مندرجات کا رخ کریں

رکاب دار

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رِکاب دار
Masterchef
ایک تُرک ماسٹر شیف
پیشہ
نام‌اعلیٰ باورچی
ماسٹر شیف
کام کی قسم
پیشہ
شعبہ ہائے فعالیت
عمدہ کھانا پکانا
تفصیل
مہارتیںفنونِ طعام کے متخصص، فہرستِ اغذیہ کی ترتیب، مطبخ کی تنظیم اور عملے کی تدبیر۔
1871ء یا 1872ء میں بیجنگ میں ایک سن رسیدہ مسلمان باورچی اپنے معاون کے ساتھ

رِکاب دار (قدیم املا: رِکابدار) اعلیٰ درجہ کے کھانا پکانے والے باورچی کو کہتے ہیں۔[1][2][3] تاریخی لحاظ سے رکابدار شاہی خانوادوں کے باورچی خانوں کے وہ ماہرین تھے جو اپنی خلّاقی، طبّاعی اور ہنرمندی سے نت نئے اور حیرت انگیز پکوان تخلیق کرتے تھے۔ ان کا ہر پکوان نہ صرف ذائقے میں لاجواب ہوتا بلکہ اپنی نفاست اور خوبصورتی سے بھی دیکھنے والوں کو حیرت میں مبتلا کر دیتا تھا۔[4] نواب آصف الدولہ کے عہد میں جب بجائے فیض آباد کے لکھنؤ مرکز حکومت قرار پایا تو باورچی خانے میں مزید جدت طرازیاں ہوئیں۔ باورچی دہلی اور لکھنؤ کے تھے اور رکاب دار اکثر لکھنوی تھے۔ ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ باورچی بڑی بڑی دیگیں اُتارتا تھا اور رکابدار صرف دیگچوں میں نفیس اور پر تکلف کھانے تیار کرتا۔ یہ پیشہ ورانہ مہارت میں باورچیوں سے برتر ہوا کرتے تھے۔ رکاب دار کھانے کی رکابیاں(2) نقش و نگار سے اس طرح سجاتے تھے کہ پھولوں کا گلدستہ معلوم ہوتی تھیں۔[5][6][7]

بادشاہوں امیروں، وزیروں اور عوام الناس کے متمول خاندانوں میں جہاں آسودگی میسر تھی، زر و مال کی افراط تھی، رکاب داری کے فن نے روز افزوں ترقی کی۔ کہیں پر مرغن پکوان، کہیں پر برشتہ، کہیں پر خشکہ سے لے کر بریانی تک اور کہیں پر کُوکُو کباب، شامی کباب، نرگسی کباب کی روح پرور خوشبوؤں سے باورچی خانے مہک اُٹھے۔ رکاب داروں نے اپنے اپنے فن کے کمالات مبالغہ کی حد تک دکھائے، مثال کے طور پر لکھنؤ کے میر ببر علی یا پیر علی رکابدار کے متعلق مشہور ہے کہ وہ انار بناتے تھے۔ اوپر کا چھلکا اور اندر کے دانوں کی ترتیب اور ان کے پردے سب اصلی معلوم ہوتے تھے۔ دانوں کی گٹھلیاں بادام کی طرح ہوتی تھیں۔ ناشپاتی کے عرق کے دانے ہوتے تھے۔ دانوں کے بیچ کے پردے اور اوپر کا چھلکا دونوں شکر کے ہوتے تھے۔[8][9]

شاہان اودھ کی خوش خوراکی نے اودھ میں بڑے بڑے باورچی اور رکاندار پیدا کر دیے تھے۔[10] مرزا جعفر حسین لکھتے ہیں: ”لکھنؤ کے باشندوں کے لیے نفاست و نزاکت اور رنگینی و تنوع سے زندگی کو سنوار لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا، ان کے مذاق و مزاج میں فنکارانہ صلاحیتیں بس گئی تھیں۔ غذاؤں پر خصوصیت کے ساتھ زیادہ توجہ تھی۔ اس لیے ہر رئیس ایجادات و اختراعات کے پہلو نکالا کرتا تھا۔ انھیں رئیسوں کی سر پرستی اور قدر دانی کی بدولت بہترین باورچی پیدا ہوتے رہتے تھے۔“[11]

اس فنکاری کے نتیجہ میں روٹیوں کی بیسیوں قسمیں وجود میں آئیں، تندور نے سونے پے سہاگے کا کام کیا۔ فنی لیاقت کے جوہر مبالغہ کی حد تک پہنچ گئے۔ بادشاہوں کی سر پرستی میں یہ فن پروان چڑھا، درباروں میں رکابداروں کی پزیرائی ہوئی، شادی بیاہ کے موقعوں پر رکاب داروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ لذیذ اور چٹخارے دار الوانِ نعمت، مٹھائیوں کی دکانوں اور چاٹ کی اقسام نے لوگوں کو موہ لیا۔ بازاروں کے گلی کوچے لذیذ اور مختلف النوع کھانوں سے معمور گئے۔ اور ہندوستان کا ہر خطہ اپنی جغرافیائی خصوصیات کی وجہ سے الگ الگ پکوانوں کے لیے مشہور ہو گیا۔ مثلاً دہلی کا حبشی حلوہ یا حلوۂ سوہن، لکھنؤ کی امرتی، حیدرآباد کی قلاقند یا اشرفی، بمبئی کا بمبئی حلوہ، آگرے کا پیٹھا اور گجرات کی گھاری وغیرہ وغیرہ۔[12]

اصطلاح کی اصل و مفہوم

[ترمیم]

سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: ”یہی حال رکابی کا بھی ہے، رکاب فارسی میں ہشت پہل پیالہ کو کہتے ہیں اسی سے رکابی بنی اور اب وہ پھیلے ہوئے چوڑے ظرف کو کہتے ہیں اور اسی سے ہندوستانی امرا کے لیے رکاب دار پیدا ہوئے جو کھانے کا انتظام کرتے تھے یا عمدہ عمدہ کھانے تیار کرتے تھے۔“[13]

فرہنگ آصفیہ کی رو سے ”رکابیوں میں کھانا چننے اور خوبصورتی سے لگانے والا خانساماں۔ وہ شخص جو باورچی گری میں ید طولى رکھتا ہو۔ ایک قسم کا باورچی جو عمدہ کھانا پکاتا اور نئی نئی ہر ایک چیز جیسے اچار، مربے، حلوا لوزيات وغيره تیار کرتا ہے۔“[14]

تاریخ

[ترمیم]

غالباً فنِ رکاب داری کی ابتدا مغلیہ دور میں ہوئی تھی، جب مطبخ میں باورچی کے علاوہ دیگر خدمت گزار بھی موجود ہوتے تھے، جن میں رکاب دار، چاشنی گیر / خورش شناس شامل تھے اور یہ تمام افراد میر بکاول کے زیرِ نگرانی کام کرتے تھے۔[15]

مغل شہنشاہوں کے آخر دور میں کھانا پکانے والوں کی تین قسمیں ہو گئی تھیں، دیگ شو، باورچی اور رکاب دار۔ دیگ شُو صرف دیگ اور دوسرے برتن دھویا کرتے، باورچی دیگوں میں کھانا پکایا کرتے اور رکابدار صرت چھوٹی ہانڈیاں پکاتے اور میوہ جات کے پھول کتر کر کھانوں پر نقش و نگار بناتے۔[16]

وصف و کمالات

[ترمیم]

رکاب داروں اور باورچیوں میں فرق یہ تھا کہ باورچی کھانا پکانے اور اکثر بڑی بڑی دیگیں تیار کر کے اتارتے تھے۔ رکاب داروں کو کھانا پکانے کے فن میں کمال حاصل ہوتا تھا۔ یہ لوگ اکثر چھوٹی ہانڈیاں پکاتے اور بڑی دیگیں اتارنا اپنی شان اور مرتبے سے ادنی کام خیال کرتے تھے۔ اگرچہ اکثر باورچی چھوٹی ہانڈیاں بھی پکاتے تھے۔ رکاب داروں کا کام فقط چھوٹی ہانڈیوں تک محدود تھا۔ یہ لوگ میوہ جات کے پھول کترتے، کھانا پروستے اور دستر خوان سجانے میں سلیقہ نفاست اور تکلف کا اظہار کرتے تھے۔ رکابیوں(2) اور قابوں(3) میں جو پلاؤ یا زردہ نکالا جاتا۔ اُس پر میوہ جات اور دیگر طریقوں سے گلکاریاں کی جاتیں اور نقش و نگار بنائے جاتے۔ نہایت نفیس اور لطیف مربّے اور اچار تیار کیے جاتے تھے اور کھانوں کی تیاری میں اپنی طبیعت داری سے صدہا قسم کی صنعتیں نمایاں کرتے تھے۔[17][18][19]

اہلِ لکھنؤ نے خوراک کو ایک اعلیٰ فن کا درجہ دیا اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور جدتوں کے ذریعے کھانے اور دعوتوں کو ایسی حیثیت عطا کی کہ ان کا ذکر کسی زندہ شہر کی بجائے ”باغ و بہار“ کی کسی شہزادی کے دسترخوان کی داستان محسوس ہوتا ہے۔ جہاں اروی جیسی ایک عام سبزی بھی غیر معمولی تھی، وہاں لکھنؤ کے ایک باورچی کا یہ دعویٰ تھا: ”سال بھر دونوں وقت ارویاں پکاؤں اور ہر بار نئی ترکیب سے۔“[20]

نصیر الدین حیدر کے شاہی باورچی کے متعلق مشہور تھا کہ وہ خوراک کو ایک نئی جہت دینے میں ماہر تھا۔ اس کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ بادام سے چاول تراشتا اور پستے کی دال تیار کرتا اور ان اجزا سے اس قدر نفیس کھچڑی پکاتا کہ دیکھنے میں ماش کی کھچڑی معلوم ہوتی، مگر کھانے پر اس کا ذائقہ بے مثال ہوتا۔ یہ کھچڑی اتنی لذیذ ہوتی کہ اس کا مزا زبان پر مدتوں برقرار رہتا۔ اسی روایت کو واجد علی شاہ کے رکاب دار نے مزید کمال تک پہنچایا۔ وہ کھانوں کی ہیئت کو اس طرح بدل دیتا کہ مربا کھانے پر قورمے کا ذائقہ آتا، قورمہ کھانے پر فیرینی کی لذت محسوس ہوتی اور فیرینی کھانے پر پلاؤ کا مزا آتا۔ دیگر رکاب داروں نے بھی کھانوں اور چاولوں کی تیاری میں حیرت انگیز صنعتیں دکھائیں۔ کسی نے نورنگ چاولوں سے پلاؤ تیار کیا، جو دیکھنے میں جواہرات جیسا لگتا تھا اور کسی نے چاولوں کو آدھا ارغوانی اور آدھا سفید کر کے انار دانہ کا نمونہ بنایا۔ شجاع الدولہ کے دور میں شاہی دسترخوان کے لیے چھ مختلف باورچی خانوں سے کھانے آتے تھے، جن میں سب سے نمایاں مرزا حسن رضا خان کے زیرِ انتظام باورچی خانہ تھا۔ اس کے اخراجات دو ہزار روپے روزانہ کے قریب ہوتے، مگر اسی قدر کی بچت بھی کی جاتی۔ دوسرا باورچی خانہ، جو ابتدا میں مرزا حسن علی کے تحت تھا اور بعد میں عنبر علی خان کے زیرِ نگرانی آیا، اس پر روزانہ تین سو روپے خرچ ہوتے تھے۔ آصف الدولہ کے شاہی باورچی خانے کا خرچ بھی ابو طالب کے مطابق دو سے تین ہزار روپے روزانہ تھا۔ نواب سالار جنگ کے خاص رکاب دار کو اس کے کمالات کی بنا پر بارہ سو روپے ماہانہ مُشاہَرہ دیا جاتا تھا۔[21]

واجد علی شاہ کے عہد کا ایک واقعہ مشہور ہے: ”آخری دور میں واجد علی شاہ کے دستر خوان پر ایک ظرف میں مربے پر نواب سلیمان قدر بہادر کو قورمہ کا دھوکا ہو گیا تھا۔ نواب موصوف بڑے صاحب ذوق تھے اور ان کے یہاں بھی اعلیٰ درجہ کے ہنرمند باورچی ملازم تھے انھوں نے بادشاہ کو مخصوص طور پر کھانے کی دعوت دی اور وہ بھی تیار ہو کر گئے کہ ان کو دھوکا دیا جائے گا لیکن پھر بھی دھوکا کھا گئے اس دسترخوان پر تمام غذائیں شیریں تھیں یہاں تک کہ دستر خوان، ظروف اور سلفچہ (کذا)(1) تک شکر سے تیار کیا گیا تھا۔“[22]

لکھنوی رکاب دار

[ترمیم]

لکھنؤ کے رکاب دار بہترین قسم کے اچار چٹنیاں، مربے حلوے بنانے کے ماہر ہوتے تھے اور عجیب صنتعوں کی مٹھائی کے انار ایسے بناتا تھا کہ ان پر اصلی اناروں کا دھوکا ہوتا تھا۔ ان کو توڑتے تو دانے بھی اصلی اناروں کے سے نکلتے تھے، مگر جب کھاتے۔ تو پتہ چلتا تھا کہ چھلکے اور دانے دو مختلف طرح کی خوش ذائقہ مٹھائیاں ہیں۔ ایک دوسرا رکاب دار جوزی حلوہ سوہن کی لوزیں ایسی نرم بناتا تھا کہ چھری سے بہ آسانی کٹ سکتی تھیں لیکن اگر لوز کو ہتھیلی پر رکھ کر الٹا چمچہ اس پر مار دیا جائے تو شیشے کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتی تھی۔[23]

عبد الحلیم شرر کا بیان کہ لکھنؤ کے بعض رکاب دار مُسَلّم کریلے ایسی لطافت، نفاست اور کمالِ مہارت کے ساتھ تیار کیا کرتے تھے کہ دیکھنے والے کو یوں گمان ہوتا گویا ان پر بھاپ کا گذر بھی نہ ہوا ہو۔ وہ بالکل تر و تازہ، ہرے بھرے اور تازگی سے معمور دکھائی دیتے، گویا ابھی شاخ سے توڑ کر دسترخوان پر سجا دیے گئے ہوں۔ جب انھیں کاٹ کر تناول کیا جاتا تو ان کی لذت اور خوش ذائقگی ہر ذائقہ شناس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی۔[24][25]

بعض ماہرینِ فن رکاب دار گوشت سے چھوٹی چھوٹی چڑیوں کے پیکر تراشتے اور انھیں اس قدر لطیف انداز اور کمالِ مہارت سے تیار کرتے کہ ان کی اصلی ساخت میں ذرہ برابر فرق نہ آتا۔ یہ نفیس چڑیاں پلاؤ پر یوں سجائی جاتیں کہ دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ پلیٹ میں حقیقتاً بیٹھی دانہ چگ رہی ہوں، گویا دسترخوان کو ایک منظرِ قدرت کی صورت عطا کر دی گئی ہو۔[24][25]

مرزا جعفر حسین لکھتے ہیں:

اسی طرح ایک کلاس رکاب داروں کا حَسن گنج پار میں آباد تھا۔ یہ لوگ جاڑوں میں جوزی حلوا سوہن، پیڑیاں اور مختلف قسم کے حلوے اور گرمیوں میں چٹنیاں، رُب اور مربّے بناتے تھے۔ ہر رکاب دار کسی نہ کسی رئیس کی ڈیوڑھی سے وابستہ تھا۔ ہر زمانے میں دوسرے تیسرے روز سامان تیار کر کے لاتا اور ایک ہی ٹھکانے فروخت کر کے فرصت حاصل کر لیتا تھا۔ اس طبقے پر بھی بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں زوال آگیا تھا۔ لیکن ایک خوش نصیب رکابدار کا واقعہ دلچسپ ہے۔ اس شخص کا نام اعظم علی یا عظیم اللہ تھا۔ یہ میرے گھرانے سے مسلک تھا۔ اسی سال جب کہ میں وکالت کے پیشے میں داخل ہوا تھا اُس نے مجھ سے خواہش کی کہ میں اُس کی وکالت شیخ مستنصر اللہ صاحب مرحوم ڈپٹی کلکٹر کے اجلاس پر کردوں۔ میں نے فوج داری کی عدالتوں سے غیر متعلق ہونے کی بنا پر بہت کچھ معذرت چاہی مگر وہ نہ مانا اور مجھے زبردستی اس لیے لے گیا کہ شیخ صاحب مرحوم سے میرے مراسم تھے۔ یہ مقدمہ قمار بازی کا تھا۔ عدالت نے مجھے دیکھا، پھر موکل کو گھورا اور مجھ سے فرمایا کہ یہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ اس کی سزا کم ہو جائے، میں اس پر کئی بار جرمانہ کر چکا ہوں آج پھر جرمانہ کردوں گا۔ مگر آئندہ پھر چالان ہوا تو ضرور جیل کی سزا دوں گا۔ شیخ صاحب پرانے طرز کے حاکم تھے، اُن کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی یہ ساری کاروائی ان کے یہاں اردو میں ہوئی تھی۔ انھوں نے ہر حال پچاس روپیہ جرمانہ کیا، ملزم نے فوراً جمع کردیا۔ مگر اسی وقت سے وہ مفرور ہوگیا۔ اس واقعہ کے تخمیناً آٹھ برس کے بعد میں نے حیدرآباد دکن کی ایک عالی شان دوکان پر یہ بورڈ لگا دیکھا۔ ”شاہان اودھ کے دربار کا رکاب دار“ میں بے حد اشتیاق کے ساتھ دوکان کے اندار چلا گیا تو دیکھا کہ میاں عظیم اللہ ایک تخت پر قالین، گاؤ اور تکیے کے فرش و آرائش سمیت ایک باری نفیس سٹک(4) کے دم گھسیٹ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑے احترام کے ساتھ میرا استقبال کیا اور میری بہت تواضع کی۔ میرے حالات دریافت کرنے پر انھوں نے فرمایا کہ ”جوا چھوٹ نہیں سکتا تھا لہذا جیل جانے کے ڈر سے شہر چھوڑ دیا۔ یہاں آ کر دکان کھولی، حسن اتفاق سے

سرکار نظام کی سر پرستی حاصل ہو گئی۔ اللہ کی رحمت سے کاروبار میں فروغ ہو گیا اور خدا کے فضل سے بہت آرام ہے۔“[26]

پیر علی، لکھنؤ کے مشہور رکاب دار، جو حضور نظام کے شاہی باورچی خانے میں خدمات انجام دیتے تھے، اپنی بے مثال مہارت کی بدولت ایک نہایت قیمتی اور لذیذ ارہر کی دال تیار کرتے تھے۔ یہ دال، جو نئے فرمانروایانِ لکھنؤ کے شاہی مطبخ کی خاص پہچان تھی، اپنی عمدگی اور ذائقے کے باعث سلطانی دال کے نام سے مشہور ہو گئی۔[27]

عموماً رکاب دار نہایت نفیس انداز میں مربے، اچار اور طرح طرح کی مٹھائیاں تیار کیا کرتے، جن میں صدہا اقسام کی ترکیبیں اور حیرت انگیز نزاکتیں دکھائی جاتیں۔ آم کا مربا تو عام طور پر معروف تھا، لیکن لکھنؤ کے رکابدار مسلّم ہری کیریوں کا ایسا مربا تیار کرتے تھے کہ ان کے سبز چھلکے اپنی اصل حالت میں برقرار رہتے۔ یہ دیکھنے میں یوں محسوس ہوتا کہ گویا تازہ کیریاں ابھی ابھی درخت سے توڑ کر شیرے میں ڈال دی گئی ہوں۔[28]

مشاہیر رکاب دار

[ترمیم]

نبی بخش لکھنوی

[ترمیم]

محلہ پار کے رہنے والا تھے آم کی کچی قاشیں ایسی گودتے تھے کہ مُربا بننے پر قاش مسلَم رہتی تھی اور مطلق سکڑتی نہ تھی۔[29]

پیر علی لکھنوی

[ترمیم]

عہدِ نصیری میں نواب قدسیہ بیگم کے ملازم تھے، انھوں نے پھولے ہوئے سموسے سب سے پہلے ایجاد کیے جن میں سے توڑتے ہی لال نکل کے اڑ جاتے۔ پیر علی مٹھائی کا انار بناتے تھھ جس میں اوپر کا چھلکا اندر کے دانے ان کی ترتیب اور ان کے بیج کے پردے سب اصلی معلوم ہوتے دانوں کی گٹھلیاں بادام کی ہوتیں، ناشپاتی کے عرق کے دانے ہوتے دانوں کے بیج کے پردے اور اوپر کا چھلکا دونوں شکر کے ہوتے۔ پیر علی خاص طور کی دال پکاتے تھے جس کو سلطانی دال کہتے تھے غدر کے بعد پیر علی حضور نظام کے باورچی خانہ میں مامور ہوئے۔[30]

عہدِ واجدی کا آخری رکاب دار

[ترمیم]
نارنگی — آدھا کٹا ہوا، مکمل اور چھلی ہوئی دو قاشیں

ریاست اودھ کے گیارہویں اور آخری بادشاہ واجد علی شاہ نے اپنی معزولی اور لکھنؤ سے اخراج کے بعد کلکتہ میں مَٹیا بُرج (موجودہ گارڈن ریچ) میں قیام کیا، وہاں ایک باورچی نے باغ میں نارنگی کے درخت میں چند نارنگیوں میں اس کمال کے ساتھ شیرہ اتار دیا تھا کہ معلوم نہ ہوتا تھا۔ جب بادشاہ نے نارنگی توڑی اور رکاب دار نے چھیل کر قاش(5) پیش کی اور نارنگی توڑی اور بادشاہ نے نوش کی۔ تو لب بندھنے لگے۔(6) سونگھنے میں اس نارنگی سے بھینی بھینی تازگی کی خوشبو آتی تھی، نارنگیاں ذائقہ میں اصلی نارنگیوں کی طرح تھیں اور رنگ روپ میں اور اس کی بات میں مطلق فرق نہ تھا۔[31]

شیخ اکرام علی

[ترمیم]

یہ شیخ محمد واصل سہارنپوری (تخلص کافی) کے بیٹے تھے، اکرام علی اشرفی اور روپوں کا مربا تیار کرتے تھے۔ تیار ہونے پر نقش و حروف مٹتے نہ تھے، بلکہ جس عہد اور سن کا جو سِکّہ ہوتا تھا وہ پڑھ لیا جاتا تھا۔ کھانے میں کسی قسم کی گرانی معلوم نہ ہوتی تھی، وہ کشتہ کا کام دیتا تھا، کلکتہ کی نمائش جو سنہ 1881ء میں ہوئی تھی اور نمائشِ لکھنؤ میں تمغے اور سارٹیفیکیٹ ملے، جو اکرام علی کے پوتے شیخ اعظم علی رکاب دار کے پاس موجود تھے۔ شیخ اکرام علی ایک ایسی روٹی پکاتے تھا کہ جس میں کئی مزے ہوتے تھے یعنی ایک طرف سے روٹی کو کھانے پر میٹھی، دوسری طرف سے کھانے پر نمکین، تیسری طرف سے کھانے پر روکھی اور چوتھی طرف سے کھانے پر سلونی روٹی کا ذائقہ محسوس ہوتا تھا۔ یہ بالائی (ملائی) کی گلوری ایسی بناتے تھے کہ اصل اور نقل میں مطلق فرق نہ ہوتا تھا۔ اس کے اندر میوہ بھرتے تھے اور بالائی کے اوپر کی پرت کی گلوری بناتے تھے اور پستے کے کیل لگاتے تھے، سبز رنگ ایسا رہتا تھا کہ پان معلوم ہوتا تھا۔[32]

شیخ فدا علی لکھنوی

[ترمیم]

عہد واجدی کے رکاب دار تھے۔ سرائے معالی خاں میں ان کا مکان تھا۔ عہدِ انگریزی میں انھوں نے اپنا کمال دکھایا تھا۔ مشہور ہے کہ فِدا علی نے شیشہ کا ایک کنول بنا کر میز پر رکھا اور لاٹ (یعنی گورا افسر) کو دکھایا۔ لاٹ نے کہا کہ تم نے شیشہ کو نہایت صفائی سے ڈھال کر بنایا ہے اور کوئی بات اس میں قابلِ عریف نہیں۔ فدا علی نے مومی شمع کنول میں لگا کر دِیا سلائی سے جلائی، روشنی نہایت صاف تھی۔ پندرہ منٹ کے بعد بجھا دیا۔ اس کے بعد کنول کا کگارا چٹکی سے توڑا۔ اور لاٹ سے کہا کہ ”حضور اسے نوش فرمایے۔“ لاٹ نے کہا کہ ہم شیشہ نہیں کھاتے۔ خود فدا علی نے لاٹ کے سامنے چبا کر کھایا اور دیگر حضرات کو کھلایا اور لاٹ سے کہا کہ کنول حضور کی نذر ہے۔ یہ پورا کنول مصری کا بنایا تھا۔ لاٹ نے حیرت سے کہا کہ کمال کی حد کر دی اور انعام دیا۔[33]

نواب سید محمود حسین خان بہادر طباطبائی

[ترمیم]

عہدِ واجدی میں ناصری پلٹن کے کمیدان تھے۔ آم کی گِری ایسی چھیلتے تھے کہ اگر مرغی کے انڈوں میں ملا کر رکھ دی جاتی تھی، تو کوئی پہچان نہ سکتا تھا، انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے نواب سید سجاد حسین خان کو گِری کا چھیلنا سکھایا تھا اور ان میں بھی یہی کمال تھا۔ نواب محمود خان خوش خط تھے اور تربوز کی قندیل بناتے تھے۔ اس طرح سے کہ تربوز کو کھوکھلی کر کے اس کے چھلکے کے اوپر چاقو کے مہین پھیل کی نوک سے طغرے بناتے اور جانور مثل گھوڑا ہاتھی وغیرہ بناتے۔ دیوالی میں تیل بھر کر بیچ میں رکھتے۔ اور جلا دیتے، روشنی میں جانور اور لکھائی صاف نظر آتی تھی۔[34]

نواب مرزا مہدی

[ترمیم]

سالار جنگ کے خاندان سے تھے عہد واجدی کے تھے مصاحب گنج میں رہتے تھے۔ کنویں کی جگت پر اُکڑوں بیٹھے اور بیر کو چھیلنا شروع کیا اس قدر مہین چھلکا اتارتے تھے کہ کنویں کے اندر چھلکا لٹک جاتا تھا۔[35]

دہلوی رکاب دار

[ترمیم]

سید احمد دہلوی بیان کرتے ہیں کہ یہ ان کا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے، جس میں ایک شادی کی تقریب کے دوران صدیق نامی باورچی نے اپنے فنِ رکاب داری کا شاندار مظاہرہ کیا۔ دعوت کے دوران زردے کی مقدار ناکافی پڑ گئی۔ موسمِ سرما کی رات تھی، وقت تقریباً گیارہ بجے کا تھا، بازار بند ہو چکے تھے اور سامان کا بندوبست بظاہر ناممکن تھا۔ صاحبِ خانہ پریشان ہو گئے، لیکن صدیق نے اطمینان سے کہا: ”سرکار، گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چاول اور زعفران تو دستیاب ہیں۔ بس گھر سے تین پاؤ گھی منگوا دیجیے، میں فوراً دس سیر چاولوں کی دیگ تیار کر دیتا ہوں۔“ صاحبِ خانہ نے فوراً گھی کا انتظام کیا اور صدیق نے زعفران کا بگھار دے کر ایک نئی دیگ تیار کر دی۔ آدھے گھنٹے کے اندر جب یہ زردہ مہمانوں کو پیش کیا گیا، تو انھوں نے اس کے ذائقے کی بے حد تعریف کی اور گھی کی فراوانی کو سراہا۔ یوں، صدیق باورچی نے نہ صرف مہمانوں کو خوش کیا بلکہ میزبان کی عزت بھی بچائی۔ دہلوی مزید بیان کرتے ہیں کہ انہی صدیق باورچی کا ایک اور غیر معمولی کارنامہ بھی مشاہدے میں آیا، جہاں بریانی اور زردے کی دیگوں کے ہر چاول کے دانے پر پانچ یا چھ مختلف رنگ موجود تھے۔[36]

بھوپالی رکاب دار

[ترمیم]

شاملا پہاڑی پر واقع شان دار شاملا کوٹھی، جو جنرل عبید اللہ خان نے سنہ 1911ء میں تعمیر کروائی، نوابی دور کے خاتمے کے بعد خاندان کی مستقل رہائش گاہ بن گئی۔ سنہ 1945ء میں یہ کوٹھی اس وقت اپنی رونق کو پہنچ گئی جب سترہ برس کی نوخیز دلہن، بیگم ثریا رشید، یہاں قدم رنجہ ہوئیں۔ شاملا کوٹھی ایک وسیع و عریض علاقے پر محیط تھی اور اس کا باورچی خانہ اپنی مثال آپ تھا، جہاں پانچ ماہر رکاب دار اور پندرہ باورچی انواع و اقسام کی لذیذ پکوان تیار کیا کرتے تھے۔ ہر رکاب دار اپنے فن میں یکتا تھا۔ رکاب دار سراج بیکنگ کے ہنر میں کمال رکھتے تھے اور دیگچی کو مہر بند کر کے انگاروں پر رکھ کر ایسے لذیذ کیک تیار کرتے تھے جن کا ذائقہ لاجواب ہوتا۔ یہ کیک محض چھوٹے موٹے نہیں بلکہ تین تین منزلہ بلند کیک اسی انوکھے طریقے سے تخلیق کیے جاتے تھے، جو اپنی دیدہ زیب بناوٹ اور بے مثال ذائقے سے سب کو حیران کر دیتے۔[37]

نواب شاہ جہاں بیگم نے لکھنؤ کے ماہر رکاب داروں کو بلوایا اور یوں نوابی دسترخوان اودھ کی نفیس اور لذیذ پکوانوں سے جگمگا اٹھا۔ اودھی کھانوں کی لطافت اور افغانی کھانوں کی دلکشی کے امتزاج سے کئی نئے اور منفرد پکوان تخلیق پائے، جنھوں نے نہ صرف ذائقے کے معیار کو بلند کیا بلکہ نوابی دسترخوان کی شان میں بے پناہ اضافہ کیا۔[37]

رامپوری رکاب دار

[ترمیم]

ماہنامہ عصمت کے ایڈیٹر رازق الخیری نے شاہی کھانوں کی مستند ترکیبوں کو محفوظ کرنے کے لیے ایک دہائی تک ایسے ماہر کی تلاش جاری رکھی، جو ان تراکیب کو عام فہم انداز میں پیش کرسکے۔ بالآخر، ان کی نظر رکاب دار لطافت علی خاں رامپوری پر پڑی، جن کے آبا و اجداد ریاست رامپور کے شاہی مطبخ سے وابستہ تھے اور خود خاں صاحب چودہ ریاستوں میں مہتمم خاصہ کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے۔ لطافت علی خاں نے دو سال کی محنت سے ایک ایسی کتاب ترتیب دی، جو شاہی کھانوں کی تیاری کے لیے نہایت اہم تھی۔ اس کتاب میں کھانوں کو کم سے کم اخراجات میں اس انداز سے تیار کرنے کی ترکیبیں دی گئیں کہ ان کی لذت اور معیار میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ انھوں نے اس کتاب کو رام پور کا دسترخوان کا نام دیا۔[38]

شوکت علی اور محمد علی جوہر کے والد رامپور شہر میں اپنی خوش مزاجی، مہمان نوازی اور فیاضی کے لیے معروف تھے۔ وہ کھانے پکانے کے فن میں بھی مہارت رکھتے تھے، جو انھوں نے اس وقت کے مشہور رکاب داروں سے حاصل کی تھی۔ ان کے گھر میں ہمیشہ ایک رکاب دار ملازم رہتا تھا، جو انھیں کھانے پکانے کی مختلف ترکیبیں سکھاتا تھا۔ ان کی والدہ، بی اماں، نے بھی ان سے نہ صرف روزمرہ کے کھانے بلکہ شاہی اور خصوصی پکوان بنانے کا ہنر سیکھا۔ بی اماں اپنی زندگی کے بیوگی کے ایام میں اپنے بچوں کو یہ لذیذ کھانے پکا کر کھلاتی تھیں۔[39]

حیدرآبادی رکاب دار

[ترمیم]

دکن میں بھی اور خطوں کی طرح یہ فن پروان چڑھا۔ دکنی بادشاہوں نے رکاب داروں کو بساط بھر نوازا دکنی شعرا نے تہذیب و ثقافت کے مختلف گوشوں کے ساتھ اس فن پر بھی خامہ فرسائی کی بالخصوص عادل شاہی اور قطب شاہی شعرا نے اپنی شاعری میں اس دور کے سماجی اور تہذیبی اور ثقافتی حالات رسم و رواج مراسم شادی و بیاه، عید میلاد، شب برات، بسنت، نوروز، سالگرہ وغیرہ کے موقعوں پر نیچرل شاعری کے علاوہ الوانِ نعمت کی تفصیل کا ذخیرہ چھوڑا ہے۔[12]

آصف جاہ ثانی کا شاہی باورچی خانہ تین داروغوں کے زیرِ نگرانی نواب انوار جنگ کے تحت خِلوت کے قریب واقع تھا۔ روزانہ ایک سو بیس خوانِ خاصہ تیار کیے جاتے جو محلِ شاہی میں بھیجے جاتے۔ خوانِ خاصہ کو مراتب کے اعتبار سے سالم خاصہ، نصف خاصہ اور پاؤ خاصہ کے درجات میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ ہر باورچی خانے میں متعدد باورچی، رکاب دار اور دیگر عملہ متعین تھا، جو اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف رہتا۔ رکاب داروں کی تنخواہیں نہایت معقول تھیں اور وہ ہمہ وقت فرائض کی ادائیگی میں مشغول رہتے۔ شاہی خوان اعلیٰ ذائقے اور نفاست سے بھرپور ہوتے تھے۔[40]

حیدرآباد کے وزیر اعظم نواب سالار جنگ کے شاہی باورچی کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک ہی چیز کو مختلف شکلوں اور انداز میں اس طرح پیش کرتا کہ دسترخوان پر بیسیوں اقسام کے الوانِ نعمت سج جاتے مگر ذائقے میں وہ سب یکساں معلوم ہوتے۔[41]

محبوب علی خان کے زمانے میں حیدرآباد دکن میں دلی اور لکھنؤ کے بہت سے باورچی، بکاول اور رکاب دار آگئے تھے۔ ان کی یہاں خاطر خواہ قدر دانی ہوئی اور اس زمانے کے امیروں کو بھی کھانے کا شوق تھا۔[42]

دیگر استعمالات

[ترمیم]

اردو زبان میں رکاب دار زیادہ تر اعلیٰ پائے کے کھانے پکانے والے کو کہتے ہیں،[1] لیکن رکاب دار معنوی لحاظ سے ایک سے زائد مفاہیم کا حامل ہے:

فرہنگ آصفیہ کی رو سے "رکاب پکڑ کر گھوڑے پر چڑھانے والا نوکر۔ بادشاہوں کی سواری کے ساتھ کھانا لے کر چلنے والا ملازم۔ خاصہ بردار۔"[14]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حواشی

[ترمیم]
1: دیدہ زیب پیتل کا ایک برتن جس میں مہمانوں کے ہاتھ کھانے سے پہلے دھلوائے جاتے تھے، اسے سلپچی، سِلابچی، چلمچی یا سلفچی کہتے ہیں۔[43][44]
2: رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں۔[45]
3: کھانے کی بڑی رکابی۔ تھال، طباق۔[46]
4: حقہ میں سٹک اس حصے کو کہتے جس میں چھوٹے نَیْچَے (نلی) کی بجائے بڑی سی نلی نما مصنوعی نیچہ بنا ہوتا ہے۔[47]
5: پھل کا تراشا ہوا ٹکڑا، نارنگی سنترے وغیرہ میں جو ٹکڑے جڑے ہوتے ہیں۔ اسے پھانک بھی کہتے ہیں۔[48]
6: مٹھاس کی زیادتی سے ہونٹوں کا چپک جانا۔[49]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب نور الحسن نیر کاکوروی (1959)۔ نور اللغات۔ کراچی: جنرل پبلشنگ ہاؤس۔ ج 3۔ ص 74
  2. وارث سرہندى (1976)۔ علمى اردو لغت۔ لاہور: علمى كتاب خانہ۔ ص 817
  3. امیر حسن نورانی (1986)۔ فرہنگ فسانۂ آزاد۔ نئی دہلی: ترقی اردو بیورو۔ ص 25
  4. محمد اظہار الحق (10 جون 2021)۔ "History Made Easy"۔ روزنامہ دنیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-08
  5. محمد عبد الرزاق کانپوری (1946)۔ یادِ ایام۔ حیدرآباد دکن: عبد الحق اکیڈمی۔ ص 53–54
  6. عبد الرزاق قریشی (اکتوبر 1973)۔ "اردو زبان کی تمدنی اہمیت"۔ نوائے ادب۔ ادبی پبلشرس (شعبہ اشاعت انجمن اسلام)۔ ج 23 شمارہ 4: 46 {{حوالہ رسالہ}}: الوسيط غير المعروف |مقام اشاعت= تم تجاهله (معاونت)
  7. مہیشور دیال (1987)۔ عالم میں انتخاب دِلّی۔ دہلی: اردو اکادمی۔ ص 56–57
  8. نور السعید اختر (2000)۔ تیشۂ فرہاد۔ ممبئی: فاران پبلشرز۔ ص 11
  9. سید محمد السعید فضل اللہ؛ سید حمزہ حسین عمری (1965)۔ مقدمہ: نسخۂ شاہجہانی۔ مدراس: گورنمنٹ اورینٹل مینو اسکرپٹس لائبریری مدراس۔ ص 4–5
  10. زہرہ فاروقی (2003)۔ اودھ کے فارسی گو شعراء۔ دہلی: فائن آفسیٹ ورکس 4152۔ ص 97
  11. مرزا جعفر حسین (1980)۔ لکھنؤ کا دسترخوان۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکاڈمی۔ ص 13–14
  12. ^ ا ب نور السعید اختر (2000)۔ تیشۂ فرہاد۔ ممبئی: فاران پبلشرز۔ ص 12
  13. صباح الدین عبد الرحمٰن (1985)۔ انتخاب مضامین سید سلیمان ندوی۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکادمی۔ ص 85
  14. ^ ا ب سید احمد دہلوی (1908)۔ فرہنگِ آصفیہ۔ لاہور: مطبع رفاہ عام پریس۔ ج 2۔ ص 363
  15. ابو الفضل ابن مبارک۔ آئینِ اکبری (حصہ اول)۔ مترجم: مولوی محمد فدا علی صاحب طالب (1938)۔ حیدرآباد دکن: دار الطبع جامعہ عثمانیہ سرکار عالی۔ ج 1۔ ص 99–101
  16. صباح الدین عبد الرحمن (1963)۔ ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے۔ اعظم گڑھ: معارف پریس۔ ص 386
  17. پریم پال اشک (1964)۔ سرشار ایک مطالعہ۔ دہلی: آزاد کتاب گھر کلاں محل۔ ص 34
  18. مرزا جعفر حسین (1980)۔ لکھنؤ کا دسترخوان۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکاڈمی۔ ص 15
  19. رشید حسن خاں (2013)۔ کلاسیکی ادب کی فرہنگ۔ نئی دہلی: انجمنِ ترقّیِ اردو (ہند)۔ ج 1۔ ص 353
  20. سلیم اختر (2005)۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ آغاز سے 2000ء تک۔ دہلی: کتابی دنیا۔ ص 186
  21. سلیم اختر (2005)۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ آغاز سے 2000ء تک۔ دہلی: کتابی دنیا۔ ص 187
  22. مرزا جعفر حسین (1980)۔ لکھنؤ کا دسترخوان۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکاڈمی۔ ص 14
  23. طاہر تونسوی (1988)۔ لکھنؤیاتِ ادیب سید مسعود حسن رضوی ادیب۔ لاہور: مغربی پاکستان اردو اکیڈمی۔ ص 4–5
  24. ^ ا ب سلمیٰ حسین (18 جولائی 2016)۔ "گذشتہ لکھنؤ: نوابوں کی سرزمین کے ذائقے"۔ بی بی سی نیوز اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-08
  25. ^ ا ب عبد الحلیم شرر (1974)۔ گزشتہ لکھنؤ یا مشرقی تمدن کا آخری نمونہ۔ لکھنؤ: نسیم بکڈپو۔ ص 243
  26. مرزا جعفر حسین (1978)۔ بیسویں صدی کے بعض لکھنوی ادیب اپنے تہذیبی پس منظر میں۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکاڈمی۔ ص 16–17
  27. عبد الحلیم شرر (1974)۔ گزشتہ لکھنؤ یا مشرقی تمدن کا آخری نمونہ۔ لکھنؤ: نسیم بکڈپو۔ ص 244
  28. عبد الحلیم شرر (1974)۔ گزشتہ لکھنؤ یا مشرقی تمدن کا آخری نمونہ۔ لکھنؤ: نسیم بکڈپو۔ ص 245
  29. حامد علی خان (1918)۔ حیات مولانا کرامت حسین۔ نخاس، لکھنؤ: مطبع الناظر و مطبع نور المطابع۔ ص 220–221
  30. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 151–152{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  31. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 152{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  32. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 152–154{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  33. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 154–155{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  34. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 155–156{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  35. سید اسرار حسین خان (1936)۔ قدیم ہنر و ہنرمندانِ اودھ۔ لکھنؤ۔ ص 156{{حوالہ کتاب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: مقام بدون ناشر (link)
  36. مولوی سید احمد دہلوی (1965)۔ رسومِ دہلی۔ رام پور: کتاب کار پبلیکیشنز۔ ص 30
  37. ^ ا ب سلمیٰ حسین (1 جنوری 2018)۔ "بھوپال کی تہذیب میں چٹوری گلی"۔ بی بی سی نیوز اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-08
  38. رزاق الخیری (جولائی و اگست 1958)۔ "رکابدار لطافت علی خاں رامپوری کا شاہی دسترخوان"۔ ماہنامہ عصمت۔ ج 101 شمارہ 1 و 2: 413 {{حوالہ رسالہ}}: تحقق من التاريخ في: |تاریخ= (معاونت) والوسيط غير المعروف |مقام اشاعت= تم تجاهله (معاونت)
  39. سید معین الرحمٰن (1993)۔ "غالب کے تین نئے خط (حاشیہ 6)"۔ سالنامہ نقوش شمارہ 141: 80 {{حوالہ رسالہ}}: الوسيط غير المعروف |مقام اشاعت= تم تجاهله (معاونت)
  40. عبد الستار دلوی (1987)۔ دَکنی اردو۔ بمبئی: شعبہ اردو، بمبئی یونیورسٹی۔ ص 80
  41. نور السعید اختر (اپریل 1992)۔ "دکنی ادب ثقافتی عنصر کی چھان بین"۔ نوائے ادب۔ ج 42 شمارہ 1: 29 {{حوالہ رسالہ}}: الوسيط غير المعروف |مقام اشاعت= تم تجاهله (معاونت)
  42. بیگم مہر النساء معظم حسین (2009)۔ ندرتِ زبان مضامین پروفیسر آغا حیدر حسن مرزا۔ حیدرآباد دکن: آغا حیدر حسن میوزیم و کلچرل سنٹر حیدرآباد۔ ص 82–83
  43. نور السعید اختر (2000)۔ تیشۂ فرہاد۔ ممبئی: فاران پبلشرز۔ ص 39
  44. "باورچی خانے میں استعمال چیزوں کے پرانے نام"۔ روزنامہ جنگ۔ 5 اگست 2022۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-14
  45. عشرت جہاں ہاشمی (2006)۔ اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ۔ دہلی: ہاشمی پبلی کیشنز۔ ص 111
  46. مرزا مقبول بدخشانی (1969)۔ اردو لغت۔ لاہور: اردو سائنس بورڈ۔ ص 286
  47. مرزا جعفر حسین (1978)۔ بیسویں صدی کے بعض لکھنوی ادیب اپنے تہذیبی پس منظر میں۔ لکھنؤ: اتر پردیش اردو اکاڈمی۔ ص 17
  48. مختصر اردو لغت۔ نئی دہلی: ترقی اردو بیورو۔ 1987۔ ص 226
  49. مہذب لکھنوی (1978)۔ مہذب اللغات۔ وکٹوریہ اسٹریٹ، لکھنؤ: نظامی پریس۔ ج 11۔ ص 110

بیرونی روابط

[ترمیم]