رقیہ بنت علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

رقیہ بنت علی( د. 656–661 ) عالم اسلام کے چوتھے خلیفہ سیدنا و مولانا علی بن ابی طالب کی صاحبزادی اور سیدنا عباس علمدار کی ہمشیرہ تھیں۔ وہ مکران اور لاہور اپنی کچھ ساتھیوں اور عزتی داروں کے ہمراہ اسلام کی تبلیغ کے لیے گئیں۔ کچھ روایات کے مطابق ان کا مدفن قاہرہ میں ہے اور کچھ روایات کے مطابق ان کا مدفن پاکستان کے شہر لاہور میں ہے۔

پیدائش اور نسب[ترمیم]

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا علی ابن ابی طالب کی بیٹی تھیں۔ وہ عباس بن علی بن ابی طالب، جو علمدار کربلا کے نام سے مشہور ہیں کی ہمشیرہ تھیں۔

ان کی والدہ کا نام فاطمہ بنت حزام الکلابیہ العلویہ تھا، جو ام البنین کے نام سے مشہور تھیں ، جو علی ابن ابی طالب کی بیوی تھیں۔ وہ قبیلہ بنو کلاب کلباسی، خاص العباسیہ سے تھیں۔ [1]

امام علی کے زمانے میں[ترمیم]

سانح کربلا کے بعد سیدہ رقیہ کی قیادت میں پانچ مسلم خواتین نے مکہ چھوڑ کر لاہور میں مذہب کی تبلیغ کا ارادہ کیا، جس کے نتیجے میں کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ اسلام میں داخل ہوا۔

کچھ اسلامی مورخین کے ایک مکتب فکر کے مطابق، رقیہ کو ان کے والد نے اسلامی عقیدے کی تبلیغ کے لیے سندھ جانے کی ہدایت کی تھی۔ یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ ان کا مشن کامیابی حاصل کرے گا۔ واقعہ کربلا کی تلخیوں نے سیدہ رقیہ کو مکران ہجرت کرنے پر مجبور کیا جہاں انھوں نے کئی سالوں تک اسلام کی تبلیغ کی۔ محمد بن قاسم بھی رقیہ کے مصائب کو جاننے کے بعد ان کے حامی بن گئے۔ لیکن کثیر تعداد میں روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ محمد بن قاسم ان کا دشمن تھا اور عرب سے سندھ کی طرف انھیں خواتین کو شہید کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔

لاہور، پاکستان میں بی بی پاک دامن

رقیہ کی جان کو خطرات لاحق تھے جس کی وجہ سے وہ لاہور آکر آباد ہوگئیں۔ سیدہ رقیہ نے اپنی تبلیغی سرگرمیاں لاہور میں امن کے ساتھ جاری رکھی۔

سیدہ رقیہ، قاہرہ کے مشہد کا بیرونی منظر

وفات[ترمیم]

روایات کے مطابق انکا مدفن لاہور میں ہے۔ ان کی کی وفات کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہے۔ انھیں لاہور میں بی بی پاک دامن میں سپرد خاک کیا گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Harouf.com