رفیع پیر
پاکستان کے نامور ڈرامہ نگار‘ صدا کار اور اداکار
پیدائش[ترمیم]
تعلیم[ترمیم]
رفیع پیر کے دادا‘ چچا اور والد سبھی گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے تھے۔ رفیع پیر نے بھی اسی کالج میں داخلہ لیا۔ ان دنوں تحریک عدم تعاون‘ تحریک خلافت اور جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے باعث انہوں نے کالج چھوڑ دیا
1916ء میں انہیں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کے لیے اوکسفرڈ بھیج دیا گیا، 1919ء میں جرمنی چلے گئے، جہاں انہوں نے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی کے شعبۂ فلاسفی میں داخلہ لیا، جو اُن کا پسندیدہ مضمون تھا۔ ہائیڈل برگ یونی ورسٹی میں 4برس گزارنے کے بعد وہ برلن جا پہنچے
عملی زندگی[ترمیم]
سیاست میں حصہ لینے لگے۔ اس سلسلے میں ان کی گرفتاری کے وارنٹ بھی نکل آئے چنانچہ ان کے اہل خانہ نے انہیں لندن بھجوا دیا مگر وہ انگریزوں سے شدید نفرت کے باعث وہاں زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور جرمنی چلے گئے۔ واپس آنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو کے لاہور اسٹیشن سے منسلک ہوگئے۔ ان دنوں زیڈ اے بخاری‘ سرور نیازی‘ لائنل فیلڈن سبھی ریڈیو کے پروگراموں کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوششیں کررہے تھے۔ رفیع پیر نے اس دوران ریڈیو سے درجنوں ڈرامے کیے۔ وہ ڈرامہ لکھتے بھی تھے‘ بولتے بھی تھے اور ڈرامہ کرتے بھی تھے۔ لاہور اور دہلی اسٹیشنوں سے انہوں نے ایک طویل عرصے تک اپنی وابستگی قائم رکھی۔ 1946ء میں انہوں نے فلم نیچا نگر میں کام کیا نیچا نگر کو کینز(فرانس) کے فلمی میلے میں انعام بھی ملا تھا۔ رفیع پیر نے ریڈیو کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے جن میں ان کا ڈرامہ ’’اکھیاں‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اکھیاں ریڈیو سے نشر ہونے والا پنجابی کا پہلا ڈرامہ تھا۔ اکھیاں کے علاوہ انہوں نے ’’کوڑے گھٹ‘‘ اور جدوں ساریاں آساں ٹٹ گیاں‘‘ جیسے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ آخری ڈرامہ ٹیلی ویژن کے لیے لکھا گیا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب رفیع پیر کی بینائی زائل ہوگئی تھی‘ یہ ڈرامہ انہوں نے اپنے بچوں کو املا کروایا تھا۔[1]
تصانیف[ترمیم]
مجلس ترقی ادب لاہور نے ""رفیع پیر کے ڈرامے"" کے نام سے ان کے ڈراموں کو کتابی شکل دی،[2]
وفات[ترمیم]
مارچ 1974ء میں وہ بیمار ہوئے اور میو ہسپتال (لاہور) میں داخل کیے گئے جہاں 11 اپریل 1974ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔[3]