مندرجات کا رخ کریں

روح بن حاتم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
روح بن حاتم
معلومات شخصیت
وفات سنہ 791ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
افریقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد فضل بن روح بن حاتم مہلبی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ والی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابو حاتم روح بن حاتم بن قبیصہ بن محلب بن ابی صفرہ ازدی داود بن یزید بن حاتم المہلبی ایک نامور اسلامی گورنر اور حکمران تھے، جنہیں پانچ عباسی خلفاء – ابو العباس السفاح، ابو جعفر المنصور، المہدی، الہادی اور ہارون الرشید – کے تحت مختلف خطوں کی ولایت حاصل رہی۔

یہ شرف بہت کم حکمرانوں کو نصیب ہوا اور تاریخ میں کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے صرف ابو موسیٰ اشعریؓ کو یہ امتیاز حاصل ہوا تھا، جو رسول اللہﷺ، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی کے عہد میں والی رہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ داود بن یزید نہ صرف ایک قابل، مدبر اور تجربہ کار حکمران تھے بلکہ عباسی خلفاء کا ان پر بھرپور اعتماد بھی تھا۔

حالات زندگی

[ترمیم]

روح بن حاتم المہلبی عباسی خلافت کے ایک ممتاز گورنر تھے، جنہیں خلیفہ المہدی بن ابو جعفر المنصور نے 159ھ میں سندھ کا والی مقرر کیا۔ کچھ روایات کے مطابق، انھیں 160ھ میں مقرر کیا گیا اور 161ھ میں معزول کر دیا گیا، جس کے بعد انھیں بصرہ کی ولایت دی گئی۔ ان کے بھائی یزید بن حاتم المہلبی اس دوران افریقیہ (موجودہ تیونس) کے گورنر تھے۔ جب 170ھ میں یزید بن حاتم کا قیروان (تیونس) میں انتقال ہوا، تو اہلِ افریقیہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

"کیا ہی دوری ہے ان دو بھائیوں کی قبروں کے درمیان! ایک کا مزار سندھ میں ہے اور دوسرا یہاں افریقیہ میں دفن ہوا ہے۔"

اتفاق سے ہارون الرشید نے کچھ عرصے بعد روح بن حاتم کو سندھ کی گورنری سے معزول کر کے ان کے مرحوم بھائی یزید بن حاتم کی جگہ افریقیہ کا گورنر مقرر کر دیا۔ روح بن حاتم 1 رجب 171ھ کو افریقیہ پہنچے اور 174ھ کے رمضان میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انھیں ان کے بھائی یزید بن حاتم کے پہلو میں دفن کیا گیا، یوں دونوں بھائی جو زندگی میں جداگانہ علاقوں کے حکمران رہے، موت کے بعد ایک ہی مزار میں یکجا ہو گئے۔[1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. شمس الدين الذهبي۔ سير أعلام النبلاء (11 ایڈیشن)۔ مؤسسة الرسالة۔ ج 7۔ ص 441