سعید بن عبدالعزیز

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت سعید بن عبد العزیزؒ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 90ھ

نام ونسب[ترمیم]

سعید نام اور ابو محمد یاابو عبد العزیز کنیت ہے،نسب نامہ یہ ہے:سعید بن عبد العزیز بن ابی یحییٰ [1]تنوخی خاندانی نسبت ہے،تنوخ ان قبائل کا نام ہے جو قدیم زمانہ میں بحرین میں آباد ہو گئے تھے اورباہمی تعاون کا حلف لے رکھا تھا، تنوخ کے لغوی معنی اقامت کے ہیں۔ [2]

ولادت اوروطن[ترمیم]

90ھ میں پیدا ہوئے،اصلاً بحرین کے رہنے والے تھے لیکن بدوشعور کے بعد عمر بھر شام کے پایہ تخت دمشق میں سکونت پزیر رہے اس لیے دمشقی بھی کہلاتے ہیں۔

فضل وکمال[ترمیم]

علمی اعتبار سے وہ شام کے بلند مرتبہ فقہا ومحدثین میں تھے ،اجلہ تابعین سے اکتساب فیض کی سعادت نصیب ہوئی،قرآن حدیث اور فقہ جملہ علوم کے جامع تھے،عبادت وریاضت اور خوف وخشیت ان کی کتاب زندگی کے روشن ابواب ہیں،حاکم کہتے ہیں کہ تفقہ ودیانت اور علم و فضل کے اعتبار سے سعید بن عبد العزیز کو شام میں وہی مقام حاصل تھا جو امام مالک کو اہل مدینہ میں [3]امام اوزاعی فقہ وافتاء کے مشہور زمانہ امام تھے،ان سے اگر کوئی شخص ابن عبد العزیز کی موجودگی میں استفتاء کرتا تو فوراً فرماتے :سلوا ابا محمد [4]

شیوخ[ترمیم]

ان کے اساتذوشیوخ میں ہر فن کے ماہرین کی کافی تعداد ملتی ہے ممتاز اور مشہورائمۃ میں،مکحول دمشقی،نافع مولیٰ ابن عمر،قتادہ زہری،ربیعہ بن یزید الدمشقی بلال بن سعد سلیمان بن موسیٰ ،عبد العزیز بن صہیب ،اسماعیل بن عبیداللہ،عطیہ بن قیس یونس بن میسرہ اورابو الزبیر کے نام شامل ہیں۔

تلامذہ[ترمیم]

اسی طرح ان کے تلامذہ اور منتبسین کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے،جن میں عبد اللہ بن مبارک بن شابور،مروان بن محمد،وکیع بن الجراح،ولید بن مسلمہ،یحییٰ بن اسحاق،مسکین بن بکیر، عبد الملک بن محمد الصغانی،یحییٰ بن سعید القطان،ابومسہر،یحییٰ بن بشر، ابو نصر،محمد بن عثمان التنوخی جیسے اکابر اہلِ علم فضلاء شامل ہیں، علاوہ ازیں ان کے معاصرین میں سفیان ثوری،اورامام شعبہ نے بایں ہمہ جلالت علم ان سے روایت کی ہے ۔ [5]

قرآن[ترمیم]

علوم قرآن میں انھیں کافی دسترس اورقدرت حاصل تھی، اس کی تحصیل انھوں نے علی بن عامر اوریزید بن ابی مالک سے کی تھی۔

حدیث[ترمیم]

گوحدیث میں انھیں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ تھا، تاہم شامی شیوخ کی جس قدر بھی مرویات کا سماع انھوں نے کیا تھا،اس میں ان کا ثانی نہیں ملتا، امام احمدؒ کا ارشاد ہے۔ لیس بالشام اصح حدیثاً منہ [6] شام میں ان سے زیادہ صحیح الحدیث کوئی نہ تھا۔ عمر بن علی کہتے ہیں کہ شامیوں کی حدیثیں بالعموم ضعیف ہوتی ہیں،لیکن اس کلیہ سے دو علما مستثنیٰ قرار دیے جانے کے مستحق ہیں،ایک امام اوزاعی اوردوسرے سعید بن عبد العزیز۔ [7]

فقہ[ترمیم]

سعید بن عبد العزیز کے صحیفہ کمال کا درخشاں ترین ورق فقہ میں ان کی غیر معمولی مہارت ہے،امام اوزاعی کے بعد شام میں اس فن کا ان سے بڑاعالم کوئی نہ ہوا؛بلکہ ابومسہرتو فقہی کمال میں انھیں امام اوزاعی پر بھی فوقیت دیتے ہیں ابو حاتم کا بیان ہے کہ: لا اقدم بالشام بعد الاوزاعی علی سعید احداً [8] میں شام میں امام اوزاعی کے بعد فقہ میں سعید بن عبد العزیز پر کسی کو فوقیت نہیں دیتا۔ اسی باعث زبان خلق نے انھیں "فقیہ الشام بعد الاوزاعی"اورمفتی دمشق کے خطاب سے سرفراز کیا۔

ثقاہت[ترمیم]

ائمہ جرح و تعدیل نے بالاتفاق ان کی عدالت ،ثقاہت اورصداقت کو تسلیم کیا ہے،ابن معین انھیں حجۃ اورامام نسائی ثقہ مثبت قرار دیتے ہیں،مزید برآں ابو حاتم عجلی اورمحمد بن اسحاق وغیرہ صراحت کے ساتھ ان کی توثیق کرتے ہیں [9]ابن حبان کتاب الثقات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ کان من عباد اھل الشام وفقھا ئھم ومتقنیھم فی الروایۃ [10] وہ شام کے عباد،فقہا اورصاحب اتقان علما میں تھے۔

قوتِ حافظہ[ترمیم]

انھوں نے حفظ وذہانت سے بھی حصہ وافر پایا تھا،خود ہی فرمایا کرتے تھے میں نے حدیث کبھی نہیں لکھی ،یعنی شیوخ سے روایت سُن کر اپنے حافظہ کے خزانے میں محفوظ کرلیتے تھے،لیکن ان کے بعض تلامذہ کا خیال ہے کہ آخر زمانہ میں بتقاضائے عمر سوء حافظہ اور فطور عقل میں مبتلا ہو گئے تھے۔ [11]

خشیت الہی[ترمیم]

وہ علم کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی پیکر مجسم تھے نہایت عبادت گزار تھے لیکن بایں ہمہ خوف وخشیت الہیٰ سے ہر آن لرزاں رہتے رات بھر نماز پڑھتے اور ساتھ ہی آنسوؤں کا سیل رواں رہتا،ابوالفراالفرابیسی چشم دید راوی ہیں کہ میں نے ایک بار ان کو نماز پڑھتے دیکھا،ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ کر چٹائی پر گر رہے تھے،محمد بن مبارک الصوری کا بیان ہے جب بھی سعید بن عبد العزیز کی کوئی نماز یا جماعت فوت ہوجاتی،بے تحاشا روتے تھے۔ [12]

خشوع وخضوع[ترمیم]

اسی کے ساتھ ان کی عبادت میں خشوع بدرجہ اتم موجود ہوتا،جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو جہنم متشکل ہوکر سامنے آتی اوروہ دنیا ومافیہا سے کٹ کر پروردگار کے حضور میں اپنی عبودیت کا نذرانہ پیش کرتے خود بیان کرتے ہیں کہ ‘ماقمت الی صلوۃ الا مثلت لی جھنم [13]یعنی جب میں نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو جہنم اصل روپ میں میرے سامنے آتی ہے۔

اقوالِ زریں[ترمیم]

آپ کے جن بعض ملفوظات کا ذکر کتب طبقات میں ملتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلند پایہ عالم، فقیہ اورمحدث ہونے کے ساتھ ایک خدا رسیدہ بزرگ بھی تھے، ان کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص کسی مسئلہ میں سوال کرتا تو جواب دینے سے قبل یہ ضرور فرماتے لا حول ولا قوة إلاّ بالله، هذا رأي، والرأي يخطي ويصيب. ایک بار کسی نے قدرکفاف (یعنی جتنا رزق زندگی اورموت کا رشتہ قائم رکھنے کو کافی ہو)کی توضیح چاہی تو فرمایا: هو شبع يوم وجوع يوم ،یعنی ایک دن فاقہ کرو اور ایک دن سیر ہوکر کھاؤ، ایک مرتبہ اثناء گفتگو میں کسی شخص کی زبان سے اطال اللہ بقاءک نکل گیا،فورا فرمایا:لابل عجل اللہ بی الی رحمتہ۔

وفات[ترمیم]

مہدی کے ایام خلافت 167ھ میں بمقام دمشق رحلت فرمائی،وفات کے وقت 80 سال کے قریب عمر تھی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (طبقات ابن سعد:7/171)
  2. (اللباب فی تہذیب الانساب:1/184)
  3. (شذرات الذہب:1/263)
  4. (تذکرۃ الحفاظ:1/198)
  5. (تہذیب التہذیب:4/59،60)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:1/98)
  7. (تہذیب التہذیب:4/60)
  8. (تہذیب التہذیب:4/60)
  9. (میزان الاعتدال:1/386)
  10. (تہذیب التہذیب:4/60)
  11. (میزان الاعتدال:1/386)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:1/198)
  13. (شذرات الذہب:1/263)