زائدہ بن قدامہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت زائدہ بن قدامہؒ
معلومات شخصیت
عملی زندگی
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب[ترمیم]

زائدہ نام ابو المصلت کنیت اورباپ کا نام قدامہ تھا [1]اس کے بعد کا سلسلہ نامعلوم ہے،بنو ثقیف سے نسبت ولاءرکھنے کی بنا پر ثقفی اوراپنے مولد وطن کوفہ کی طرف منسوب ہوکر کوفی کہلاتے ہیں۔

علم و فضل[ترمیم]

علمی حیثیت سے بلند پایہ اتباع تابعین کی جماعت میں کئی حیثیتوں سے بہت ممتاز تھے،علامہ خزرجی احد الاعلام،اورحافظ ذہبی امام وحجت کے الفاظ سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ [2] حدیث میں ان کے تبحر اورکمال کا یہ عالم تھا کہ امام احمد فرماتے ہیں،اگر تم زائدہ سے مروی کوئی حدیث سُن لو تو پھر اس کی کوئی پروا اورغم نہ کرو کہ تمھیں کسی دوسرے راوی سے سماع حاصل نہیں، یعنی زائدہ کی روایت ہی مستند ترین اورکافی ہے۔

حدیث[ترمیم]

زائدہ نے اپنے وقت کے بہت سے نادرۂ روزگار ائمہ وشیوخ سے حدیث کی تحصیل اوراس میں مہارت حاصل کی تھی، انھیں جن فضلائے زمن سے فیض صحبت اوراکتساب علم کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں ابو اسحاق سبیعی،عبد الملک بن عمیر، سلیمان التیمی،اسماعیل بن ابی خالد، اسماعیل السدی،حمید الطویل،زیاد بن علاقہ،سماک بن حرب،شعیب بن غرقد، ہشام بن عروہ،اعمش اورہشام بن حسان جیسے نامور علما شامل ہیں۔ [3]

تلامذہ[ترمیم]

ان کے خوشہ چینوں کی تعداد بھی کثیر ہے جن میں سے مشہور الجعفی،عبد الرحمن بن مہدی،سفیان بن عیینہ،ابواسحاق المفزاری،طلق بن غنام،معاویہ بن عمر،ابو نعیم ،احمد بن یونس۔ [4]

روایت میں احتیاط[ترمیم]

حدیث میں بایں ہمہ تبحر و کمال کے زائدہ بن قدامہ روایت کرنے میں غایت درجہ محتاط تھے وہ رواۃ حدیث کی ثقاہت وعدالت اور دوسرے احوالِ زندگی کی تحقیق وتفتیش میں بڑی ژرف نگاہی کا ثبوت دیتے اور چھان بین کے بعد جب راوی کی زندگی مثل آئینہ بے داغ اورشفاف نظر آتی ،جب ہی اس کی روایت کو شرفِ قبول بخشتے تھے، اس خصوصیت کی بنا پر ان کی تمام مرویات اعلیٰ درجہ کی ہیں،امام ابو داؤد طیالسی روایتِ حدیث میں ان کی اس فرطِ احتیاط کی نسبت خامہ ریز ہیں کہ: کان لا یحدث صاحب بدعۃ [5] وہ کسی اہل بدعت سے روایت نہیں کرتے تھے،علاوہ ازیں ان کے تلمیذ رشید سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ: حدثنا زائد ۃ بن قدامۃ وکان لا یحدث قدریاولا صاحب بدعۃ [6] زائدہ بن قدامہ نے ہم سے حدیث روایت کی ہے اور وہ کسی قدری یا بدعتی سے ر وایت نہیں کرتے تھے۔

تثبت واتقان[ترمیم]

کسی حدیث کی صحت اور علو کے لیے راوی کا متقن اورثبت ہونا بھی ضروری ہے،زائدہ اس صفت سے بھی بدرجۂ اتم متصف تھے، علامہ ذہبی اتقان میں انھیں امام شعبہ کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ کان من نظراء شعبۃ فی الاتقان [7] وہ اتقان میں امام شعبہ کی نظیر تھے۔ امام احمد کا قول ہے: المثبتون فی الحدیث اربعۃ سفیان وشعبۃ وزھیروزائدۃ [8] حدیث میں چار اشخاص بہت بلند مرتبہ تھے سفیان ،شعبہ،زہیر اورزائدہ بن قدامہ

صداقت وعدالت اورائمہ کا اعتراف[ترمیم]

تمام ائمہ و علما اور ماہرین فن نے بالاتفاق زائدہ کی ثقاہت ،عدالت اورصداقت کا اعتراف کیا ہے؛چنانچہ ابوزرعہ کا بیان ہے کہ صدوق من اھل العلم [9] ابو حاتم کہتے ہیں: کان ثقۃ صاحب سنۃ وھواحب الی من ابی عوانۃ [10] وہ ثقہ مامون اورصاحبِ سنت تھے۔ ابو اسامہ جنہیں زائدہ سے خصوصی تلمذ کا شرف حاصل تھا، اپنے شیخ کی صداقت اورصالحیت کے متعلق بصراحت بیان کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سچے اور نیک انسان تھے، کان من اصدق الناس وابرھم [11] علاوہ ازیں ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘کان من الحفاظ المتقنین’امام دارقطنی،نسائی اورابو داؤد الطیالسی نے بھی ان کو ثقہ اورصدوق تسلیم کیا ہے۔

وفات[ترمیم]

باختلاف روایت 160ھ یا 161ھ میں انتقال فرمایا،محمد بن عبد اللہ الحضرمی کا بیان ہے کہ ان کی وفات سرزمین روم میں کسی جہاد کے دوران ہوئی۔ [12] اس کی تائید علامہ بن سعد کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے: توفی زائدۃ بارض الروم عامہ غزالحسن بن قحطبۃ الصائفۃ سنۃ ستین اواحدی وستین ومائۃ [13] زائدہ کی وفات ارضِ روم میں اس سال ہوئی جب صائف نے جنگ کی تھی وہ 160 ھ یا 161ھ تھا۔ علامہ خزرجی نے مطین کا یہ قول نقل کیا ہے: مات زائدۃ غازیاً بارض الروم سنۃ انثتین وستین ومائۃ [14] زائدہ کی وفات ارض روم میں 162 ھ میں جنگ کرتے ہوئے ہوئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (طبقات ابن سعد:6/263)
  2. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:121،وتذکرۃ الحفاظ:1/194)
  3. (تہذیب التہذیب:3/306)
  4. (تہذیب التہذیب:3/306)
  5. (العبرنی خبر من غبر:1/236)
  6. (تہذیب التہذیب:3/306)
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/194)
  8. (تہذیب التہذیب:3/206)
  9. (ایضاً)
  10. (العبر فی خبر من غبر:1/236،وخلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:131)
  11. (تذکرۃ الحفاظ:1/194)
  12. (تہذیب التہذیب:3/307)
  13. (طبقات ابن سعد:6/363)
  14. (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال:131)