راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا

Rajiv Gandhi International Airport

రాజీవ్ గాంధీ అంతర్జాతీయ విమానాశ్రయం
خلاصہ
ہوائی اڈے کی قسمعوامی
مالک/عاملجی ایم آر حیدرآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ لیمیٹیڈ (جی ایچ آئی اے ایل)
خدمتحیدرآباد
محل وقوعشمس آباد، تلنگانہ، بھارت
مرکز برائے
فوکس شہر برائےانڈیگو
بلندی سطح سمندر سے617 میٹر / 2,024 فٹ
ویب سائٹwww.hyderabad.aero
نقشہ
HYD is located in تلنگانہ
HYD
HYD
HYD is located in بھارت
HYD
HYD
رن وے
سمت لمبائی سطح
میٹر فٹ
09L/27R 3,707 12,162 ایسفلت
09R/27L 4,260 13,976 ایسفالٹ
اعداد و شمار (2015)
مسافر11,907,089
Aircraft movements100,410
Cargo tonnage107,919[1]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا (آئی اے ٹی اے: HYD، آئی سی اے او: VOHS) ایک بین الاقوامی ہوائی اڈا ہے جو حیدرآباد کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے جو بھارت کی ریاست تلنگانہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ شمس آباد میں موجود ہے جو حیدرآباد کے جنوب سے 20 کلومیٹر (66,000 فٹ) کے فاصلے پر ہے۔ اس ہوائی اڈے کی نظامت جی ایم آر حیدرآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ لیمیٹیڈ کرتی ہے جو ایک عوامی-نجی تجارتی شراکت ہے۔ اس کا افتتاح مارچ 2008ء میں ہوا تھا۔ یہ بیگم پیٹ ہوائی اڈے کی جگہ لے چکا ہے۔ اس سے قبل بیگم پیٹ ہوائی اڈا حیدرآباد کا ابتدائی تجارتی ہوائی اڈا ہوا کرتا تھا۔ شمس آباد میں تعمیر جدید ہوائی اڈے کو راجیو گاندھی کے نام سے موسوم کیا گیا جو بھارت کے سابق وزیر اعظم تھے۔

ہوائی اڈے پر ایک مسافر ٹرمنل، کارگو ٹرمنل اور دو رن وے ہیں۔ یہاں پر ہوابازی کی تربیت کی سہولتیں، ایندھن کا فارم، شمسی توانائی کا ایک پلانٹ اور دو رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری (انگریزی: Maintenance, repair, and operations یا MRO) سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہ ہوائی اڈا ملک کا پانچواں مصروف ترین ہوائی اڈا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایئر انڈیا ریجنل، بلو ڈارٹ ایوئیشن، لفتھانسا کارگو، اسپائس جیٹ اور ٹرو جیٹ یکجا موجود ہیں۔ ہوائی اڈا انڈیگو کے لیے ایک مرکزی شہر کا کام دیتا ہے۔

ایئر ٹریفک کنٹرول کا برج (ٹاور)
ٹرمنل کے چیک اِن کی جگہ
روانگی کی جگہ

تاریخ[ترمیم]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا، حیدرآباد، بھارت کا پہلا پی پی پی ہوائی اڈا (عوامی نجی شراکت کا ہوائی اڈا)[2][3] ہے۔ یہ ملک کا ایک گرین فیلڈ ہوائی اڈا بھی ہے۔[2] گرین فیلڈ ہوائی اڈا اس ہوائی اڈے کو کہتے ہیں جو کسی غیرترقی یافتہ جگہ پر بنایا جائے۔ حکومت ہند کی ہوائی اڈوں کے بنیادی ڈھانچوں کی پالیسی 1999ء (Government of India's Policy on Airport Infrastructures issued in دسمبر، 1999) کی رو سے کوئی بھی گرین فیلڈ ہوائی اڈا موجودہ ہوائی اڈا کے 150 کیلومیٹر کے فاصلے کے اندر نہیں بنایا جا سکتا ہے۔[4]

منصوبہ بندی (1997ء2004ء)[ترمیم]

حیدرآباد کے لیے ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر کا خیال 1997ء میں چندرا بابو نائڈو انتظامیہ کی جانب سے پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔[5] برسر استعمال تجارتی ہوائی اڈا، بیگم پیٹ ہوائی اڈا مسافروں کی بڑھتی تعداد کے لیے ناکافی ثابت ہو رہا تھا۔ ریاستی حکومت نے ابتدا میں حکیم پیٹ فضائی اڈے کو شہریوں کے استعمال کے لیے کھولنا چاہا، مگر فضائیے نے اسے نامنظور کیا۔[6] جب ریاستی حکومت نے فضائیے کے لیے ایک نئے ہوائی اڈے کی تعمیر کی تجویز رکھی، وزارت دفاع نے ریاست کو مشورہ دیا کہ وہ بیگم پیٹ کے جنوب کے مقامات پر غور کرے۔[5] اکتوبر 1998ء تک ریاست تین مقامات پر اپنی توجہ مرکوز کر چکی تھی: بونگلور، نادرگل اور شمس آباد۔[7] شمس آباد کا انتخاب دسمبر 1998ء میں ہوا تھا۔ اس کی وجہ دو قومی شاہراہوں این ایچ 44 اور این ایچ 765 اور ایک ریلوے لائن سے نزدیک اس کا محل وقوع ہونا تھا۔[8]

نومبر 2000ء میں ریاستی حکومت اور ایئرپورٹس اتھاریٹی آف انڈیا (اے اے آئی) کے مابین ایک یادداشت مفاہمت پر دستخط ہوئی۔ اس کی رو سے ہوائی اڈے کا منصوبہ ایک عوامی-نجی شراکت ہوگا۔ ریاست اور اے اے آئی متحدہ طور پر 26% کے حصے دار ہوں گے، جبکہ 74% نجی کمپنیوں کو سونپی جائے گی۔[9] بولی کے ایک طریقے سے ایک اتحاد کو، جس میں جی ایم آر گروپ اور ملیشیا ایئرپورٹس ہولڈنگز بیرہاد (ایم اے ایچ بی) کو منتخب کیا گیا تھا۔[5][9] دسمبر 2002ء میں جی ایم آر حیدرآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹس لیمیٹیڈ (ایچ اے آئی ایل)، نے بعد میں نام بدل کر جی ایم آر حیدرآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ لیمیٹیڈ (جی ایچ آئی اے ایل) کیا، اسے ایک مخصوص مقصد کا وجود (special purpose entity) بنایا گیا جس میں ریاست، اے اے آئی، جی ایم آر اور ایم اے ایچ بی کے مفادات وابستہ تھے۔[5][10]

ستمبر 2003ء جی ایچ آئی ایل کے ارکان نے شراکتداروں کے معاہدے پر دستخط کی اور ریاست کی جانب سے 400 کروڑ (امریکی $56 ملین) کی رعایت پر رضامند ہوئے۔[5][11] ایک رعایتی معاہدہ جی ایچ آئی ایل اور مرکزی حکومت کے بیچ دسمبر 2004ء طے پایا جس کی رو سے راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے 150-کلومیٹر (490,000 فٹ) کے دائرے میں کوئی ہوائی اڈے کی کارگزاری نہیں ہوگی۔[12] لہٰذا بیگم پیٹ ہوائی اڈے کا بند ہونا ضروری تھا۔[13]

تعمیر اور کشادگی[ترمیم]

تعمیر کا آغاز 16 مارچ 2005ء کو ہوا جب سونیا گاندھی نے سنگ بنیاد رکھا۔[14] اس سے دو دن قبل مرکزی حکومت نے اس ہوائی اڈے کو سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے نام سے موسوم کیا،[15] جنھوں نے حیدرآباد ہی میں اپنی ہوابازی کی تربیت مکمل کی تھی۔[16] نام کی اس تبدیلی کی تیلگو دیشم پارٹی نے مخالفت کی۔ بیگم پیٹ ہوائی اڈے پر، بین الاقوامی ٹرمنل کو راجیو گاندھی کے نام سے موسوم کیا گیا تھا جبکہ خانگی ٹرمنل تیلگو دیشم پارٹی کے بانی این ٹی راما راؤ کے نام سے موسوم تھا۔ تیلگو دیشم پارٹی چاہتی تھی کہ نام کی یہی روایت نئے ہوائی اڈے پر بھی برقرار رہے۔ تاہم نئے ہوا اڈا کا ایک ہی مشترکہ ٹرمنل ہے۔[17]

سنگ بنیاد کی رسم کے تقریبًا تین سال بعد ہوائی اڈے کا افتتاح 14 مارچ 2008ء کو احتجاج کے بیچ ہوا۔ تیلگو دیشم پارٹی نے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا کہ خانگی ٹرمنل کا نام تبدیل کیا جانا چاہیے۔[16] اس کے علاوہ 12 اور 13 مارچ کو اے اے آئی کے 20,000 ملازمین بیگم پیٹ ہوائی اڈے اور ایچ اے ایل بنگلور ہوائی اڈے کے بند ہونے کے خلاف ہڑتال کی، جس کے پس کے پس پردہ ان کی ملازمتوں کو کھو دینے کا خوف تھا۔[18][19] راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تجارتی کارگزاری 16 مارچ 2005ء کو شروع ہونا تھا؛ تاہم یہ تاریخ میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ کچھ ایئرلائنز کی جانب سے ہوائی جہاز کے زمین پر ٹھہراؤ کی بڑی شرحوں پر احتجاج تھا۔ جب یہ شرحیں کم ہوئے، 23 مارچ آغاز کی نئی تاریخ قرار پائی۔[20] حالانکہ لفتھانسا کی فرینکفرٹ سے آنے والی پرواز 752 اس ہوائی اڈے پر اترنے والی پہلی پرواز بننے والی تھی، تاہم دو اسپائس جیٹ کی پروازیں یہاں پہلے اتریں۔[21] تاہم لفتھانسا کی پرواز کو پھر بھی وہی حسب منصوبہ تقریب کے ساتھ کے 12:25 بجے صبح کی آمد کے موقع پر خیرمقدم کیا گیا تھا۔[21][22]

بعد کی تبدیلیاں (2009ء–اب تک)[ترمیم]

ستمبر 2011ء میں اسپائس جیٹ نے اپنے علاقائی مرکز کا آغاز اس ہوئی اڈے پر کیا جس کے لیے اس نے بومبارڈیئر کیو400 ایئرکرافٹ کا استعمال کیا۔[23] اس ایئرلائن نے حیدرآباد کا انتخاب ملک میں اس کے مرکزی طور پر وقوع پزیر ہونے کی وجہ سے کیا تھا،[24] اور وہ کئی درجہ دوم (ٹائر ٹُو) اور درجہ سوم (ٹائر تھری) کے لیے یہاں سے پروازیں چلاتا ہے۔[25] علاقائی ایئر لائن ٹروجیٹ نے بھی اپنا ایک مرکز اس ہوائی اڈے پر جولائی 2015ء میں اپنی کارگزاری کے آغاز کے ساتھ کھولا۔[26]

نومبر 2014ء میں وزارت شہری ہوابازی نے طے کیا کہ اس ہوائی اڈے کا خانگی ٹرمنل این ٹی راما راؤ کے نام سے موسوم ہوگا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی راجیہ سبھا کے ارکان نے احتجاج کیا۔[27][28] ہوائی اڈے کے ارباب مجاز کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ نام کس طرح رکھا جائے گا۔[29]

مالکانہ حقوق[ترمیم]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا جی ایم آر حیدرآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹس لیمیٹیڈ (جی ایچ آئی ایل) کی ملکیت اور اس کے زیر عمل ہے جو ایک عوامی-نجی شراکت کا حصہ ہے۔ اس میں عوامی ادارے ایئرپورٹس اتھاریٹی آف انڈیا (اے اے آئی) (13%) اور تلنگانہ حکومت (13%) کے حصہ دار ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جی ایم ار گروپ (63%) اور ملیشیا ایئرپورٹس ہولڈنگز بیرہاد (11%) کا اتحاد بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔[30] جی ایچ آئی ایل اور مرکزی حکومت کے مراعات کے معاہدے کی رو سے جی ایچ آئی ایل اس ہوائی اڈے کو 30 سال تک چلا سکتی ہے اور اس میں مزید 30 سال تک چلانے کا امکان شامل ہے۔

ہوائی میدان[ترمیم]

اس ہوائی اڈے کے دو رن وے ہیں:[31]

رنوے 09آر/27ایل، ابتدائی اور اصل رنوے ہے، یہ اتنا لمبا ہے کہ ایئربس اے380 یہاں اتر سکتی ہے جو دنیا کا سب سے بڑا مسافربردار جہاز ہے۔[32] رنوے 09ایل/27آر اصالتًا ایک ٹیکسی وے ہے، جسے فروری 2012ء میں کھولا گیا تھا۔ اس کی مختصر لمبائی اور چوڑائی اسے چھوٹے جہاز جیسے کہ ایئربس اے340 اور بوئنگ 747 کی پروازوں کے لیے موزوں بناتے ہیں۔ اس کا استعمال عمومًا اس وقت ہوتا ہے جب رنوے 09آر/27ایل رکھ رکھاؤ سے گذر رہا ہے اور جیسے جیسے ہوائی آمدورفت بڑھ رہی ہے، اس کا استعمال اکثر ہو رہا ہے۔[33] ان رن وییوں کے شمال میں تین ہوائی اڈے کی وردیاں (Airport Aprons) ہیں: کارگو، مسافر ٹرمنل اور رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری (ایم آر او) وردیاں شامل ہیں۔ مسافر ٹرمنل وردی شمال اور جنوب میں پارکنگ کی سہولتیں رکھتی ہے۔

ٹرمنل[ترمیم]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کا ایک واحد مسافر ٹرمنل ہے، جو 105,300 مربع فٹ (9,780 میٹر2) پر محیط ہے اور سالانہ 12 ملین مسافرین کی صلاحیت رکھتا ہے۔[34] اس ٹرمنل کا مغربی کونہ بین الاقوامی پروازوں کے لیے بنا ہے جبکہ مشرقی کونہ گھریلو کارگزاری دیکھتا ہے۔[35] یہاں پر 46 ایمیگریشن کاؤنٹرز اور 96 چیک اِن ڈیسک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 19 خود کار چیک اِن کیوسک ہیں ۔[36] یہاں کل ملا کر 9 گیٹ موجود ہیں جن میں سے 7 ٹرمنل کی جنوبی جانب موجود ہیں جبکہ دو شمالی جانب موجود ہیں۔ تین گیٹ دو جیٹ وییوں کے ساتھ تیزی سے وائڈ باڈی ایئرکرافٹ کے ساتھ لیس ہیں۔ عوامی لونج پلازا پریمیم کی جانب سے فراہم کیے گئے ہیں۔ مشاہیر کے لیے تین مخصوص لونج موجود ہیں۔[37] ماقبل حفاظتی دستہ ہوائی اڈے کا گاؤں Pre-Security Airport Village) وہ ملنے کی جگہ ہے جہاں مسافروں کو ملنے کے لیے لایا جاتا ہے۔[35]

ہوائی کمپنیاں اور مقامات[ترمیم]

برٹش ائیرویز کی جانب سے واحد اس ہوائی اڈے سے لگاتار یورپ کا ربط ملتا پے، جس میں لندن ہیتھرو کی بوئنگ 787-8 پرواز شامل ہے۔
ایک ایئر انڈیا کی بوئنگ 747-400 پرواز جدہ کے لیے روانگی کے دوران میں ہوائی اڈے کے چکر کاٹ رہی یے۔
ٹروجیٹ اور ایئر انڈیا ریجنل کے اے ٹی آر 72-500 کے ہوائی اڈے کی وردی پر

مسافر بردار[ترمیم]

ایئر لائنزمقامات
ایئر عربیہ شارجہ
ایئر کوسٹا احمدآباد، بنگلور، چینائی، کوئمبتور، جے پور، تروپتی، وشاکھاپٹنم (آغاز 1 نومبر 2016ء)
ایئر انڈیا احمدآباد، بنگلور، چینائی، شکاگو–او ہرے، اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ، دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا، گوا، جدہ، کولکاتا، کویت، ممبئی، مسقط، پونے، تروپتی، وجے واڑہ، وشاکھاپٹنم
ایئر انڈیا ریجنل بھوپال، جبلپور، وجے واڑہ، وشاکھاپٹنم
ایئر ایشیا کوالالمپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ
ایئرایشیا انڈیا بنگلور، گوا (دونوں کا آغاز 22 ستمبر 2016ء سے)[38]
برٹش ائیرویز لندن–ہیتھرو
کیتھے پیسیفک ائیر ویز ہانگ کانگ
امارات دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا
اتحاد ائیر ویز دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا
فلائی دوبئی دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا
گلف ایئر بحرین
انڈیگو اگرتلا، احمدآباد، بنگلور، بھوبنیشور، چینائی، کوئمبتور، دہرادون، اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ، دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا، گوا، گوہاٹی، اندور، جے پور، کوچی، کولکاتا، لکھنؤ، ممبئی، ناگپور، پونے، رائے پور، تریوینڈرم، وشاکھاپٹنم
جیٹ ایئر ابو ظہبی، احمدآباد، بنگلور، بھوپال، چینائی، دمام، اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ، کوچی، لکھنؤ، ممبئی، منگلور، پونے، راجامنڈری، وڈودرا
ملیشیا ائیرلائنز کوالالمپور انٹرنیشنل ایئرپورٹ
عمان ایئر مسقط
قطر ائیرویز دوحہ
سعودی عربین ایئر لائنز دمام، جدہ، ریاض
سلک ائیر سنگاپور
سپائس جیٹ اگرتلا، احمدآباد، بنگلور، چینائی، کوئمبتور، اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ، دبئی بین الاقوامی ہوائی اڈا (کو ختم 28 اکتوبر 2016ء[39] گوا، کوچی، کولکاتا، مدورائی، منگلور، ممبئی، پونے، راجامنڈری، تروپتی، ادے پور، لال بہادر شاستری بین الاقوامی ہوائی اڈا، وجے واڑہ، وشاکھاپٹنم
تھائی ائیرویز انٹرنیشنل بنکاک–سورنابھومی
ٹائیگر ائیرویز سنگاپور
ٹروجیٹ اورنگ آباد، بنگلور، چینائی، گوا، کڈپہ، راجامنڈری، تروپتی، وجے واڑہ، وشاکھاپٹنم (آغاز 1 نومبر 2016ء)
ویستارا چندی گڑھ بین الاقوامی ہوائی اڈا، اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ

کارگو[ترمیم]

ذیل کی کارگو کمپنیاں ہوائی اڈا استعمال کرتی ہیں:

شماریات[ترمیم]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈا پر مسافروں کی سالانہ نقل وحمل
سال (ء) مسافروں کی نقل و حمل جہاز کی حرکت
مسافر تبدیلی فیصد میں جہاز کی حرکت تبدیلی فیصد میں
2015 11,907,089[47] &10000000000000021663229+21.7% 100,410[48] &10000000000000007381186+7.4%
2014 9,786,925[47] &10000000000000013336378+13.3% 93,508[48] &10000000000000007438472+7.4%
2013 8,635,290[49] &10000000000000004324608+4.3% 87,034[50] &09999999999999993289029−6.7%
2012 8,277,328[49] &10000000000000000793630+0.1% 93,295[50] &09999999999999998129858−1.9%
2011 8,270,764[51] &10000000000000013328192+13.3% 95,073[52] &10000000000000016322860+16.3%
2010 7,298,064[51] &10000000000000014809492+14.8% 81,732[52] &10000000000000002788153+2.8%
2009 6,356,673[53] 79,515[54]
ہوائی اڈے پر کھاتہ نویسی کے سالوں کے حساب سے سالانہ مسافروں کی آمد ورفت
[2]
سال (ء)(مہینے اپریل تا مارچ) خانگی مسافرین کی تعداد بین الاقوامی مسافرین کی بعداد کل مسافرین کی تعداد
2014–15 7776457 2729496 10505953
2013–14 6358189 2370067 8728256
2012–13 6282075 2084656 8366731
2011-12 6703050 1899289 8602339
2010-11 5758608 1875557 7634165
2009-10 4793910 1700920 6494830
2008-09 4648657 156603 6215460

جی ایم آر ایروسپیس پارک[ترمیم]

جی ایم آر ایروسپیس کئی سہولتیں فراہم کرتا ہے جو ہوابازی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔[55] ان میں 250-acre (100 ha) ایک خصوصی معاشی علاقہ، جس میں 20-acre (8.1 ha) مفت تجارت اور گودام سہولت کا علاقہ اور خانگی آمدورفت کا علاقہ شامل ہے۔[56]

ہوابازی کی تربیت[ترمیم]

جی ایم آر ہوابازی کی اکادمی پارک میں موجود ہے۔ اس کا قیام 2009ء میں انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے)، انٹرنیشنل سیول ایویئیشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او)، ایئرپورٹس کونسل انٹرنیشنل اے سی آئی اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سیول ایویئیشن (ڈی جی سی اے) کے اشتراک سے ہوا۔ یہ اکادمی ہوائی اڈے کی کارگزاری سے متعلق پروگراموں کو چلاتی ہے جو درج فہرست اداروں کی جانب سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں۔[57][58] پارک میں ایشیا پیسیفیک فلائٹ ٹریننگ (APFT) بھی موجود ہے جو جی ایم آر گروپ اور ایشیا پیسیفیک فلائٹ ٹریننگ کی مشترکہ پہل ہے۔ 2013ء سے یہ ہوائی جہازرانی کے کورس چلاتی ہے۔[59][60]

جی ایم آر ایئرو ٹیکنیک لیمیٹیڈ ایم آر او[ترمیم]

رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری (انگریزی: Maintenance, repair, and operations یا MRO) جی ایم آر ایئرو ٹیکنیک لیمیٹیڈ چلاتی ہے۔ یہ ہوائی اڈے پر موجود دو ایسی سہولتوں میں سے ایک ہے۔ یہ 350 کروڑ (امریکی $49 ملین) کی لاگت سے بنا ہے۔ اس کا افتتاح مارچ 2012ء میں ہوا ہے۔[61] یہ سہولت بہ یک وقت پانچ جہازوں کو سنبھال سکتی ہے۔[62] شروع میں یہ جی ایم آر گروپ اور ملیشین ایئروسپیس انجنئیرنگ (ایم اے ای) (ملیشین ایئرلائنز کی زیرنگرانی ادارہ) کی مشترکہ تجارت تھی۔ تاہم ملیشیا ایئرلائنز فلائٹ 370 واقعے کے بعد خراب مالی صورت حال کی وجہ سے ایم اے ای رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری کے لیے مالیہ فراہم نہیں کر سک رہا تھا۔[63] جی ایم آر، ایم اے ای کی شرکت کا حصہ دسمبر 2014ء خرید چکا ہے۔[64]

دیگر سہولتیں[ترمیم]

دکانیں اور دستیاب سہولتیں[ترمیم]

مقام ریٹیل دکانوں کی تعداد غذائی دکانوں کی تعداد دستیاب خدمات کی تعداد
خانگی ٹرمنل- روانگی 13 10 31
خانگی ٹرمنل-چیک اِن (بین الاقوامی ٹرمنل کے ساتھ مشترک) 3 2 3
بین الاقوامی ٹرمنل روانگی 1 2 1
بین الاقوامی ٹرمنل-چیک اِن (خانگی ٹرمنل کے ساتھ مشترک) 22 6 13
بین الاقوامی ٹرمنل-آمد 2 1 15
زمینی سطح-ہوائی اڈے کا گاؤں 4 7 11
زمینی سطح- کار پارکنگ 4 5 10
روانگی کا صحن 2 2 9
عوامی حمل و نقل کا علاقہ 2 2 6

[2]

ایئر انڈیا کی رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری کی سہولت[ترمیم]

جی ایم آر ایئرو ٹیکنیک لیمیٹیڈ کے علاوہ ایئر انڈیا اپنی خود کی رکھ رکھاؤ، مرمت اور کارگزاری کی سہولت ایئر انڈیا انجینئری سروسیز لیمیٹیڈ (AIESL) کے ذریعے چلاتا ہے، جو اس کی ماتحت شاخ ہے۔ 5 acre (2.0 ha) تک پھیلی اس سہولت کی لاگت 79 کروڑ (امریکی $11 ملین) تھی۔ اس کا افتتاح مئی 2015ء میں ہوا۔[65][66]

کارگو ٹرمنل[ترمیم]

کارگو ٹرمنل جہاں لفتھانسا کارگو بوئنگ 777ایف سے سامان نکالا جا رہا ہے۔

کارگو ٹرمنل مسافر ٹرمنل کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ 14,330 مربع میٹر (154,200 فٹ مربع) پر محیط ہے اور 150,000 ٹن (170,000 ٹن کوچک) کارگو سالانہ سنبھال سکتا ہے۔[67] اس کارگو کو حیدرآباد مینزیس کارگو پرائیویٹ لیمیٹیڈ چلاتی ہے جو جی ایچ آئی ایل (51%) اور مینزیس ہوابازی (49%) کی مشترکہ تجارتی پہل ہے۔[68] اس ٹرمنل میں دواؤں کا علاقہ بھی ہے جو درجہ حرارت پر قابو رکھتے ہوئے ادویات کے ذخیروں کو جمع کرنے کے کام آتا ہے۔ یہ ملک میں اپنی نوعیت کی پہلی سہولت ہے اور یہ اس ہوائی اڈے کے لیے ضروری ہے کیونکہ ادویہ اس ہوائی اڈے کے 70% بر آمدات کا حصہ ہیں۔[68][69] مئی 2011ء میں لفتھانسا کارگو نے ہوائی اڈے پر اپنے پہلے ادویہ کے مرکز کا آغاز کیا۔[70]

ایندھن کا فارم[ترمیم]

ہوائی اڈے پر ایک ایندھن کا فارم ہے جس میں ذخیرہ جمع کرنے کے کے لیے تین ٹینک، جن کی کل صلاحیت 13,500 کلولیٹر (3,000,000 imp gal؛ 3,600,000 US gal) جیٹ ایندھن کی ہے، موجود ہیں۔ یہ ٹینک وردی سے زیرزمین پائپ لائنوں سے جڑے ہیں۔[32] ریلائنس انڈسٹریز نے اس فارم کی تعمیر کی اور چلاتی ہے اور یہ کسی بھی آئیل کمپنی کی جانب سے سب کے لیے کھلے ماڈل کے طور استعمال کیا جا سکتا ہے۔[71]

شمسی توانائی کا پلانٹ[ترمیم]

جنوری 2016ء میں جی ایچ آئی ایل نے 5 میگاواٹ کا شمسی توانائی کے پلانٹ کا ہوائی اڈے کے قریب آغاز کیا، جس کا مقصد ہوائی اڈے کی توانائی ضروریات کی تکمیل ہے۔ یہ 24 acre (9.7 ha) پر محیط ہے اور اس کی لاگت 30 کروڑ (امریکی $4.2 ملین) ہے۔[72] آئندہ دو سے تین سالوں میں اس پلانٹ کی صلاحیت 30 کر دی جائے گی، جس سے یہ ہوائی اڈا مکمل طور پر شمسی توانائی پر منحصر ہو جائے گا۔[73]

ہوائی اڈے سے متصل ہوٹل[ترمیم]

نوووٹیل ہوٹل جو راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے 3٫5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اکتوبر 2008ء میں کھولی گئی۔ اس ہوٹل میں 305 کمرے، دو ریستوراں اور ہوائی جہاز کے عملے کے لیے لونج ہے۔[74] ابتدا میں یہ جی ایچ آئی ایل کی ملکیت تھی، مگر اب یہ جی ایم آر ہوٹلز اینڈ ریزارٹز لیمیٹیڈ کے تحت آچکا ہے کیونکہ اسے کم ہی پر کیا جا رہا تھا،[75] اور جی ایم آر اس کے لیے خریداروں کی تلاش اگست 2015ء سے شروع کر چکا تھا۔[76]

ہوائی اڈے تک رسائی کے ذرائع[ترمیم]

سڑک[ترمیم]

یہ ہوائی اڈا حیدرآباد شہر کی این ایچ 44، این ایچ 765 اور آؤٹر رنگ روڈ سے جڑا ہے۔ اکتوبر 2009ء میں پی وی نرسمہا راؤ ایکپریسوے مہدی پٹنم اور راجندرنگر کے بیچ مکمل ہوا، جہاں یہ قومی شاہراہ 7 سے جڑتا ہے۔ بھارت کے سب سے طویل اڑن پل (Flyover) کی مدد سے حیدرآباد شہر سے ہوائی اڈے تک کے سفر کا وقفہ اب بس 30–40 منٹ ہو گیا ہے۔[77]

"پُشپَک - ایئرپورٹ لائنر" تلنگانہ ریاستی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی ایک خدمت ہے۔ یہ بس شہر کی مختلف جگہوں سے مسافروں کو شہر سے ہوائی اڈا پہنچاتی ہے۔[78] اس کا آغاز دسمبر 2012ء سے ہوا۔ یہ جی ایم آر کی ایئرو ا ایکسپریس خدمت کی جگہ لیتا ہے۔[79]

ریل[ترمیم]

حیدرآباد میٹرو ریل منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت 28-کلومیٹر (92,000 فٹ) ریل کا ربط رائے درگ/ گچی باؤلی اور راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے بیچ تعمیر کیا جائے گا۔ 2015ء تک ان امکانات کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔[80][81]

مستقبل کے منصوبے[ترمیم]

ہوائی اڈے کا بلندتر منصوبہ تین مرحلوں پر محیط ہے۔ اس کا ایک مرحلہ ہوائی اڈے کی کشادگی کے ساتھ 2008ء میں مکمل ہو گیا۔ اس کے اختتامی مقاصد میں سالانہ مسافرین کی آمدورفت کی صلاحیت کو بڑھاکر 40 ملین کرنا ہے۔

دوسرا مرحلہ[ترمیم]

2009ء میں جی ایچ آئی ایل نے دوسرا مرحلہ مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مسافروں کی آمدورفت میں حسب توقع اضافہ نہیں ہوا تھا۔[82][83] اس مرحلے کا احیاء 2015ء کے اواخر میں ہوا تھا۔ یہ عمل تاخیر سے شروع ہوا کیونکہ یہ ہوائی اڈا اپنی جملہ صلاحیت کی انتہا کو 2016ء میں پہنچنے جا رہا ہے۔[84] اس مرحلے کا پہلا حصہ صلاحیت کو سالانہ 18 ملین مسافرین تک بڑھائے گا جبکہ دوسرا حصہ اسے 20 ملین تک پہنچائے گا۔[85] مسافر ٹرمنل کو بڑھایا جائے گا، جس میں زائد حفاظتی قطاریں، چیک اِن کاؤنٹر اور دیگر سہولتوں کے ساتھ ساتھ چھتوں پر شمسی پیانل لگائے جائیں گے۔[86] دوسرے مرحلے کا آغاز جی ایچ آئی اے ایل کے مرکزی حکومت کی منظوری کے ساتھ شروع ہو گا اور اس مرحلے کی تعمیرات پر 18–20 مہینے لگنے کی توقع ہے۔[85]

تیسرا مرحلہ[ترمیم]

توسیع کے آخری مرحلے سے توقع ہے کہ ٹرمنل کی صلاحیت سالانہ 40 ملین مسافرین تک بڑھ جائے گی۔[85]

ہوائی اڈے کی خدمات کا معیار[ترمیم]

راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کو اعزاز برائے ہوائی اڈا خدماتی معیار (Airport Service Quality Award) متواتر چھ سال تک 5٫15 ملین مسافرین زمرے میں مل چکا ہے۔[2]

دنیا کے سب سے بڑے کارگو کو جگہ دینے کا اعزاز[ترمیم]

انتونوو این-225 مریا جو راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا تھا۔

13 مئی 2016، کو دنیا کا سب سے بڑا کارگو طیارہ انتونوو این-225 مریا (Antonov An-225 Mriya) دیر رات حیدرآباد کے راجیو گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترا۔ اس کارگو طیارے میں چھ ٹربو پنکھوں کے انجن (Turbofan Engines) لگے تھے اور یہ اب تک بنا سب سے بڑا اور بھاری ہوائی جہاز ہے۔ حیدرآباد میں اترنے سے پہلے یہ طیارہ ترکمانستان، ملائیشیا رکا تھا، کارگو ترکمانستان سے ہوتا ہوا ہندوستان آیا ہے اوراس کے اگلے ہی ہفتے آسٹریلیا کے پرتھ میں اترا۔ جہاز میں 117 ٹن وزنی الیکٹرک جنریٹر ہے۔ کارگو ایک بار میں تقریباً 640 ٹن سامان لے جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ جہاز بغیر ایندھن بھرے اور بغیر رکے 18 گھنٹے تک پرواز بھر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔[87]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حواشی[ترمیم]

  1. دیکھیے رنوے#تسمیہ رنوے کے نام رکھنے کے رواج کو دیکھنے کے لیے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Traffic News for the month of جنوری 2015: Annexure IV". Airports Authority of India: 3. 9 مارچ 2015. Archived from the original on 2016-07-01. https://web.archive.org/web/20160701112351/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k15annex4.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2015: 7,986 tonnes" 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ Rajiv Gupta, V Venkatesh, P Ammani, "Need Based Segmentation of Airport Passengers: The Case of Rajiv Gandhi International Airport, Hyderabad"، Indian Journal of Marketing,New Delhi,ISSN 0973-8703 Vol.46 Issue No.3, مارچ 2016, Pp 7-21
  3. "PPP AIRPORT INVESTMENTS SUMMIT 2018 – PPP AIRPORT INVESTMENTS SUMMIT 2018"۔ 31 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اگست 2016 
  4. https://www.quora.com/What-is-meant-by-Greenfield-Airport
  5. ^ ا ب پ ت ٹ B. Dasarath Reddy (15 مارچ 2005)۔ "Work on Hyd intl airport to start on مارچ 16"۔ Business Today۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  6. M. Ahmed (12 مئی 1997)۔ "Iaf Grounds Hyderabad International Airport Plan"۔ Business Today۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  7. "Three sites shortlisted for international airport project in Hyderabad"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 23 اکتوبر 1998۔ 6 اکتوبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  8. "Executive Briefing"۔ The Financial Express۔ 2 دسمبر 1998۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  9. ^ ا ب لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  10. "New Hyderabad airport to be named after Rajiv Gandhi"۔ The Hindu۔ 14 مارچ 2005۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2016 
  11. "Hyderabad airport pact inked"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ 1 اکتوبر 2003۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  12. C. R. Sukumar (10 جولائی 2014)۔ "GMR considers legal ways to stall Telangana government's airport plans near Hyderabad"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  13. "Centre confirms closure of Begumpet airport"۔ The Hindu۔ 12 مارچ 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  14. "Sonia lays foundation for Rajiv Gandhi airport Navi Mumbai, Pune, Ludhiana to get international airports"۔ بزنس لائن۔ 16 مارچ 2005۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  15. "New Hyderabad airport to be named after Rajiv Gandhi"۔ بزنس لائن۔ 14 مارچ 2005۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  16. ^ ا ب "New international airport at Hyderabad inaugurated"۔ Outlook۔ 14 مارچ 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  17. "Shamshabad airport issue precedes Sonia visit"۔ The Hindu۔ 15 مارچ 2005۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  18. "Slow take-off for airport stir"۔ گلف نیوز۔ 13 مارچ 2008۔ 04 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مارچ 2016 
  19. "New Hyderabad greenfield airport ready for inauguration despite AAI employees protest"۔ Oneindia۔ 13 مارچ 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  20. "Hyderabad airport will open on مارچ 23; ground handling rates cut"۔ بزنس لائن۔ 20 مارچ 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  21. ^ ا ب "New Hyd airport opening takes off with SpiceJet flights"۔ Outlook۔ 23 مارچ 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  22. Syed Amin Jafri (23 مارچ 2008)۔ "New Hyderabad airport takes off"۔ Rediff۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  23. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  24. لوا خطا ماڈیول:Citation/CS1/Utilities میں 38 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
  25. K. V. Ramana (16 ستمبر 2011)۔ "SpiceJet plans 'game changer' Q400 flights"۔ زی نیوز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2016 
  26. "TruJet announces operations starting with Rajahmundry and Tirupati"۔ Business Standard۔ 10 جولائی 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2016 
  27. "Row over renaming Hyderabad airport rocks Rajya Sabha"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 26 نومبر 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2016 
  28. "Cong Protests Renaming of Hyderabad Airport in RS"۔ Outlook۔ 26 نومبر 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2016 
  29. "Change of name puts Hyderabad International airport staff in a piquant situation"۔ دکن کرانیکل۔ 21 نومبر 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2016 
  30. Anirban Chowdhury (21 مارچ 2016)۔ "Hyderabad Airport may seek hike in tariffs"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2016 
  31. Aeronautical Charts Rajiv Gandhi International Airport Shamshabad (Hyderabad). Airports Authority of India. 15 مئی 2014. Archived from the original on 2016-06-02. https://web.archive.org/web/20160602010101/http://www.aai.aero/misc/AIPS_2014_20.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 2 جون 2016. 
  32. ^ ا ب "Rajiv Gandhi (Hyderabad) International Airport, Andhra Pradesh, India"۔ Airport Technology۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2016 
  33. "Second runway opened at RGIA"۔ The Hindu۔ 10 فروری 2012۔ 2 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2016 
  34. "India's 10 longest runways"۔ ریڈف ڈاٹ کوم۔ 25 اگست 2008۔ 27 دسمبر 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 اپریل 2016 
  35. ^ ا ب K. Reddy (22 مارچ 2008)۔ "Wake up to a sleek and snazzy airport"۔ The Hindu۔ 2 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2016 
  36. "Airport facilities: Terminal facilities"۔ Hyderabad Rajiv Gandhi International Airport۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  37. "Business & VIP facilities"۔ Hyderabad Rajiv Gandhi International Airport۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2016 
  38. "AirAsia India outlines plans to expand fleet, network"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اگست 2016 
  39. SpiceJet’s Flights Schedule and Information for domestic and international flights
  40. "Blue Dart Aviation (BZ) flights from Hyderabad (HYD)"۔ FlightMapper۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  41. "Cathay Pacific to launch new freighter services"۔ بزنس لائن۔ 17 اپریل 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  42. "Lufthansa Cargo to use GMR Hyderabad airport as pharmaceuticals hub"۔ The Hindu۔ 26 مئی 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  43. "Qatar Airways Cargo plans freight services to Hyderabad, Stansted"۔ بزنس لائن۔ 3 مارچ 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  44. "Thai Airways launches cargo freighter service from Hyderabad"۔ The Hindu۔ 13 اپریل 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  45. "Turkish Cargo launches service from Hyderabad"۔ بزنس لائن۔ 28 اگست 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اپریل 2016 
  46. "QuikJet Cargo's inaugural flight touches down at KIAB, Bengaluru"۔ The Stat Trade Times۔ 17 فروری 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2016 
  47. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2015: Annexure III". Airports Authority of India: 3. 9 مارچ 2015. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064601/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k15annex3.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2015: 970,779 passengers; جنوری 2014: 725,079 passengers" 
  48. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2015: Annexure II". Airports Authority of India: 3. 9 مارچ 2015. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064453/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k15annex2.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2015: 8,032 aircraft movements; جنوری 2014: 7,632 aircraft movements" 
  49. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2013: Annexure III". Airports Authority of India: 3. 27 مارچ 2013. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064613/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k13annex3.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2013: 725,042 passengers; جنوری 2012: 732,654 passengers" 
  50. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2013: Annexure II". Airports Authority of India: 3. 27 مارچ 2013. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064650/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k13annex2.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2013: 7,463 aircraft movements; جنوری 2012: 8,756 aircraft movements" 
  51. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2011: Annexure III". Airports Authority of India: 3. 18 مارچ 2011. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064644/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k11annex3.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2011: 679,346 passengers; جنوری 2010: 571,224 passengers" 
  52. ^ ا ب "Traffic News for the month of جنوری 2011: Annexure II". Airports Authority of India: 3. 18 مارچ 2011. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064618/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k11annex2.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2011: 7,153 aircraft movements; جنوری 2010: 6,835 aircraft movements" 
  53. "Traffic News for the month of جنوری 2009: Annexure III". Airports Authority of India: 3. 5 جنوری 2010. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064414/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k9annex3.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2009: 512,539 passengers" 
  54. "Traffic News for the month of جنوری 2009: Annexure II". Airports Authority of India: 3. 5 جنوری 2010. Archived from the original on 2016-12-20. https://web.archive.org/web/20161220064529/http://www.aai.aero/traffic_news/jan2k9annex2.pdf۔ اخذ کردہ بتاریخ 4 اپریل 2016. "جنوری 2009: 6,829 aircraft movements" 
  55. "GMR subsidiary to set up 250-acre aerospace park in Hyderabad"۔ Daily News & Analysis۔ 7 مئی 2009۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  56. "GMR Aerospace Parks: FAQs"۔ GMR Aerospace Park۔ 1 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  57. "GMR Aviation Academy chosen as regional training centre"۔ بزنس لائن۔ 13 اپریل 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  58. Itishree Samal (15 نومبر 2012)۔ "GMR Aviation Academy courses to begin from Dec"۔ Business Standard۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  59. V. Rishi Kumar (22 جون 2013)۔ "GMR launches flight training academy"۔ بزنس لائن۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  60. Stanley Pinto (22 جون 2013)۔ "GMR launches flight training academy"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  61. "First aircraft MRO unit inaugurated"۔ The Hindu۔ 14 مارچ 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  62. P. R. Sanjai، Malvika Joshi (31 مارچ 2014)۔ "GMR puts aircraft maintenance unit on sale"۔ Livemint۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  63. "GMR gets conditional nod to buy Malaysian Aerospace Engineering's stake in MRO unit"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ 5 اگست 2014۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  64. "GMR unit buys out Malaysia Aerospace stake in Hyderabad repair, overhaul unit"۔ بزنس لائن۔ 12 دسمبر 2014۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  65. "Air India MRO at Hyd airport takes off"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 30 مئی 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  66. Aaron Chong (2 جون 2015)۔ "Air India opens Hyderabad MRO facility"۔ Flightglobal۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  67. "Hyderabad airport aims at being India's first cargo hub"۔ این ڈی ٹی وی۔ 13 اپریل 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  68. ^ ا ب "Dedicated pharma cargo zone opened at Hyderabad airport"۔ The Hindu۔ 3 دسمبر 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  69. "Pharma zone at Hyderabad airport launched"۔ Business Standard۔ 3 دسمبر 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  70. "Lufthansa Cargo to use GMR Hyderabad airport as pharmaceuticals hub"۔ The Hindu۔ 26 مئی 2011۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2016 
  71. "RIL gets GMR's fuel farm contract"۔ The Hindu۔ 7 اکتوبر 2006۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  72. Uma Sudhir (12 جنوری 2016)۔ "Hyderabad International Airport Begins Switch To Green Energy"۔ این ڈی ٹی وی۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2016 
  73. "GMR commissions 5 MW solar unit at Hyderabad airport"۔ بزنس لائن۔ 12 جنوری 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اپریل 2016 
  74. "Novotel Hyderabad Airport opens"۔ The Hindu۔ 2 اکتوبر 2008۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  75. Koride Mahesh (21 اپریل 2015)۔ "GMR's proposal to sell Novotel hits roadblock"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  76. V. Rishi Kumar (25 اگست 2015)۔ "GMR Group plans to sell Hyderabad airport hotel"۔ بزنس لائن۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  77. "Hyderabad throws open India's longest flyover"۔ سی این این نیوز 18۔ 19 اکتوبر 2009۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  78. "Pushpak flagged off at Shamshabad Airport"۔ The Hindu۔ 15 دسمبر 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  79. Srinath Vudali (27 مئی 2013)۔ "'Pushpak' fails to take off for Andhra Pradesh State Road Transport Corporation"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  80. "Metro Rail Services From Nagole, Miyapur Early Next Year"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 19 دسمبر 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  81. Aastha Dass (18 دسمبر 2015)۔ "Telangana government plans to expand Metro rail project by 83 km"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2016 
  82. "Hyderabad Airport defers second phase expansion due to poor traffic performance"۔ CAPA – Centre for Aviation۔ 2 اپریل 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2016 
  83. Mitali Shah (26 اپریل 2009)۔ "Flying in formation"۔ ConstructionWeekIndia۔ 22 اپریل 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2016 
  84. V. Rishi Kumar (4 دسمبر 2015)۔ "GMR gears up to expand Hyderabad airport passenger capacity"۔ بزنس لائن۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2016 
  85. ^ ا ب پ "Hyderabad airport eyes Aera nod for expansion in a few months"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا۔ 27 اپریل 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مئی 2016 
  86. "GMR Has Big Plans to Expand Hyd Airport"۔ دی نیو انڈین ایکسپریس۔ 13 جنوری 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 جون 2016 
  87. -بڑا-کارگو-پلین-newsid-53204763 حیدرآباد پہنچا دنیا کا سب سے بڑا کارگو پلین