سامراج پر ہلا بول دیا۔ راوی بار میں آباد سیال، فتیانہ، وہنی وال اور وٹو قبائل نے وطن کے اس عظیم بوڑھے سپوت کی قیادت میں عشق و وفا کی انمٹ داستانیں رقم کیں۔ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا اور بغاوت سے نپٹنے کے لیے ان سے گھوڑے اور جوان مانگے۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے برکلے کو جواب دیا کہ ”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا‘۔

تہی دست قبائل کا یہ 80 سالہ سردار جس وقت قومی غیرت کا نشاں بنے سامراج کے سامنے سینہ سپر کھڑا تھا۔ عین اسی وقت کچھ درگاہوں کے سجادہ نشین جاگیروں اور نقدی مال و زر کے عوض قومی غیرت و حمیت انگریز سامراج کے قدموں میں نچھاور کیے جا رہے تھے۔

پنجاب میں انگریزوں کے مددگار[ترمیم]

وکیل انجم اپنی کتاب "سیاست کے فرعون" میں رقم طراز ہیں کہ "10 جون 1857ءکو ملتان چھاونی میں پلاٹون نمبر69کو بغاوت کے شبہ میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو مع دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا۔ آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انھیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ اور پھر تھوڑا تھوڑا کرکے تہ تیغ کیا جائے گا۔ سپاہیوں نے بغاوت کر دی۔ تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاونی کے درمیان میں واقع پل شوالہ پر دربار بہاالدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی موجودہ شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا تھے اور ان کا نام انہی کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔

کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انھیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگا دیں کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا۔ جلالپور پیر والہ کے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں۔

مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی، جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال، ہراج، سرگانہ اور ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا۔ مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا۔

اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو 1857 کی جنگ آزادی کے کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیر، سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور 8 چاہات بطور معافی دوام عطا ہوئی۔ مزید یہ کہ 1860 میں وائسرائے ہندنے بیگی والا باغ عطا کیا۔

مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی۔

بغاوت کے شعلے[ترمیم]

حویلی کورنگا کے معرکے میں بظاہر سارے مجاہدین مارے گئے مگر علاقے میں آزادی کی شمع روشن کر گئے۔ حویلی کورنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کورنگا، قتال پور سے لے کر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصا دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی جانگلیوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی۔

نیلی بار میں بغاوت[ترمیم]

جانگلی علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گوگیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا۔ احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ کھرل جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے۔

جب درگاہوں کے سجادہ نشینوں کی طرف سے مجاہدین آزادی پر زمین تنگ کر دی گئی، ایسے وقت میں راوی بار میں رائے احمد نواز خان کھرل کا وجود ان کے لیے سایہ عاطفت ثابت ہوا۔۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے نہ صرف انگریز افسر برکلے کو گھوڑے اور جوان دینے سے انکار کیا، بلکہ معرکہ کورنگا سے بچ جانے والے مجاہدین کو بھی پناہ دی۔ ادھر جولائی کے پہلے ہفتے دریائے ستلج کے کنارے آباد وٹو قبیلے نے انگریز سرکار کو لگان ادا کرنے سے انکار کیا تو انگریز نے ان پر چڑھائی کر دی۔ ان کے مال مویشی ہانک کر لے گئے اور بستیوں کو آگ لگا دی۔ اسی دوران میں گوگیرہ کے بہت سے خاندان قید کرلئے گئے۔ انگریز کے اس اقدام کی خبر جب رائے احمد خان کھرل کو پہنچی تو ان کا خون کھول اٹھا۔ اور انھوں نے جیل توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ گوگیرہ بنگلہ کی جیل میں کھرل سردار کے مجاہدین بھی قید تھے۔ چنانچہ 26 جولائی 1857ءکو رائے احمد خان کھرل نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جیل پر حملہ کر دیا اور قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اس معرکہ میں رائے احمد خان کھرل خود بھی زخمی ہوا۔ گوگیرہ جو اس وقت ضلعی ہیڈ کوارٹر تھا۔ اس کی جیل توڑنے پر سامراج کے ہاں تھرتھلی مچ گئی۔ گوگیرہ کے برکلے، منٹگمری (ساہیوال) کے مارٹن اور ملتان کے میجر ہملٹن کی نیندیں اڑگئیں۔

جون، جولائی کے مہینوں میں جنگ زوروں پر رہی۔ منٹگمری گزٹ لکھتا ہے کہ ”احمد خان کھرل ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک، دلیر اور ذہن رسا کا مالک انسان تھا۔ اس کی قیادت میں ستلج اور راوی کے تمام نامور قبائل متحد ہو کر بغاوت میں شریک ہوئے ان کا ہیڈ کوارٹر راوی کے اس پار کوٹ کمالیہ تھا۔ “

اس اٹھنے والے طوفان کا پہلا نشانہ ضلعی صدر مقام گوگیرہ (موجودہ اوکاڑہ کے قریب واقع قصبہ) کے مقام پر واقع جیل بنی جس پر حملہ کر کے رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی بغاوت کے جرم میں بند کئی سو قیدیوں کو چھڑا کر گھنے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ احمد خان کے پے در پے حملوں کی وجہ سے منٹگمری کا علاقہ (موجودہ ساہیوال ڈویڑن اور ضلع ٹوبہ) تقریباً تین مہینوں تک قبضے سے نکل گیا اور عملی طور پر رائے احمد خان کی عملداری قائم ہو گئی۔ رائے احمد خان کھرل نے 16 ستمبر کو کمالیہ کے تمام زمینداروں کو اکٹھا کیا اور انھیں جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب دی۔

ادھر راوی بار کا یہ مجاہد وطن کی آزادی کے لیے تازہ خون کا بندوبست کر رہا تھا تو ادھر دلی میں ہندوستان کی غلامی پر مہر ثبت کی جاچکی تھی کہ میرٹھ اور دلی سے بھڑکنے والے جنگ آزادی کے شعلے بہادر شاہ ظفر کی گرفتاری کے ساتھ راکھ ہو چکے تھے۔

غداری[ترمیم]

اگرچہ رائے احمد خان کھرل کے بلاوے پر آنے والے زمیندار کھرل سردار کی آواز پر لبیک کہہ رہے تھے لیکن ان میں سے ہی سرفراز کھرل نامی ایک شخص میر جعفر و میر صادق کی تاریخ دہرانے کو بھی بے چین بیٹھا تھا۔

رات نے جیسے ہی سیاہ چادر اوڑھی، کمالیہ کے سرفراز کھرل نے میر جعفروں کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کے اضافہ کے لیے گھوڑی کا رخ برکلے کے بنگلے کی جانب پھیر دیا۔ رات کے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تھے، جب سرفراز نے برکلے کو جگا کر رائے احمد خان کھرل کے اکٹھ کی روداد سنائی۔ صبح ہوتے ہی برکلے نے جھامرہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن رائے احمد خان کھرل ہاتھ نہ آیا، تو انگریز نے گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو لے جا کرگوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔ یہ خبر مجاہدین تک پہنچی تو موجودہ اوکاڑہ سے خانیوال تک کا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔

سجادہ نشینوں کا رویہ[ترمیم]

ایک طرف اگر راوی بار میں آباد قبائل قومی حمیت کا نشان بنے اپنے 80سالہ کھرل سردار کی قیادت میں سینہ سپر تھے۔ تو دوسری طرف سجادگان و مخدومین حقِ نمک ادا کرتے ہوئے انگریز سامراج کی فوج کے ہمراہ تھے۔ جن میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی، دربار بہاالدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی، دربار فریدالدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخدوم وسجادہ نشین شامل تھے۔

شہادت[ترمیم]

21 ستمبر کے دن انگریز نے مخبری کی بنیاد پر گشکوری کے جنگل میں ”نورے دی ڈال” پر حملہ کیا۔ بار کے مجاہدین آزادی نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ انگریز فوج توپخانے سے مسلح ہونے کے باوجود ظہر تک ڈیڑھ کوس پیچھے ہٹ چکی تھی۔ میدان قدرے صاف ہوا تو کھرل سردار نے نماز عصر کی نیت باندھ لی۔ ادھر برکلے بھی پنجابی سپاہیوں کے ہمراہ قریب ہی چھپا ہوا تھا۔ وہ دوسری رکعت تھی، جب برکلے نے گولی مارو کا آرڈر دیا، دھاڑے سنگھ یا گلاب رائے بیدی کی گولی جیسے ہی کھرل سردار کو لگی سردار سجدے میں گر گیا۔ رائے احمد خان کھرل اور سارنگ کھرل اپنے اکثر ساتھیوں کے ہمراہ اس معرکہ میں شہید ہوئے۔

انگریز رائے احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر لے گئے۔ رائے احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو ملیا میٹ کر دیا، فصلیں جلا دیں اور مال مویشی ضبط کر لیے۔ رائے احمد خان کھرل کے سر کو دن کے وقت گوگیرہ جیل کے سامنے لٹکا دیا جاتا اور رات کو جیل میں کڑے پہرے میں رکھا جاتا۔

بدلہ[ترمیم]

پہرے داروں میں ایک سپاہی جھامرے کا تھا۔ اس کی پہرے کی باری آ ئی تو اس نے سر کو گھڑے میں رکھا اور جھامرے پہنچ کر رات کے اندھیرے میں رائے احمد خان کی قبر تلاش کر کے کسی کو بتائے بغیر سر دفنا دیا۔ 22 ستمبر کو راوی کنارے مسٹر برکلے کا مجاہدین سے سامنا ہوا تو مراد فتیانہ، داد فتیانہ، احمد سیال اور سو جا بھدرو نے برکلے کو مار کر اپنے سردار کا حساب برابر کر دیا۔ گورا فوج نے ان مجاہدین کو گرفتار کر کے کالے پانی بھجوا دیا۔

افسوس کہ 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کی بربریت کا نشانہ بننے والی اور گذشتہ 150 سال تک ظلم کی چکی میں پسنے والی اس علاقے کی برادریوں کی کوئی تاریخ مرتب نہیں کی گئی۔ بہت سے لوگ انگریز کے مظالم سے بچنے کے لیے کھرل سے ”کھر“ اور ”ہرل“ کہلانے لگے۔ ان علاقوں کی سرحدوں پر آباد کھرل اوردوسرے قبائل کی زمینیں چھین کر انگریزوں کے مخبروں کو الاٹ کر دی گئیں۔

یادگار[ترمیم]

انگریز چلے گئے، برصغیر آزاد ہو گیا لیکن حکومتِ پاکستان اور ساہیوال کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کو آج تک اس بہادر مجاہد کے نام ایک چوک تک منسوب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

دوسری طرف ضلعی انتظامیہ فیصل آباد نے نہ صرف گیٹاں والا چوک کو احمد خان کھرل چوک کا نام دیا بلکہ جڑانوالہ کی تحصیل انتظامیہ نے بھی سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس شہید کی یادگار بنوائی ہے۔

پنجاب لوک سُجاگ ساہیوال میں احمد خان کھرل کی یاد گار تعمیر کروانے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے مہم چلا رہی ہے۔

جڑانوالہ میں سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس ہیرو کی یادگار بنائی گئی ہے ۔

مزید پڑھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Dr ST Mirza 'Resistance Themes in Punjabi Literature' Lahore, 1991, pp 100-105
  2. احمد خان کھرل

بیرونی روابط[ترمیم]