ریاست علی ظفر بجنوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ریاست علی ظفر بجنوری
نائب ناظم مجلسِ تعلیمی، دار العلوم دیوبند
مدت منصب
1982ء تا 1985ء
خورشید عالم دیوبندی
سید ارشد مدنی
ناظم مجلسِ تعلیمی، دار العلوم دیوبند
مدت منصب
1985ء تا 1990ء
وحید الزماں کیرانوی
قمر الدین احمد گورکھپوری
مدیر ماہنامہ دار العلوم دیوبند
مدت منصب
1982ء تا 1985ء
ظفیر الدین مفتاحی
حبیب الرحمن قاسمی اعظمی
جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر
مدت منصب
7 مارچ 2011ء تا 20 مئی 2017ء
معلومات شخصیت
پیدائش 9 مارچ 1940ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع علی گڑھ ،  متحدہ صوبہ ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 20 مئی 2017ء (77 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیوبند ،  سہارنپور ،  اتر پردیش ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن قاسمی قبرستان   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
اولاد محمد سفیان قاسمی (بیٹے)
محمد عدنان قاسمی (بیٹے)
محمد سعدان قاسمی (بیٹے)
محمد حمدان قاسمی (پوتے)
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ سید فخر الدین احمد ،  محمد ابراہیم بلیاوی ،  محمد طیب قاسمی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم ،  شاعر ،  استاد جامعہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ریاست علی ظفر بجنوری (1940–2017ء) ایک ہندوستانی دیوبندی عالم، شاعر اور مصنف تھے۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند میں تقریباً 47 سال تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ مشہور ترانۂ دار العلوم ”یہ علم و ہنر کا گہوارہ“ انھیں کے ادبی شہ پاروں میں سے ایک ہے۔

ابتدائی و تعلیمی زندگی[ترمیم]

ولادت و نسب[ترمیم]

ان کی ولادت 28 محرم الحرام 1359ھ بہ مطابق 6 مارچ 1940ء بہ روز سنیچر سرائے حکیم، علی گڑھ میں ہوئی۔ آبائی وطن قصبہ حبیب والا، ضلع بجنور تھا۔[1] چار سال کی عمر میں ہی سایۂ پدری سر سے اٹھ گیا تھا۔[2]

ان کا سلسلۂ نسب 35ویں پشت پر مہمانِ رسول ابو ایوب انصاری سے جا ملتا ہے، شجرۂ نسب یوں ہے:[3][4] ریاست علی بن فراست علی بن مشرف علی بن صادق علی بن اصغر علی بن کمال علی بن مولوی احسان علی بن مولوی محمد امین بن محمد وارث بن عبد الحق بن شیخ سعد اللّٰہ بن شیخ عبد الحمید بن شیخ حبیب اللّٰہ بن شیخ خان بن برخوردار بن عبد الکریم بن عبد الخالق بن عبد الرؤف بن شیخ اسعد بن ابو طاہر بن عبد المالک بن شیخ صادق بن غازی سعد اللّٰہ بن خواجہ جلال الدین بن خواجہ سلیم بن خواجہ اسماعیل بن شیخ الاسلام خواجہ عبد اللّٰہ بن خواجہ ابی منصور بن ابی معاذ بن محمد بن احمد بن علی بن جعفر بن منصور بن ابو ایوب انصاری۔

تعلیم و فراغت[ترمیم]

انھوں نے 1373ھ بہ مطابق 1951ء میں اپنے وطن حبیب والا میں ہائی اسکول درجہ چہارم کا امتحان پاس کیا۔[2] اس کے بعد وہ اپنے پھوپھا سلطان الحق بجنوری (1907–1987ء)، ناظمِ کتب خانہ دار العلوم دیوبند کے ہمراہ دیوبند آگئے اور وہیں انھیں کی سرپرستی میں مختلف اساتذۂ دار العلوم سے داخلہ کے بغیر شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کی۔[4]

18 شوال 1373ھ بہ مطابق 15 مئی 1954ء کو چودہ سال کی عمر میں انھوں نے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور شرح جامی بحث فعل سے دورۂ حدیث تک کی کتابیں وہیں پڑھیں اور 1378ھ بہ مطابق 1958ء کو اول پوزیشن سے امتیازی نمبرات کے ساتھ دورۂ حدیث سے فارغ ہوئے۔[5]

ان کے اساتذۂ دورۂ حدیث دار العلوم دیوبند میں سید فخر الدین احمد مراد آبادی، محمد ابراہیم بلیاوی، سید فخر الحسن مرادآبادی، بشیر احمد خان بلند شہری، محمد طیب قاسمی، ظہور احمد دیوبندی، سید حسن دیوبندی اور محمد جلیل احمد کیرانوی شامل تھے۔[6] انھوں صحیح بخاری سید فخر الدین احمد مرادآبادی سے پڑھی۔[6]

زمانۂ طالب علمی ہی میں انھوں نے جامعہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اول پوزیشن کے ساتھ ادیبِ کامل کا امتحان پاس کیا تھا، جس پر انھیں ’’سرسید گولڈ میڈل‘‘ سے نوازا گیا تھا۔[6][7]

تدریس و خدمات[ترمیم]

فراغت کے بعد 1956ء میں وہ مدرسہ اصغریہ دیوبند میں مدرس ہوئے اور دو سال تک وہیں تدریسی خدمات انجام دیں۔[8] فراغت کے بعد وہ اپنے استاذ سید فخر الدین احمد مراد آبادی کی درسِ بخاری میں شریک ہوکر ان کے دروس کو قلم بند کیا کرتے تھے اور انھیں مرتب کرکے اپنی زندگی ہی میں ’’ایضاح البخاری‘‘ کے نام سے کئی جلدوں میں شائع کیا، جس کا تکملہ ان کے عزیز شاگرد فہیم الدین بجنوری، استاذ دار العلوم دیوبند لکھ رہے ہیں۔[9][10]

1967ء میں تلاشِ معاش کے لیے وہ دہلی گئے تھے، تبھی وہاں انھوں نے جمعیت علمائے ہند کے ذیلی اداروں: الجمعیۃ پریس، دہلی اور الجمعیۃ بک ڈپو، دہلی میں بالترتیب یکے بعد دیگرے تقریباً ساڑھے تین سال تک مینیجر و ناظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[11] پھر دیوبند آکر انھوں نے ’’کاشانۂ رحمت‘‘ اور ’’مکتبہ مجلسِ قاسم المعارف‘‘ کے نام سے دو اشاعتی ادارے قائم کیے، جہاں سے انھوں نے پہلی بار اکبر شاہ خان نجیب آبادی کی ’’تاریخ اسلام‘‘ اور قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ شائع کیں۔[11]

دار العلوم دیوبند میں تقرر[ترمیم]

1391ھ بہ مطابق 1971ء میں وہ دار العلوم دیوبند کے استاذ مقرر ہوئے اور اس وقت سے وفات تک انھوں نے سینتالیس سال دار العلوم میں خدمات انجام دیں، اس سینتالیس سالہ عرصے کے اندر؛ انھوں نے مشکوۃ المصابیح، نخبۃ الفکر، سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی اور البلاغۃ الواضحہ کے علاوہ؛ مختلف مرحلوں میں عربی اول سے دورۂ حدیث اور شعبہ ہائے تکمیل تک کی اکثر کتابیں پڑھائیں۔[12]

مناصب[ترمیم]

1402ھ م 1982ء سے 1405م 1985ء تک وہ ’’ماہنامہ دار العلوم دیوبند‘‘ کے مدیرِ مسئول رہے۔[13] 1402ھ م 1982ء سے 1405م 1985ء تک معراج الحق دیوبندی کی صدارتِ تدریس میں وہ دار العلوم دیوبند کے نائب ناظم مجلس تعلیمی رہے۔[14]

1405ھ م 1985ء سے 1410ھ م 1990ء تک معراج الحق دیوبندی کی صدارتِ تدریس میں وہ دار العلوم دیوبند کے ناظم تعلیمات (ناظم مجلس تعلیمی) رہے۔[14] 1406ھ سے 1415ھ تک وہ ’’شیخ الہند اکیڈمی، دار العلوم دیوبند‘‘ کے ڈائریکٹر و نگراں رہے۔[15]

10 مئی 2008ء کو انھیں جمعیت علمائے ہند (میم) کی مجلس عاملہ کا رکن نامزد کیا گیا، پھر اہتمام کے ساتھ وہ مجالس عاملہ میں شریک ہوتے رہے۔[16] نیز 6 – 7 مارچ 2011ء کو مسجد عبد النبی، نئی دہلی میں منعقد ہونے والی جمعیت علمائے ہند (میم) کی مرکزی مجلس منتظمہ کی میٹنگ میں نیابت صدارت کے لیے ان کا نام پیش کیا گیا، جس کو بالا تفاق منظور کر لیا گیا، پھر وہ تاحیات چھ سال جمعیت علمائے ہند (میم) کے نائب صدر رہے۔[17]

قلمی خدمات[ترمیم]

شاعری[ترمیم]

وہ اپنے زمانے کے اُن فضلائے دار العلوم دیوبند میں شامل تھے، جنھوں نے تخلیق اور شاعری کو نئی جہت اور نئے رنگ سے آراستہ کیا۔[18] نمونے کے طور پر ان کا یہ کلام ”نذرِ میر ملاحظہ ہو:[19]

رُت بدلے گی، پھول کھلیں گے، جام مجھے چھلکانے دو

جام مجھے چھلکانے دو، کونین کو وجد آجانے دو

تم آؤ تو سب شرمائیں، جاؤ بھی شرما نے دو

یہ بھی اگر منظور نہیں ہے، بات ہی کیا ہے جانے دو

ذرہ ذرہ سینہ کھولے، تیری طرف کیوں لپکے ہے

ہم بیچاروں کی بھی سن لو، ہم کو وہاں تک آنے دو

تم بِن اپنی رین اندھیری، دور تلک سناٹا ہے

اک مرا یہ دل ہے پیاسا اور مرے پیمانے دو

بجلی چمکے، بادل گرجے، بُوٹہ بُوٹہ جُھومے ہے

تجھ بِن دیکھوں ان کی جانب جاؤ بھی بہکانے دو

  • لقمان الحق فاروقی، شیخ الحدیث مدرسہ امداد الاسلام میرٹھ اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:[20]
ظفر کے کلام کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مضامین کے تنوع کے ساتھ، پیرایۂ بیان میں بھی تنوع پر پوری طرح قادر ہیں، وہ ہر رنگ میں کہتے ہیں اور کسی رنگ میں بھی فصاحت و بلاغت، شکوہِ بیان اور شاعرانہ بلند آہنگی میں کمی کو راہ نہیں ملتی، انھوں نے میر کے رنگ میں بھی کہا ہے، غالب کی زمین میں بھی لکھا ہے، کہیں کہیں اقبال مرحوم کا اسلوب بیان بھی ہے، حسرت مرحوم کے رنگِ تغزل سے بھی ”نغمۂ سحر“ خالی نہیں ہے۔

ظفر بجنوری کی شاعری پر مقالۂ ایم فِل[ترمیم]

اشتیاق احمد دربھنگوی نے ”چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ کے عنوان سے اپنا مقالۂ ایم فل پیش کیا تھا، مقالہ جن شخصیات کی شاعری پر مشتمل تھا، ان میں ریاست علی ظفر بجنوری بھی شامل تھے۔[21][22]

ترانۂ دار العلوم دیوبند[ترمیم]

دار العلوم دیوبند کے لیے لکھا ہوا تاریخی ترانہ ان کا ایک ادبی شاہکار ہے، جس کے بعض اشعار یہاں نقل کیے جاتے ہیں:[20][23]

مطلع

یہ عِلم و ہنر کا گِہوارہ، تاریخ کا وہ شِہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے، ہر سَرو یہاں مینارہ ہے

بعض منتخب اشعار

کُہسار یہاں دب جاتے ہیں، طوفان یہاں رک جاتے ہیں

اس کاخِ فقیری کے آگے، شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

ہر بوند ہے جس کی امرِت جَل، یہ بادل ایسا بادل ہے

سو ساگر جس سے بھر جائیں، یہ چھاگَل ایسا چھاگل ہے

یہ صِحنِ چمن ہے بَرکھا رُت، ہر موسم ہے برسات یہاں

گُلبانگِ سِحر بن جاتی ہے، ساون کی اندھیری رات یہاں

اسلام کے اِس مرکز سے ہوئی تقدیس عیاں آزادی کی

اس بامِ حرَم سے گونجی ہے، سو بار اذاں آزادی کی

اِس وادیِ گُل کا ہر غُنچہ، خورشیدِ جہاں کِہلایا ہے

جو رِند یہاں سے اٹّھا ہے، وہ پیرِ مُغاں کہلایا ہے

مقطع

یوں سینۂ گیتی پر روشن، اسلاف کا یہ کردار رہے

آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم، سینے میں دلِ بیدار رہے

تصانیف[ترمیم]

ان کی تصانیف کے نام ذیل میں درج ہیں:[24][25][26]

  • ایضاح البخاری (جس کی تفصیل ایضاح البخاری کی ترتیب کے تحت درج ہے۔)
  • شوریٰ کی شرعی حیثیت
  • نغمۂ سحر (یہ ان کا شعری مجموعہ ہے؛ جو پہلی بار 1396ھ/1976ء میں اور دوسری بار 1422ھ/2001ء میں شائع ہوا[27]
  • مقدمۂ تفہیم القرآن کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ
  • تسہیل الاصول (نعمت اللہ اعظمی کی شرکتِ قلم کے ساتھ اصول فقہ پر ایک ایسی کتاب؛ جو دار العلوم دیوبند سمیت؛ موجودہ درس نظامی والے بے شمار مدارس میں داخلِ نصاب ہے۔)
  • خلاصۃ التفاسیر - انھوں نے اپنی نگرانی میں فتح محمد تائب لکھنوی (متوفی: 1342ھ/1923ء) کی خلاصۃ التفاسیر کی تدوین و تحقیق اپنے شاگرد عبد الرزاق قاسمی امروہی، استاذ دار العلوم دیوبند سے کروائی۔[28]
  • کشاف اصطلاحات الفنون - انھوں نے اپنی نگرانی میں محمد عارف جمیل مبارک پوری، مدیرِ مجلہ الداعی سے پھر محمد اشرف عباس قاسمی سے اس کتاب کی تصحیح و مراجعت کروائی۔[29]
  • کلیاتِ کاشف - انھوں نے عثمان کاشف الہاشمی راجو پوری (ولادت: 1933–2015ء) کا مجموعۂ کلام؛ اپنے تدوین و اشراف کے ساتھ اپنے شاگرد اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی، استاذ دار العلوم دیوبند سے مرتَّب کروائی۔[21]

وفات اور پس ماندگان[ترمیم]

ظفر بجنوری کا انتقال 23 شعبان 1438ھ بہ مطابق 20 مئی 2017ء بہ روز سنیچر صبح صادق سے قبل ہوا، نمازِ جنازہ احاطۂ مولسری، دار العلوم دیوبند میں جمعیت علمائے ہند میم کے سابق صدر محمد عثمان منصور پوری نے پڑھائی اور قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔[30][31][32][33]

پس ماندگان میں تین بیٹے ہیں: محمد سفیان قاسمی، محمد عدنان قاسمی اور محمد سعدان قاسمی (مرحوم)۔[34][35]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بجنوری 2017, p. 33.
  2. ^ ا ب بجنوری 2017, p. 34.
  3. بجنوری 2017, pp. 33–34.
  4. ^ ا ب جامعی 2017, p. 37.
  5. بجنوری 2017, pp. 34–35.
  6. ^ ا ب پ بجنوری 2017, p. 35.
  7. ریاست علی ظفر بجنوری (1396ھ بہ مطابق 1976ء)۔ "مقدمہ از لقمان الحق فاروقی"۔ نغمۂ سحر (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ رحمت۔ صفحہ: 5-28 
  8. محمد عظمت دہرہ دونی۔ "مدرسہ اصغریہ دیوبند میں"۔ آہ میرے مخدوم محدث کبیر حضرت ریاست علی ظفر بجنوری (23 رمضان 1441ھ ایڈیشن)۔ آن لائن پی ڈی ایف نسخہ۔ صفحہ: 11 
  9. بجنوری 2017, pp. 35، 38.
  10. عبد الرؤف غزنوی (ذو الحجہ 1438 ھ - ستمبر 2017 ء)۔ "حضرت الاستاذ ریاست علی بجنوری رحمۃ اللہ علیہ کا سانحۂ ارتحال"۔ www.banuri.edu.pk۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2022 
  11. ^ ا ب بجنوری 2017, p. 38.
  12. بجنوری 2017, pp. 38، 39.
  13. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "مدیرانِ اردو رسائل"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 785 
  14. ^ ا ب محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "نظمائے مجلسِ تعلیمی"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 751-752 
  15. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (اکتوبر 2020ء)۔ "شیخ الہند اکیڈمی"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہندؒ اکیڈمی۔ صفحہ: 790 
  16. منصورپوری 2020, p. 562.
  17. منصورپوری 2020, pp. 562، 563.
  18. حقانی القاسمی۔ "تخلیقی تناظرات: شعری منظر نامہ"۔ دار العلوم دیوبند ادبی شناخت نامہ۔ 1 (مئی 2006ء ایڈیشن)۔ جامعہ نگر، نئی دہلی: آل انڈیا تنظیم علمائے حق۔ صفحہ: 51–52 
  19. ریاست علی ظفر بجنوری (1396ھ بہ مطابق 1976ء)۔ "نذرِ میر"۔ نغمۂ سحر (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ رحمت۔ صفحہ: 80 
  20. ^ ا ب ریاست علی ظفر بجنوری (1396ھ بہ مطابق 1976ء)۔ "مقدمہ از لقمان الحق فاروقی"۔ نغمۂ سحر (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبہ رحمت۔ صفحہ: 16 
  21. ^ ا ب بجنوری 2017, p. 76، 77.
  22. محمد روح الامین میُوربھنجی (5 دسمبر 2021)۔ "حضرت مفتی اشتیاق احمد دربھنگوی دامت برکاتہم"۔ بصیرت آن لائن۔ بصیرت آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  23. اشتیاق احمد قاسمی (23 اپریل 2021)۔ "ترانۂ دار العلوم دیوبند کا فنی، فکری اور ادبی مطالعہ"۔ Siddeequeqasmi.com۔ صدیق قاسمی۔ اخذ شدہ بتاریخ 17جنوری 2022 
  24. محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی (24 دسمبر 2018ء)۔ "حضرت ریاست علی بجنوری اور ان کی کتاب 'شوری کی شرعی حیثیت' کا ایک جائزہ"۔ deoband.wordpress.com۔ محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  25. مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی (20 مئی 2017ء)۔ "آہ ! استاذ محترم حضرت ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ"۔ mazameen.com۔ 18 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  26. "ریختہ پر ریاست علی ظفر بجنوری کی کتابیں"۔ ریختہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  27. بجنوری 2017, p. 26.
  28. بجنوری 2017, pp. 36، 138.
  29. بجنوری 2017, p. 93.
  30. ڈاکٹر عبید اقبال عاصم۔ "ریاست علی صاحب بجنوری"۔ دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں (2019 ایڈیشن)۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 298 
  31. "ریاست علی بجنوری اور محمد ازہر کی وفات دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند سمیت ملت اسلامیہ کابڑا خسارہ : محمود مدنی"۔ urdu.news18.com۔ 25 مئی 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  32. "ریاست علی ظفر بجنوری کی وفات پر جمعےۃ علماء کرناٹک کا اظہار تعزیت"۔ www.dailysalar.com۔ روزنامہ سالار۔ 21 مئی 2017ء۔ 18 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  33. "ریاست علی بجنوری ؒ کی وفات امت مسلمہ کے لیے عظیم خسارہ:آل انڈیا امامس کونسل"۔ www.sahilonline.net۔ 22 مئی 2017ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 جنوری 2022 
  34. جامعی 2017, p. 38.
  35. انوارالحق قاسمی نیپالی (4 فروری 2021)۔ "ریاست علی ظفر بجنوری مختصر حیات وخدمات"۔ urduduniya.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 23دسمبر 2023 

کتابیات[ترمیم]

  • محمد سلمان بجنوری، مدیر (اگست - ستمبر 2017)۔ "تذکرہ حضرت ریاست علی ظفر بجنوری نور اللّٰہ مرقدہ"۔ ماہنامہ دار العلوم دیوبند۔ دفتر ماہنامہ دار العلوم دیوبند۔ 8–9 (101) 
  • محمد سالم جامعی، مدیر (اکتوبر 2017)۔ "ریاست علی ظفر بجنوری نمبر"۔ ہفت روزہ الجمعیۃ۔ مدنی ہال، 1-بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی 2: ہفت روزہ الجمعیۃ 
  • محمد عثمان ندوی، مدیر (مئی – دسمبر 2017)۔ "مشاہیر نمبر"۔ سہ ماہی متاع کارواں۔ دفتر سہ ماہی متاع کارواں، ادارہ اسلامیات، تحصیل بھگوانپور، ضلع ہردوار، اتراکھنڈ۔ 3 (9 – 10) 
  • نایاب حسن قاسمی۔ "ماہ نامہ دار العلوم (نقش ثانی) کے مشتملات: ماہ نامہ دار العلوم کے پانچویں مدیر"۔ دار العلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ (2013 ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ تحقیق اسلامی۔ صفحہ: 119–120 
  • محمد اللّٰہ قاسمی (اکتوبر 2020)۔ "مختلف عنوانات کے تحت"۔ دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ۔ دیوبند: شیخ الہند اکیڈمی۔ صفحہ: 683, 751-752, 785 
  • محمد سلمان منصورپوری (اپریل 2020)۔ "گوشۂ ریاست علی: حضرت ریاست علی ظفر صاحب بجنوری"۔ ذکر رفتگاں۔ 3 (پہلا ایڈیشن)۔ لال باغ، مراد آباد: المرکز العلمی للنشر و التحقیق۔ صفحہ: 506–566 

نور عالم خلیل امینی (مارچ 2021)۔ "دار العلوم دیوبند کے مرد ذکی و دور اندیش ریاست علی ظفر بجنوری رحمۃ اللّٰہ علیہ"۔ رفتگان نارفتہ (پہلا ایڈیشن)۔ دیوبند: ادارہ علم و ادب۔ صفحہ: 437–476