سعید آسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سعید آسی
سعید آسی
معلومات شخصیت
پیدائش 24-8-1954
پاکپتن شریف
رہائش لاہور
شہریت پاکستانی
پیشہ صحافی، کالم نگار، شاعر،ادیب اور ایک سوشل ورکر

سعید آسی (پیدائش -1954)ایک مشہور صحافی، کالم نگار، شاعر،ادیب اور ایک سوشل ورکر ہیں۔آپ 24 اگست 1954 کو محلہ پیر کریاں پاکپتن شریف ضلع پنجاب پاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چوہدری محمد اکرم (مرحوم) محکمہ مال میں پٹواری تھے۔ والدصاحب کو اردو اور فارسی ادب سے کافی لگاؤ تھا۔ والد کا 6 اگست 1985 میں انتقال ہو گیاتھا۔ آپ کے دادہ مولوی عبد الکریم (مرحوم) ضلع ساہیوال میں سرکاری طور پر فتوی جاری کرنے والے عالم دین تھے۔ آپ کی والدہ 9 مارچ 1998 کو انتقال کر گئی تھیں۔ آپ کے تین بھائی اوردو بہنیں ہیں۔ دو بھائی رفیق زیدی(مرحوم) اور نوید سیلانی سرکاری سروس میں ہیں اور سب سے چھوٹا بھائی تنویر ساحر پاکپتن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی نمائندگی کر رہا ہے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول غلہ منڈی پاکپتن سے حاصل کی، آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن سے 1969 میں میٹرک کاامتحان پاس کیا۔ آپ بہت اچھے طالبعلم تھے, اسکول کے اساتذہ اور طالبعلموں میں ایک اچھا رتبہ حاصل کیا۔انٹرمیڈیٹ کاامتحان گورنمنٹ فریدیاکالج پاکپتن سے1971 میں پاس کیا۔ فریدیا کالج میں پڑھائی کے دوران ہی ادبی ذوق پیدا ہوا،بارہویں جماعت کے نوماہی امتحان میں اردو کا پرچہ فی البدیہہ شعروں کی صورت میں حل کیا۔اس پرچے پر نہ صرف سب سے زیادہ نمبر دیے گئے بلکہ اساتذہ نے یہ نوید بھی سنادی کہ یہ لڑکاادب میں بہت بڑا مقام حاصل کرے گا۔

سلسلہ تعلیم[ترمیم]

آپ نے گریجویشن گورنمنٹ کالج ساہیوال سے 1974 میں کیا۔ بطور شاعروادیب آپ کی پہچان گورنمنٹ کالج ساہیوال ہی میں ہوئی۔شروع میں آپ کارجحان محض اردوادب کی جانب تھابعدازاں پنجابی ادب میں بھی آپ کی دلچسپی بڑھی اور پورے کالج کا مستند پنجابی شاعر بن گئے۔کالج میگزین "ساہیوال" میں سب سے زیادہ آپ کی پنجابی تحریریں شائع ہوتی تھيں، اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج ساہیوال کی پنجابیادبی سنگت کے نائب صدر بھی منتخب ہوئے۔

آپ کاارادہ اردو یااکنامکس میں ایم اے کرنے کا تھا، لیکن آپ کے والد آپ کو وکیلبنانا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے آپ کو پنجاب یونیورسٹی لا کالج بھجوا دیا۔ لاء کی تعلیم کے دوران آپ نے ایک رسالہ سٹوڈنٹ کے نام سے شروع کیا، لیکن مالی حالات کا بنا پر رسالے کو چوتھے ایڈشن کے بعد ہی بند کرنا پڑا۔ رسالہ سٹوڈنٹ کی وجہ سے کالج میں آپ آسانی سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ کالج کے میگزین "المیزان" کے ایڈیٹر بھی منتخب ہوئے۔ آپ نے لا کی تعلیم 1977 میں مکمل کر لی تھی مگر لا کو بطور پیشہ اختیار نہ کیا، 1980 میں ایک دوست کے اکسانے پر پاکپتن شریف میں کچھ ماہ تک وکالت کی۔

نجی زندگی[ترمیم]

آپ کی شادی 1980 میں اپنی خالہ زاد ثمینہ سعید سے ہوئی اورآپ کے چار بیٹے ( شاہد سعید، شعیب سعید، شہباز سعید اور سلمان سعید) اور دو بیٹیاں ( شازیہ سعید اور سمیرا سعید) ہیں۔

ادب میں دلچسپی[ترمیم]

آپ کی مستقبل کی اصل منصوبہ بندی لیکچرار بننے کی تھی۔ ادب سے بچپن ہی سے لگاؤ تھا۔ فریدیا کالج پاکپتن میں تعلیم کے دوران شعور میں کافی پختگی آ گئی تھی۔ گھر کے ماحول کی گھٹن اظہار کا ذریعہ تلاش کر رہی تھی چنانچہ حالات نے شاعر بنا دیا۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں تخلیقی صلاحیتوں کواجاگر کرنے کا خوب موقع ملا۔ کالج کی لائبریری مسکن بن گئی زیادہ لگاؤ ادب اور شاعری کی کتابوں سے رہا۔ اسی لائبریری میں منشی پریم چند، غلام عباس، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی سمیت کم و بیش ہر افسانہ نگار کی تمام دستیاب کتابیں پڑھ ڈالیں۔ شوق مطالعہ نے غالب، میر تقی میر، حالی،اقبال، سودا،جوش، فراق گورکھ پوری جیسے کلاسیکل شاعروں کے علاوہفیض، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، حبیب جالب، مشیر کاظمی، ناصر کاظمی، ساغر صدیقی، عبدالحمیدعدم، ظفر اقبال جیسے اس وقت کے مشہور شاعروں تک بھی رسائی کرادی۔ بس پھر شوق نے بھی مہلت نہ دی ٹھہرنے کی۔آپ کوسب سے زیادہ ساحر لدھیانوی اور ناصر کاظمی متاثر کرتے تھے۔پھر ایک دور میں شورش کاشمیری، مرزاادیب اور احسان دانش دل و دماغ پر چھائے رہے۔ ان سب کی تحریریں پڑھتے پڑھتے قلم پکڑنے کا سلیقہ آ گیا۔

پیشہ ورانہ خدمات[ترمیم]

گریجویشن کے امتحان سے فارغ ہونے کے بعد ایک اخبار "پی آئی پی" میں درخواست بھیج دی اور پاکپتن میں نامہ نگار مقرر ہو ئے۔ یہ صحافت کی دنیا میں پہلا قدم تھا۔ باقاعدہ شاعری اور افسانہ نگاری بھی شروع کردی جو ماہانہ "آداب عرض" میں شائع ہوتی تھیں۔ آپ کا آداب عرض کے مقبول قلم کاروں میں شمار رہا۔ لاء کی تعلیم کے دوران پنجابی ادب میں معروفیت والا مقام حاصل ہو چکا تھا۔ پنجدریا، وارث شاہ، سانجھاں، تخلیق، سورج مکھی، ونگار اور روزنامہ امروز کے پنجابی ادبی اڈیشن میں غزلیں اور کہانیاں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔ گریجویشن کے دوران لارڈبائرن، شیلے اور جان کیٹس کی بعض نظموں کے اردو، پنجابی منظوم ترجمے بھی کیے۔ قلم کی مزدوری کی جانب زیادہ میلان ہوا اور لا کی تعلیم کے دوران روزنامہ وفاق سے صحافت کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔ روزنامہ وفاق میں سب ایڈیٹر سے نیوز ایڈیٹر کے منصب تک کام کیا۔ 1977 میں پہلی بار بطور سٹاف رپورٹر روزنامہ آزاد کے ساتھ منسلک ہوئے اور ہائیکورٹ رپورٹنگ حصہ میں آئی۔ اس کے ساتھ ہی کالم سرگوشیاں بھی شروع کر دیا۔ اخبار کا فرنٹ بیک ان کی خبروں سے بھرا ہوتا تھا اور ادارتی صفحے پر کالم سرگوشیاں بھی موجود ہوتا تھا ۔ صحافت کرنے کا مزہ اس مختصر دور میں آیا تنخواہ چھ سو روپے مقرر ہوئی مگر پہلے ہی مہینے دو سو روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔

روزنامہ جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو وفاق چھوڑ کر جنگ کے دفتر میں آ گئے، جنگ کے ماحول میں بمشکل ایک ہفتہ ہی گذر سکا۔ روزنامہ نواۓ وقت میں ملازمت کی پہلے ہی درخواست دے رکھی تھی اور نوائے وقت میں جانا ایک خواب تھا جس کی تعبیر ڈھونڈنے میں پہلے دو بار ناکامی بھی ہو چکی تھی۔ نواۓ وقت کی جانب سے انٹرویو کا خط موصول ہوا، 6 ستمبر 1981 کو توصیف احمد خان نے انٹرویو میں کلئیر کر دیا اور اسی روز بطور سب ایڈیٹر کام شروع کر دیا اور آج تک اس ادارے سے منسلک ہیں۔ شروع میں نوائے وقت ڈیسک پر ذمہ داری ملی بعد میں سٹی پیج کے انچارج مقرر ہوئے اور پھر میگزین سیکشن ميں ٹرانسفر کر دیا گیا جہاں بطورانچارج چار ایڈیشنز کی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ میگزین سیکشن سے رپورٹنگ سیکشن بھیجا گیا جہاں سٹاف رپورٹر، سینئر سٹاف رپورٹر ، ڈپٹی چیف رپورٹراور چیف رپورٹر کے عہدوں پر اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ نوائے وقت میں سروس کے دوران کبھی کسی خاص سیکشن کی خواہش نہیں کی اور نہ ہی رپورٹنگ سیکشن میں کبھی کسی خاص بیٹ کا مطالبہ کیا بلکہ جہاں ضروت ہوتی وہاں بھیج دیا جاتا۔ ایک طویل عرصہ تک ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل بیٹ کی بالخصوص اپوزیشن جماعتوں ایم آر ڈی، پی ڈی ایف، آوامی اتحاد اور اے آر ڈی کی بیٹ اور پھر سول سیکرٹریٹ اور پنجاب اسمبلی کی بیٹ کافی عرصہ تک پاس رہی۔ کم و بیش گذشتہ 28 سال سے مسلسل کورٹ رپورٹنگ کی جو صحافت کی دنیا میں ایک ریکارڈ ہے۔ نوائے وقت میں تواتر سے کالم (بیٹھک) لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے اسی اخبار کے سیاسی ایڈیشن افق میں پندرہ سال تک مسلسل سیاسی ڈائری لکھی۔ابھی بھی روزنامہ نوائے وقت میں بطور ایڈیٹوریل انچارج اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ نوائے وقت ایڈیٹوریل بھی باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔

ادبی زندگی[ترمیم]

اردواور پنجابی ادب میں کارکردگی[ترمیم]

  1. صدر گنج شکر اکیڈمی 1988 سے اب تک
  2. ممبر اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان
  3. ممبر پاکستان رائیٹرز گلڈ

کتب[ترمیم]

  1. سوچ سمندر (پنجابی شاعری، 1990)
  2. آگے موڑ جدائی کا تھا (سفر نامہ چین، 1996)
  3. جزیرہ جزیرہ (سفر نامہ انڈونیشا، برونائی اور مالدیب، 1999)
  4. تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں (اردو شاعری، 2008)
  5. رمزاں ( پنجابی شاعری، 2005)
  6. کب راج کرے گی خلق خدا(کالموں کا مجموعہ، 2013)
  7. کس کی لگن میں پھرتے ہو (سفر نامہ,)
  8. تیری بکل دے وچ چور (کالموں کا مجموعہ،2016)
  9. کلام سعید (اردو, پنجابی شاعری کا مجموعہ،2017)
  10. اشرافیہ اور عوام (کالموں کا مجموعہ, 2021)
  11. آئین کا مقدمہ (کالموں کا مجموعہ,2022)
بیشمار کالم اور سیاسی ڈائیریاں روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہو چکی ہیں جبکہ اردو، پنجابی تصورارتی کہانیاں علاوہ ازیں ہیں.

سماجی خدمات[ترمیم]

اضافی پیشہ ورانہ سرگرمیاں[ترمیم]

  1. سیکریٹری لاہور ہائی کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن، 1972-1978
  2. سیکریٹری لاہور پریس کلب، 1984-1986
  3. نائب صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلیسٹس،1987
  4. صدر پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی، 1997 - 19995
  5. صدر پنجاب یونین آف جرنلیسٹس (پی ایف یو جے)،1998-19996
  6. صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، 2002-2004

سماجی اور انسانی حقوق کی سرگرمیاں[ترمیم]

  1. صدر سبزہ زار ویلفیر سوسائیٹی 1998 سے اب تک
  2. ممبر لاہور ہائی کورٹ جیل اینڈ ہاسپٹل ریفارمز کمیٹی 2000 سے اب تک
  3. ممبر ہیومن رائیٹس کمیشن گورنمنٹ آف پنجاب۔ 2001-2002