رفیع پیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پاکستان کے نامور ڈراما نگار‘ صدا کار اور اداکار

پیدائش[ترمیم]

21 مارچ 1900ء کو پیدا ہوئے،

تعلیم[ترمیم]

رفیع پیر کے دادا‘ چچا اور والد سبھی گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے۔ رفیع پیر نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا۔ ان دنوں تحریک عدم تعاون‘ تحریک خلافت اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے باعث انھوں نے کالج چھوڑ دیا

1916ء میں انھیں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کے لیے اوکسفرڈ بھیج دیا گیا، 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں انھوں نے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں 4برس گزارنے کے بعد وہ برلن جا پہنچے

عملی زندگی[ترمیم]

سیاست میں حصہ لینے لگے۔ اس سلسلے میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی نکل آئے چنانچہ ان کے اہل خانہ نے انھیں لندن بھجوا دیا مگر وہ انگریزوں سے شدید نفرت کے باعث وہاں زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور جرمنی چلے گئے۔ واپس آنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے منسلک ہو گئے۔ ان دنوں زیڈ اے بخاری‘ سرور نیازی‘ لائنل فیلڈن سبھی ریڈیو کے پروگراموں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ رفیع پیر نے اس دوران ریڈیو سے درجنوں ڈرامے کیے۔ وہ ڈراما لکھتے بھی تھے‘ بولتے بھی تھے اور ڈراما کرتے بھی تھے۔ لاہور اور دہلی اسٹیشنوں سے انھوں نے ایک طویل عرصے تک اپنی وابستگی قائم رکھی۔ 1946ء میں انھوں نے فلم نیچا نگر میں کام کیا نیچا نگر کو کینز(فرانس) کے فلمی میلے میں انعام بھی ملا تھا۔ رفیع پیر نے ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے جن میں ان کا ڈراما ’’اکھیاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پنجابی کا پہلا ڈراما تھا۔ اکھیاں کے علاوہ انھوں نے ’’کوڑے گھٹ‘‘ اور جدوں ساریاں آساں ٹٹ گیاں‘‘ جیسے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ آخری ڈراما ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب رفیع پیر کی بینائی زائل ہو گئی تھی‘ یہ ڈراما انھوں نے اپنے بچوں کو املا کروایا تھا۔[1]

تصانیف[ترمیم]

مجلس ترقی ادب لاہور نے ""رفیع پیر کے ڈرامے"" کے نام سے ان کے ڈراموں کو کتابی شکل دی،[2]

وفات[ترمیم]

مارچ 1974ء میں وہ بیمار ہوئے اور میو ہسپتال (لاہور) میں داخل کیے گئے جہاں 11 اپریل 1974ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]