رسالہ قشیریہ
رسالہ قشیریہ یہ پانچویں صدی ہجری کے ایک بہت بڑے صوفی بزرگ شیخ طریقت ابوالقاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری نیشا پوری (متوفی 465ھ کی مشہور تصنیف ہے۔امام ابوالقاسم قشیری کی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت رسالہ قشیریہ کو حاصل ہوئی ہے۔
رسالہ کی وجہ
[ترمیم]امام قشیری کی سب سے مشہور کتاب رسالہ قشیریہ ہے جو آپ نے 437ھ میں صوفیا کی جماعت کے لیے لکھا۔ چونکہ بہت مبسوط اور ضخیم نہیں ہے اس لیے "رسالہ کے نام سے موسوم ہے اور مصنف کے نام کی رعایت سے رسالہ قشیریہ" کے نام سے متعارف ہے۔
سبب تالیف
[ترمیم]اِس کتاب کو امام ابوالقاسم قشیری نے 437ھ میں لکھنا شروع کیا تھا اور اور 438ھ کے اوائل میں تکمیل ہو گئی۔ ایک مختصر سی مدت میں تصوف کے موضوع پر ایک لازوال تخلیق وجود میں آئی۔ بعد کے دور میں جن مصنفین نے بھی تصوف پر لکھا، اُس نے اِس کتاب سے استفادہ کیا اور بعض نے تو اِس کی تتبع کی۔ اِس کتاب میں تمام صوفیانہ مسائل کے لیے قرآن و حدیث سے دلیلیں اخذ کی گئی ہیں اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ تصوف کی بنیاد قرآن و حدیث میں ہے۔ اِن دونوں سے الگ ہوکر تصوف کا کوئی وجود نہیں۔ رسالہ ہذا کا سبب تالیف یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ملاقیہ، سبائیہ، باطنیہ اور مانویہ فرقوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں جن سے تصوف کی بدنامی ہو رہی تھی۔ یہ فرقے خو د کو صوفی کہا کرتے تھے مگر اِن کے افراد غالی فکر اور لا اُبالی طرزِ زندگی رکھتے تھے۔ تصوف کے متعلق صوفیا کا کہنا تھا کہ یہ قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے مگر اِن فرقوں کے افراد شریعت ِ اسلامی کی مطلق پرواء نہیں کرتے تھے، بعض دین کا احترام نہیں کرتے تو بعض حلال و حرام کی تمیز سے غافل تھے۔ کچھ عبادات اور صوم و صلوٰۃ کو بنظرِ حقارت دیکھتے تھے تو بعض دیگرقسم کی خرابیوں میں مبتلاء تھے۔ ایسے میں رسالہ قشیریہ کی تالیف کا مقصد اصل صوفی طریق کی وضاحت اور بندگانِ خدا کو گمراہی و ضلالت سے بچانا تھا۔ رسالہ قشیریہ سے قبل بھی تصوف پر متعدد کتب لکھی گئی تھیں مگر اِس کتاب میں صوفیانہ مسائل پر زیادہ وضاحت سے بحث کی گئی ہے اور اِن کے ہر پہلو پر نظر رکھی گئی ہے۔ یہ ایک جامع کتاب ہے جس میں کم الفاظ میں زیادہ باتیں ہیں۔ ہر مسئلے کے لیے پہلے قرآن اور پھر حدیث سے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اِس کا مقصد یہ ہے کہ قارئین سمجھ لیں کہ تصوف کے ہر مسئلے کی بنیاد قرآن و حدیث ہیں۔ مصنف نے کتاب کی ترتیب میں بھی بالغ نظری کا بھی ثبوت دیا ہے۔ پہلے صوفیا کے عقائد، پھر صوفیا کے مختصر حالاتِ زندگی ، پھر صوفیانہ اصطلاحات اور پھر مسائل تصوف کو بیان کیا ہے۔ یہ طریقہ اِتنا پسند کیا گیا ہے کہ متاخر مصنفین نے اِسی طریقہ کو اپنی کتب کی ترتیب کے لیے پسند کیا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ ابوالحسن علی ہجویری (متوفی 465ھ) نے بھی اپنی تصنیف کشف المحجوب میں اِسی طریقے کو اِختیار کیا ہے۔ رسالہ قشیریہ اپنی گُوناگُوں خصوصیات کے سبب ہر دور میں اہل تصوف کے حلقہ میں مقبول رہی ہے۔ آج بھی تصوف کی حامیت اور مخالفت میں لکھنے والے اِس کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اِس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایک زمانے تک یہ مشہور تھا جس گھر میں یہ کتاب ہوگی ‘ وہ گھر آفات سے محفوظ رہے گا۔ بعد کے ادوار میں رسالہ قشیریہ کی شرحیں خوب لکھی گئیں۔ یہ بھی اِس کی مقبولیت کی دلیل ہے کہ اِس کی بعض شرحیں برصغیر میں تحریر کی گئیں اور اِس کتاب کے مختلف زبانوں میں تراجم شائع ہوئے، بلکہ ایک زبان میں کئی کئی تراجم ہوئے اور یہ تراجم کئی کئی بار شائع ہوئے۔[1]
اہمیت کتاب
[ترمیم]اگرچہ اس سے پہلے تصوف پر بہت کتابیں لکھی گئیں لیکن کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو تصوف کے ہر پہلو کو زیر بحث لائے اس کتاب میں ہر پہلو کو زیر بحث لایا گیا اسی وجہ سے تمام طبقہ میں مقبولیت حاصل ہے
ترتیب کتاب
[ترمیم]اس کتاب کے ابتدا میں صوفیا کے عقائد پھر اکابر صوفیا کا تعارف اس کے بعد اصطلاحات صوفیا کا ذکر، اس کے بعد احوال واقوال اور تعلیمات کو خوبصورت انداز میں ذکر کیاجبکہ آخر میں کرامات اولیاء اورمرشد و مرید کا تعلق ذکر کیا گیا ہے[2] اللہ تعالی نے اس رسالے کو مقبولیت بخشی دوسرے ممالک کے علاوہ برصغیر پاک و ہند میں چشتیہ سهروردیہ اور قادریہ سلاسل میں اس کو بھی قبولیت حاصل ہوئی۔ ہمیشہ سے یہ کتاب صوفیہ کرام کے مطالعہ میں رہی اور مردان با اخلاص کو اس کے مطالعہ کی تاکید کی جاتی رہی ہے اور بزرگان طریقت اس کا درس دیتے رہے ہیں، بعض ارباب طریقت نے اس پر تعليقات تر فرمائے ہیں اور بعض حضرات نے اس کی شروح بھی لکھی ہیں۔ رسالہ قشیریہ کی زبان عربی ہے اردو میں بھی دستیاب ہے تصنیف، ابو القاسم عبد الکریم بن ہوازن قشیری ; ترجمہ، مقدمہ و تعلیقات، پیر محمد حسن ادارہ تحقیقات اسلامی، بینالاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، 2009[3]
اہمیت
[ترمیم]رسالہ قشیریہ تصوف کو اہم کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے ہر چند کہ یہ اوسط تقطیع کے چند جزو کا رسالہ ہے لیکن اس کی جامعیت بہت ہے رسالہ قشیریہ میں اول صوفی کے عقائد بیان کیے گئے ہیں اس کے بعد 83 معروف و مشہور مشائخ کے حالات مختصرأ ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں اس کے بعد مصطلحات صوفی" کی تشریح ہے اس کے بعد اب سلوک کے احوال آداب و مقامات کو بیان کیا ہے۔ ضمنأ کرامات اولیاء بھی مذکور ہیں۔ یہ رسالہ ایک مقدمہ اور 13 ابواب پر مشتمل ہے اور دوسرا باب اتباع کتاب اللہ پر مشتمل ہے اس کتاب کا ترجمہ لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔
کتابیات
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ انوار تصوف: صفحہ 34-35۔
- ↑ رسالہ قشیریہ صفحہ 35،مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور2009ء
- ↑ http://ci.nii.ac.jp/ncid/BB14488916