روزینہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


روزینہ
معلومات شخصیت
پیدائش 20 ستمبر 1950ء (74 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ ادکارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ارمان ،  بشیرا   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات

روزینہ (انگریزی: Rozina) اس نے ایک معاون اداکارہ کے طور پر شروع کیا اور ایک مشہور ہیروئن بن گی۔ پاکستان کی فلمی دنیا میں 1970ء اور 1980ء کی دہائی کا دور بڑا پر رونق رہا۔ ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں ریلیز ہوئیں۔ نئے نئے فنکاروں کی آمد نے اس صنعت کو بڑا فروغ دیا۔ اسی دور میں اداکارہ روزینہ بھی اپنے عروج پر جلوہ گر ہوتی رہیں، جبکہ انھوں نے 1963ء میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ ان کی پہلی فلم ڈائریکٹر بٹ کاسر نے بنائی تھی۔ فلم کا نام چوری چھپے تھا۔ اس فلم میں روزینہ کے ساتھ اداکار حنیف نے کام کیا تھا۔ یہ فلم 15 نومبر 1963ء کوریلیز ہوئی تھی۔ حقیقی معنوں میں ان کی پہلی فلم ایسٹ پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں بنی تھی۔ اس فلم میں روزینہ نے اداکار سیٹھی کے ساتھ مرکزی رول ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر جمیل مرزا تھے اور موسیقی حسنین کی تھی۔ ان کی یہ فلم 23 جولائی 1965ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے پاکستان کے کئی فلمسازوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ کیونکہ اس میں ایک نئی لڑکی روزینہ کو ان کی تجربہ کار نگاہوں نے بھانپ لیا تھا کہ مستقبل میں یہ پاکستان کی معروف اداکاراؤں میں شامل ہوگی۔

روزینہ ڈریم گرل اداکارہ تھیں۔ اس ڈریم گرل کو دیکھ کر اسے بہت سے فلمسازوں نے اپنی فلموں میں کاسٹ کر لیا۔ صرف ایک سال کے عرصہ میں ان کی چار فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلم ’’چوری چھپے‘‘ کے بعد ان کی دوسری فلم ڈائریکٹر اقبال رضوی نے موسیقار لال محمد اقبال کی دھن پر ریلیز کی۔ اس فلم کا نام ’’ آزادی یا موت‘‘ تھا۔ یہ فلم پاک بھارت کے درمیان ہونے والی 1965ء کی جنگ کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں صوفیہ بانو، حنیف، شاہد اور روزینہ نے کام کیا تھا۔ جنگ کے موضوع پر بننے والی یہ پاکستان کی پہلی فلم تھی۔ لوگوں کے جذبے بھی گرم تھے۔

فلم بھی جذبۂ حب الوطنی سے لبریز تھی اور اس نئی دوشیزہ نے اپنی اداکاری بھی بہت عمدہ کی تھی۔ دو ماہ بعد روزینہ ہدایت کار پرویز ملک کی فلم ’’ارمان‘‘ میں جلوہ گر ہوئیں۔ اس فلم کی ہیروئن توزیبا بیگم تھیں، مگر سائیڈ ہیروئن روزینہ تھیں۔ ہیرو وحید مراد تھے اور یہ پاکستان کی دوسری پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ اس فلم سے روزینہ کے لیے فلمی صنعت کے دروازے مکمل طور پر کھل گئے تھے۔

چند ہفتوں بعد ان کی ایک اور فلم ’’دھوم مچاتی‘‘ سینماؤں کی زینت بنی۔ فلم کا نام ’’جوش‘‘ تھا۔ اس فلم کے ڈائریکٹر اقبال یوسف تھے اور اس فلم میں بڑی عمدہ کاسٹ لی گئی تھی۔ جس میں زیبا بیگم، سدھیر، وحید مراد، اقبال یوسف، رخسانہ، ترانہ اور روزینہ شامل تھے۔

12 اپریل 1966ء کو اس فلم کا افتتاح ہوا اور یہ فلم بھی گولڈن جوبلی ہو گئی۔ اس فلم کے دوماہ بعد پھر ان کی ایک فلم اداکار محمد علی کے ساتھ ریلیز ہوئی۔ فلم کانام ’’اکیلے نہ جانا‘‘تھا۔ اس فلم میں روزینہ کے ساتھ ایک اور کراچی کی اداکارہ صوفیہ بانو شامل تھیں۔ روزینہ کا تعلق بھی کراچی ہی سے تھا اور یہ پہلے پاکستان چوک پر رہتی تھیں۔ بعد میں یہ سندھی مسلم سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں شفٹ ہو گئی تھیں، ان کے ساتھ ان کی بہن اور والدہ بھی رہتی تھیں۔

اداکارہ روزینہ کو فلموں میں دھڑا دھڑ آفرز آنے لگیں۔ ڈائریکٹر نہال نے انھیں اپنی فلم ’’فنٹوش‘‘ میں کاسٹ کیا۔ وہ خود ہی اس فلم کے ہیرو تھے اور ہیروئن روزینہ تھیں۔

ڈائریکٹر سلطان نے انھیں اداکار فاضلانی کے ساتھ فلم ’’استادوں کے استاد‘‘ میں پیش کیا۔ ڈائریکٹر پرویز ملک نے اپنی فلم ’’احسان‘‘ میں انھیں زیبا اور وحید مراد کے ساتھ سائیڈ ہیروئن پیش کیا تو ڈائریکٹر ٖظفر شباب نے روزینہ کو دیبا کے ساتھ پیش کیا۔ اس فلم کے ہیرو اداکار ندیم تھے۔ اس فلم میں بھی روزینہ کا ستارہ عروج پر رہا۔ یہ تمام فلمیں صرف ایک سال کے عرصہ میں ریلیز ہوئیں۔ فلم ’’سنگدل‘‘ 2 اکتوبر 1968ء کو ریلیز ہوئی تھی۔

اداکارہ روزینہ نے سب سے زیادہ کام چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کے ساتھ کیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کی جوڑی بھی کافی عرصہ مشہور رہی تھی۔ جبکہ وہ ٹاپ کی ہیروئنز میں اب تک شمار نہیں ہوتی تھیں۔ مگر پھر بھی ہر ڈائریکٹر انھیں اپنی فلموں میں لینا اپنی شان سمجھتا تھا۔ خود وحید مراد نے اپنی پروڈیوس کی ہوئی فلم جس کے ڈائریکٹر بھی یہ خود ہی تھے، ’’اشارہ‘‘ میں اپنے ساتھ شامل کیا۔ اس فلم کی ہیروئن تو دیبا بیگم تھیں، مگر سائیڈ رول روزینہ کا تھا۔ اور اس فلم میں روزینہ نے بیسٹ سپورٹنگ رول کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔

روزینہ نے جب فلموں میں کام شروع بھی نہیں کیا تھا، ان کا ٹی وی پر ایک اشتہار بڑا مشہور ہوا تھا اور ٹی وی بھی نیا نیا شروع ہوا تھا۔ اشتہار بھی بڑا خوبصورت تھا، یہ اشتہار ایک چائے کی پتی کا تھا، جس کے بول تھے ’’چائے چاہیے؟ کون سی جناب لپٹن عمدہ ہے‘‘ اسی اشتہار کو بنگالی زبان میں بھی فلمایا گیاتھا۔

روزینہ کو 1970ء سے لے کر 1980ء تک کی دہائی میں بڑا عروج حاصل رہا۔ صرف 70ء کے پہلے ہی سال میں ان کی دس گیارہ فلمیں منظر عام پر آگئی تھیں۔ کامیابی ان کے قدم چوم رہی تھی۔ اسی دوران ڈائریکٹر قمر زیدی نے انھیں اپنی فلم ’’رم جھم‘‘ کے لیے کاسٹ کیا۔ اس فلم کی کہانی اس وقت کے معروف ڈراما نویس ریاض فرشوری نے تحریر کی اور ڈائیلاگ بھی ریاض فرشوری کے تھے۔ ان دنوں ریاض فرشوری کا نام بڑی شہرت رکھتا تھا، کیونکہ اداکار محمد علی بھی انہی کے توسط سے ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔ یہی نہیں ملک کے معروف شاعر فیض احمد فیض صاحب بھی لندن میں ان سے فلموں کی کہانیاں لکھواتے تھے۔ ریاض فرشوری کا انتقال 17 اپریل 1983ء کو کراچی میں ہوا تھا۔

ان کی فلم ’’رم جھم‘‘ کی مختصر کہانی یہ ہے کہ روزینہ ملک کی ایک مشہور افسانہ نگار ہوتی ہیں اور وہ افسانے لکھ لکھ کر اس سے جو رقم ملتی ہے اپنی بیمار ماں کا علاج کراتی ہیں، مگر اس دوران خود ان کی بینائی بھی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے، اس فلم میں وحید مراد اس افسانہ نگار کو دل وجان سے چاہتا ہے، مگر وحید مراد کا باپ ایک دولت مند آدمی ہوتا ہے اور وہ وحید مراد کی شادی اپنے ایک رشتہ دار کی لڑکی سے طے کرتا ہے۔ وہ لڑکی اداکارہ زمرد ہوتی ہیں، مگر وحید مراد اس شادی سے انکار کر دیتے ہیں اور گھر سے روٹھ کر چلے جاتے ہیں اور روزینہ کے پاس آجاتے ہیں، مگر یہاں روزینہ مسلسل لکھنے کی وجہ سے اندھی ہوجاتی ہیں اور خاموشی سے ایک نابیناؤں کے اسپتال میں رہنے لگتی ہیں۔

ادھر زمرد روزینہ سے ملتی ہیں اور ان کی آنکھوں کا علاج کرانے کے بہانے ایک فرضی آدمی کو ڈاکٹر بنا کر اس کا چیک اپ کراتی ہیں اور کچھ اس انداز سے وہ چیک اپ ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ فوٹو بھی اتاری جاتی ہیں جو وحید مراد کو دکھائی جاتی ہیں جس سے وہ ان کی طرف سے بدگمان ہوجاتے ہیں۔ اس فلم کا ایک گانا بڑا ہٹ ہواتھا، جس کے بول ہیں ’’میں نے ایک آشیاں بنایا تھا اب بھی شاید وہ جل رہاہوگا‘‘ میڈم نورجہاں کی آواز میں یہ گانا روزینہ پر فلمایا گیا تھا۔

فلم رم جھم 22 جنوری 1971ء کو ریلیز ہوئی۔ روزینہ کی تقریباً سو سے کچھ کم فلمیں ہیں، جن میں انھوں نے عمدہ اداکاری کی۔ فلم ’’آسرا‘‘، ’’انیلا‘‘، ’’جیسے جانتے نہیں‘‘، ’’السلام وعلیکم‘‘، ’’پیار کی جیت‘‘، ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ اور انگریزی فلموں کے معروف اداکار ضیا محی الدین کے ساتھ فلم ’’مجرم کون‘‘ میں ہیروئن آئیں۔ اداکار ضیا محی الدین آج کل کراچی میں کے سربراہ ہیں اور بچوں کو آرٹ کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ راحت کاظمی، طلعت حسین اور ارشد محمود بھی اس ادارے سے منسلک ہیں۔

روزینہ نے پاکستان کے ہر بڑے اداکار کے ساتھ کام کیا اور ہر بڑے ہدایتکار نے روزینہ کے فن کو پسند کیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب فلمی شائقین ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کراچی کی ایک آبادی سندھی مسلم سوسائٹی کے چکر لگاتے تھے۔ روزینہ نے جہاں درجنوں اردو فلموں میں کام کیا تھا، وہاں کچھ ان کی پنجابی فلمیں بھی مشہور ہوئی تھیں، جن میں ’’وارث‘‘، ’’دوپتراناراں دے‘‘، ’’’اونچا شملہ جٹ دا‘‘، ’’بڈھا شیر‘‘، ’’ہیرو‘‘، ’’خون دا بدلہ خون‘‘، ’’سوہنا بابل‘‘، ’’سکندرا‘‘، ’’دودشمن‘‘، ’’عاشق لوک سووائی‘‘، ’’ھاکو‘‘، ’’غیرت دا نشان‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی ایک پنجابی فلم ’’ٹھاہ‘‘ کا گانا بھی اپنے وقت کا بڑا ہٹ گانا تھا۔ جس کے بول ہیں’’ آسینے نال لگ جا ٹھا کرکے‘‘، اس فلم میں روزینہ کے ساتھ لالہ سدھیر اور شاہد تھے۔

روزینہ نے فلموں کے مشہور ساؤنڈ اسپیشلسٹ رفعت قریشی سے شادی کی تھی اور ان کی ایک بیٹی صائمہ قریشی ہیں، وہ بھی پی ٹی وی کے ڈراموں کی مشہور آرٹسٹ ہیں اور انھوں نے بطور ہیروئن ڈائریکٹر سید نور کی فلم ’’ہم ایک ہیں‘‘ میں کام کیا تھا۔ جس کے ہیرو اسماعیل خان تھے۔ صائمہ نے فلموں میں اپنا نام تبدیل کرکے گل رکھا ہے۔ صائمہ بھی شادی شدہ ہیں اور ایک بیٹے کی ماں ہیں۔

روزینہ آج کل کراچی میں رہتی ہیں، کچھ عرصہ قبل لاہور گئی تھیں، مگر پھر واپس آگئیں۔ ان کے شوہر رفعت قریشی 21 ستمبر 1995ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

روزینہ نے تقریباً 22 ؍سال فلموں میں کام کیا۔ ان کی چند فلمیں یہ ہیں؟ ’’ناتا‘‘، ’’ہنی مون‘‘، ’’افسانہ‘‘، ’’نجمہ‘‘، ’’لوان یورپ‘‘، ’’پرائی بیٹی‘‘، ’’سوغات‘‘، ’’چاند سورج‘‘ ،’’ پھر چاند نکلے گا‘‘، ’’دولت اور دنیا‘‘، ’’آؤ پیار کریں‘‘، ’’چلتے سورج کے نیچے‘‘،’’پروفیسر اور شیشے کا گھر‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم ’’مشرق مغرب‘‘ تھی۔ جس میں یہ اداکار سید کمال کے ساتھ آخری بار جلوہ گر ہوئیں۔ ان کی مزید دوفلمیں جن میں ایک فلم عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ’’علاقہ آؤٹ‘‘ (پنجابی) تھی اور دوسری فلم ’’چھیل چھبیلا‘‘ سید کمال کے ساتھ تھیں۔ یہ دونوں فلمیں ریلیز نہ ہوسکیں۔ آخری فلم ڈائریکٹر شجاع تحصیل نے بنائی تھی اور یہ فلم 20 جون 1985ء کوریلیز ہوئی۔ فلم ’’مشرق مغرب‘‘ ان کی آخری فلم تھی۔

بیرونی رابطہ[ترمیم]