زلیخا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مجلس زلیخا

زلیخا عزیز مصر فوطیفار یا پوتیفار کی زوجہ کا نام ہے۔ جو مصر کی ساکنہ تھی اور روایات کے مطابق بے اولاد تھی اس لیے کہ شوہر نامرد تھا۔ اور مصر کے ملک میں چونکہ اس وقت بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ یہ بھی بت پرست تھی۔ بائبل میں اس شخص کا نام فوطیقار لکھا ہے جس نے یوسف کو خریدا تھا۔ قرآن مجید نے آگے چل کر عزیز کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ شاہی خزانے کا یا باڈی گارڈوں کا افسرتھا۔ تلمود میں اس کی بیوی کا نام زلیخا لکھا ہے۔(زلیخا یا راعیل) [1] عزیز مصر کی بیوی کا نام راعیل تھا۔ کوئی کہتا ہے زلیخا تھا۔ یہ رعابیل کی بیٹی تھیں[2]

یوسف کا ملنا[ترمیم]

جب یوسف علیہ السلام کو بھائیوں نے کنویں میں پھینک ڈالا تو ایک قافلہ کے سالار نے اپنے ایک غلام بنام بشیر کو بھیجا کہ جا کر کنویں سے پانی لائے تو بشیر نے ڈول کنویں میں ڈالا اور باہر ڈول آیا تو دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت بچہ ڈول پر سوار بیٹھا ہے اور دوڑتا ہوا اپنے سردار ٌمالک بن زعرٗ کے پاس آیا اور کہا کہ مالک یہ بچہ کنویں سے ملا ہے، تو برادران یوسف آئے اور فروخت کرنے کا کہا اور چند کھوٹے سکے (20 کھوٹے سکے )کے عوض بھائی کو بیچ ڈالا، مالک بن زعر نے حضرت یوسف کو مصر کے بازار میں فروخت کرنے کی بولی لگائی اور عزیز مصر نے اپنے خزانہ شاہی کے عوض حضرت یوسف کو خریدا، اس قصد سے کہ چونکہ بے اولاد ہوں لہذا اسے اپنا بیٹا بناوں گا ۔ حضرت یوسف شاہی محل میں داخل ہوئے۔ اور وہاں کی رونقیں دیکھیں، ہر خوش حالی پر گھر کی یاد آتی، لذیذ کھانے دیکھ کر بہن بھائیوں کو یاد کرتے اور رنگ برنگے محلات دیکھ کر اپنا شہر کنعان یاد کرتے ۔ کافی عرصہ تقریباً گیارہ سال گزرنے کے بعد جب جوان ہوئے تو زلیخا نے ایک دن اپنے کمرہ میں انھیں بلایا۔ زلیخا کا کمرہ سات دروازوں کے بعد آتا تھا۔ وہ سات دروازے عبور کیے اور حجرہ زلیخا تک پہنچے اور دیکھا کہ زلیخا آپ کو گناہ کی طرف راغب کرنا چاہتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ میں کیسے گناہ کروں جب کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے؟ تو زلیخا نے سمجھا کہ شاید بتوں کی طرف اشارہ ہے تو اس نے دوڑ کر اپنے بتوں پر پردہ ڈال دیا اور کہا کہ اب ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ان مصنوعی پردوں سے اللہ کی آنکھ کو دیکھنے سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ زلیخا نے آپ کو پکڑنے کی کوشش کی تو آپ نے حکم پروردگار سے دروازہ کی جانب دوڑنا شروع کیا اور دیکھا کہ دروازہ کھل گیا اور اسی طرح چھ دروازے عبور کیے اور ساتویں تک پہنچے تھے کہ زلیخا کا ہاتھ آپ کے کندھے پر پہنچا اور قمیص پھٹ گئی اور اب آپ نے ساتواں دروازہ عبور کیا۔ جب باہر نکلے تو دیکھا کہ عزیز مصر سامنے کھڑا ہے اور پوچھا کہ کیا ماجرا ہے؟ تو زلیخا فورا بولی کہ آپ کیا حکم فرمائیں گے اس شخص کے بارے میں جو آپ کی اہلیہ کے ساتھ غلط ارادہ رکھتا ہو؟ تو حضرت یوسف بولے کہ اے عزیز مصر میں نے نہیں بلکہ اس نے مجھے غلط ارادہ سے بلایا تھا ۔ عزیز مصر نے گواہ مانگا تو حضرت یوسف نے فرمایا کہ ایک چھوٹا بچہ جو زلیخا کا خالہ زاد ہے وہ میری گواہی دے گا تو بچے نے گواہی دی کہ اگر پوشاک آگے سے پھٹی ہے تو زلیخا سچی اور اگر پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف سچا۔ جب دیکھا گیا تو قمیص پیچھے سے پھٹی تھی تو عزیز مصر نے زلیخا کو توبیخ کی اور کہا کہ یہ سب تم عورتوں کا مکر ہے۔ اور یوسف سے کہا کہ یوسف اس معاملہ سے کنارہ کشی کر اور بھول جا۔ پھر عزیز مصر نے یوسف کو قید خانہ میں ڈال دیا۔ اور سالہا سال آپ نے زندان مصر میں گزارے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تفسیر عثمانی مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی
  2. تفسیر ابن کثیر حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر