سعید بن مسیب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سعید بن مسیب
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 642ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 715ء (72–73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فقہائے سبعہ  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ محدث،  فقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سات فقہائے مدینہ


سعید بن مُسَیِّبِ کا شمار مدینہ کے اکابر فقہا اور تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ کا نام سعید، آپ کے والد کا نام مسیب اور آپ کی کنیت ابو محمد ہے۔[1] مالکی طرز فقہ کی داغ بیل جن ائمہ نے مالک بن انس سے پہلے ڈالی، ان میں سعید بن مسیب کا بھی شمار ہے۔

آپ کا نسب کچھ یوں ہے۔ سعید بن المسیّب بن حزن بن ابی وہب بن عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم القرشی المخزومی
آپ کا شمار دوسرے طبقہ سے ہوتا ہے۔ آپ کی مرسل کو زیادہ صحیح مرسل سمجھا جاتا ہے اور علی بن مدینی کا قول ہے کہ میرے علم میں تابعین میں سے آپ کے علم جیسا کوئی نہیں۔ آپ مدینہ کے فقیہ تھے۔[2]

آپ کے والد مسیب اور دادا دونوں صحابی تھے، فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے۔ آنحضرت ؐ ایسے ناموں کو جن کے معنی میں برائی کا پہلو نکلتا ہو پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے حزن کا نام بدل کر سہل رکھنا چاہا لیکن حزن نے آنحضور ؐ سے عرض کی کہ یہ والدین کا رکھا ہوا نام ہے اور اس نام سے مشہور ہو چکا ہوں اس لیے اس کو نہ بدلئے۔ ان کے عذر پر آنحضرت ؐ نے رہنے دیا۔ لیکن سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ہمیشہ غمگینی چھائی رہی۔[3]

نام ونسب[ترمیم]

سعید نام ابو محمد کنیت،نسب نامہ یہ ہے،سعید بن مسیب بن حزن بن ابی وہب بن عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب قرشی مخزومی ان کی ماں قبیلہ اسلم سے تھیں،نانہالی شجرہ یہ ہے،ام سعید بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص اسلمیٰ ابن مسیب بڑے جلیل،القدر تابعی اوران نفوسِ قدسیہ میں تھے،جو اپنے علم وعمل کے اعتبار سے ساری دنیائے اسلام کے امام اورمقتدیٰ مانے جاتے تھے،ان کے والد مسیب اور دادا حزن دونوں صحابی تھے،فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ ایسے ناموں کو جن کے معنی میں برائی کا پہلو نکلتا ہو پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے حزن کا نام جس کے معنی غم کے ہیں بدل کر سہیل رکھنا چاہا،لیکن حزن نے جن میں اس وقت تک قدامت پرستی کا جذبہ باقی تھا،یہ عذر کیا کہ یا رسول اللہ یہ نام والدین کا رکھا ہوا ہے اور اس نام سے مشہور بھی ہو چکا ہوں اس لیے اس کو نہ بدلے ان کے عذر پر آنحضرتﷺ نے رہنے دیا،لیکن اس نام کی نحوست کا یہ اثر تھا کہ سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ہمارے گھر میں ہمیشہ غمگینی چھائی رہی۔ [4]

پیدائش[ترمیم]

باختلاف روایت 2یا 4 جلوس عمری میں سعید بن مسیب پیدا ہوئے ایک بیان یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ کی وفات سے دو سال پہلے تولد ہوئے،لیکن پہلی روایت زیادہ معتبر ہے۔ [5]

عہدمعاویہ[ترمیم]

ابن مسیب خلافتِ راشدہ کے آخری دور میں بالکل کم سن تھے،اس لیے اس عہد کا ان کا کوئی واقعہ قابلِ ذکر نہیں ہے، امیر معاویہ کے زمانہ میں بھی وہ عملی زندگی میں کہیں نظر نہیں آتے،بعض روایات سے اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحصیل علم سے فارغ ہوکر مسند علم وافتا کی زینت بن چکے تھے۔ [6]

ابن زبیر کی بیعت سے اختلاف[ترمیم]

عبد اللہ بن زبیر کے زمانہ سے ان کے حالات کا پورا پتہ چلتا ہے اوراس کا آغاز ان کی حق گوئی سے ہوتا ہے وہ ایسے حق گو اورحق پرست تھے کہ خلفاء اور سلاطین کے مقابلہ میں بھی ان کی زبان خاموش نہ رہتی تھی؛چنانچہ ان کی تاریخ کا آغاز ہی خلفاء کے ساتھ اختلاف سے ہوتا ہے،عبد اللہ بن زبیرؓ نے جب خلافت کا دعویٰ کیا اور جابر بن اسود، اہل مدینہ سے ان کی بیعت لینے کے لیے آیا ،تو ابن مسیب نے اختلاف کیا اورکہا جب تک تمام مسلمانوں کا کسی شخص پر اتفاق نہ ہوجائے،اس وقت تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرنی چاہیے۔

کوڑوں کے مقابلہ میں اعلانِ حق[ترمیم]

ابن مسیب مدینہ کے ممتاز ترین بزرگ تھے،ان کی مخالفت کے معنی یہ تھے کہ مدینہ سے ایک ہاتھ بھی بیعت کے لیے نہ بڑھنا،اس لیے جابر نے حکومت کے گھمنڈ میں آپ کو کوڑوں سے پٹوایا ،لیکن آپ کی حق گو زبان جبر وتشدد سے رکنے والی نہ تھی ؛چنانچہ وہ عین سزا کی حالت میں بھی اعلان حق کرتی رہی،جابر کے چار بیویاں تھیں ایک کو اس نے طلاق دے کر عدت گزرنے سے پہلے پانچویں شادی کرلی تھی،جو صریحاً حرام ہے؛چنانچہ ٹھیک اس وقت جب ان پر کوڑے برس رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ کتاب اللہ کا حکم سنانے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی،خدا فرماتا ہے : فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ اور تونے چوتھی کی عدت ختم ہونے سے قبل پانچویوں عورت سے شادی کرلی جو تیرے دل میں آئے کر گذر،عنقریب تجھ پر برا وقت آنے والا ہے،اس واقعہ کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد عبد اللہ بن زبیرؓ قتل ہو گئے [7] ابن زبیرؓ کو اپنے مقتول ہونے سے پہلے ابن مسیب کے ساتھ جابر کی اس گستاخی کا علم ہو چکا تھا،وہ ان کے مرتبہ شناس تھے اس لیے انھوں نے جابر کو خط لکھ کر سخت تنبیہ کی اورلکھا کہ ان سے کوئی تعرض نہ کرو۔ [8]

عبد الملک سے اختلاف[ترمیم]

عبد اللہ بن زبیر کے بعد عبد الملک خلیفہ ہوئے،اس کے ساتھ بھی ابن مسیب کا اختلاف قائم رہا،اس کی تفصیل یہ ہے کہ اموی حکومت کا بانی اورمجدد مروان بن حکم اپنے بعد علی الترتیب عبد الملک اوراس کے بعد اس کے بھائی عبد العزیز کو خلیفہ بنا گیا تھا،مروان کے بعد عبد الملک کی نیت میں فتور پیدا ہوا،اس نے عبد العزیز کو ولیعہدی سے خارج کرکے اپنے لڑکوں ولید اورسلیمان کو ولیعہد بنانا چاہا،لیکن پھر قبیصہ بن ذویب کے سمجھانے سے کہ اس میں آپ کی بڑی بدنامی ہے رک گیا عبد الملک کی خوش قسمتی سے چند ہی دنوں کے بعد عبد العزیز کا انتقال ہو گیا۔ [9] عبد العزیز کے انتقال کے بعد عبد الملک کے لیے میدان بالکل صاف ہو گیا اور اس نے ولید اورسلیمان کو ولیعہد بناکر ان کی بیعت کے لیے صوبہ داروں کے نام فرمان جاری کر دیے ؛چنانچہ ہشام بن اسمعیل والی مدینہ نے اہل مدینہ سے بیعت لے کر سعید بن مسیب کو بلایا انھوں نے کہا میں بغیر سوچے سمجھے بیعت نہیں کرسکتا،ایک بیان یہ ہے کہ انھوں نے جواب یہ دیا کہ میں عبد الملک کی زندگی میں دوسری بیعت نہیں کرسکتا۔ [10]

کوڑوں کی مار اورقید کی سزا[ترمیم]

ان کے اس جواب پر ہشام نے انھیں کوڑوں سے پٹوایا اورتشہیر کراتے ہوئے راس الثینہ تک جہاں مجرموں کو سولی دی جاتی تھی،بھیجا ،سعید بن مسیب سولی کے لیے تیار ہوکر گئے تھے؛چنانچہ سولی کے وقت ستر کھل جانے کے خیال سے جانگھیا پہن لی تھی،لیکن راس الثینہ لے جانے کا منشا غالباً محض تخویف تھا،اس لیے وہاں لے جاکرواپس لے آئے ابن مسیب نے پوچھا،اب کہاں لیے جاتے ہو،جواب ملا قید خانہ؛چنانچہ واپس لاکر قید کر دیے گئے اور ہشام نے اپنی اس کارگزاری کی اطلاع بارگاہ خلافت میں بھجوادی۔ [11]

استقلال[ترمیم]

قید خانہ میں انھیں سمجھا بجھا کر رام کرنے کی کوشش کی گئی؛چنانچہ ابوبکر بن عبد الرحمن نے ان سے مل کر کہا سعید تم بالکل سٹھیا گئے ہو،انھوں نے جواب دیا ابوبکر خدا سے ڈرو اوراس کو سب قوتوں سے بڑھ کر سمجھو،ابو بکر برابر یہی کہتے رہے کہ تم تو اورزیادہ سٹھیا گئے ہو کسی طرح نرم ہی نہیں پڑتے،آخر میں ابن مسیب نے جواب دیا خدا کی قسم تمھارے دل اورآنکھ دونوں کی روشنی جاتی رہی ہے،یہ جواب سن کر ابوبکر واپس چلے گئے،ہشام نے بچھوا بھیجا کہ سعید مار کے بعد کچھ نرم پڑے، ابوبکر نے جواب دیا تمھارے اس سلوک کے بعد سے خدا کی قسم وہ پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں،اب اپنا ہاتھ روک لو۔ [12]

رہائی[ترمیم]

قبیصہ بن ذویب عبد الملک کے پرائیویٹ سکریڑی تھے،تمام شاہی ڈاک پہلے ان کے پاس آتی تھی،یہ پڑھنے کے بعد اس کو عبد الملک کے سامنے پیش کرتے تھے؛چنانچہ ہشام کا خط بھی جس میں اس نے عبد الملک کو اپنی کار گزاریوں کی اطلاع دی تھی پہلے قبیصہ کے ہاتھ میں پڑا،یہ بڑے عاقبت اندیش، مصلحت شناس،اورسعید بن مسیب کے مرتبہ شناس تھے اس لیے ہشام کی کارگزاری پڑھ کر بہت برہم ہوئے اوراسی وقت عبد الملک کے پاس خط لے جاکر کہا امیر المومنین ہشام خودرائی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے،ابن مسیب کو اس طرح مارتا اوران کی تشہیر کرتا ہے،خدا کی قسم وہ اس تشدد اورمارسے اورزیادہ سخت ہوجائیں گے،اگر وہ بیعت نہ کریں تب بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جن سے رخنہ اندازی یا اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کی برائی کا خطرہ ہو،وہ اہل سنت والجماعۃ میں ہیں،آپ خود سعید کو اس کی معذرت لکھیے، عبد الملک نے کہا تم ہی اپنی طرف سے لکھ دواور یہ ظاہر کردو کہ ہشام نے میرے منشا کے خلاف یہ کارروائی خود کی ہے؛چنانچہ قبیصہ نے اسی وقت ابن مسیب کو خط لکھ دیا، انھوں نے اسے پڑھ کر کہا جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے اس کے اورمیرے درمیان خدا ہے۔ [13]

ابن مسیب کو خط بھجوانے کے بعد عبد الملک نے ہشام کو بھی ایک تنبیہ اورملامت آمیز خط بھیجا اورلکھا کہ خدا کی قسم ابن مسیب کے مارے جانے کی بجائے صلح رحم کے زیادہ مستحق ہیں،مجھ کو خوب معلوم ہے کہ ان سے کسی مخالفت اورتفرقہ کا خطرہ نہیں ہے (ایضاً) یہ خط پڑھ کر ہشام سخت نادم اورشرمسار ہوا اورابن مسیب کو رہا کر دیا۔ [14]

علما کا اعتراف[ترمیم]

ان کے عہد کے تمام علما ان کے کمال حفظ حدیث کے معترف تھے۔ کلجول جو خود بڑے امام اور محدث تھے کہتے تھے کہ میں نے علم کی تلاش میں ساری دنیا کا سفر کیا، لیکن سعید بن مسیب جیسا عالم کوئی نہیں ملا۔[15] امام زید العابدین کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیب سے بڑا واقف کا ر حدیث کا نہیں دیکھا۔ علی بن مدائنی کہتے ہیں کہ میں تابعین کی جماعت میں سعید بن مسیب سے زیادہ وسیع العلم کسی کو نہیں مانتا۔[16]

روایات کا پایہ[ترمیم]

محدثین اور ارباب فن کے نزدیک ان کی مرویات کا پایہ تنا بلند تھا کہ امام احمد بن حنبل وغیرہ ان کی مرسلات کو بھی صحاح کا درجہ دیتے تھے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سعید کی مرسلات ہمارے نزدیک حسن ہیں۔ علی بن مدائنی کہتے تھے کہ کسی مسئلہ میں سعید بن مسیب کا صرف یہ کہہ دینا کہ اس بارہ میں سنت موجود ہے کافی ہے۔[17]

تلامذہ[ترمیم]

=ابن مسیب کے تلامذہ کا دائرہ نہایت وسیع تھا، بعض مشہور اور ممتاز تلامذہ کے نام یہ ہیں :سلام بن عبد اللہ بن عمر، زہری، قتادہ، شریک بن ابی نمیر، ابو الزناد، سعد بن ابراہیم، عمرو بن مرہ، یحییٰ بن سعید انصاری، داؤد بن ابی ہند، طارق بن عبد الرحمن، عبد الحمید بن جبیر، عبد المجید بن سہیل، عمر وبن مسلم امام باقر، ابن منکدر اور یونس بن یوسف وغیرہ۔[18]

ذوق سخن[ترمیم]

آپ اگرچہ خاص مذہبی بزرگ تھے، اس کے باوجود ان کو شعر و سخن کا بھی مذاق تھا، وہ اسے خلاف تقویٰ نہیں سمجھتے تھے۔ آپ خودشعر نہیں کہتے تھے مگر سننا پسند کرتے تھے۔

فضائل اخلاق[ترمیم]

علمی کمالات کے ساتھ سعید بن مسیب فضائل اخلاق کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔ آپ بڑے عابد و زاہد بزرگ تھے۔ ابن حبان لکھتے ہیں کہ ابن مسیب فقہ، دین داری، زہد و ورع، عبادت و ریاضت جملہ فضائل میں سادات تابعین میں سے تھے۔

ذریعہ معاش[ترمیم]

اگرچہ آپ بڑے عابد و زاہد اور دنیا سے کنارہ کش تھے۔ اس قدر ترک دنیا نا پسند کرتے تھے جس سے انسان اپنی عزت قائم نہ رکھ سکے اور دوسروں کے ساتھ سلوک نہ کر سکے اس لیے کسبِ معاش کے تجارت کا پاک شغل اختیار کیا تھا۔ روغن زیتون وغیرہ کی تجارت کرتے تھے۔[19]

وفات[ترمیم]

ولید کے عہد 94 میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ دم آخرت اپنے صاحبزادے محمد کو بلا کر تجہیز و تکفین وغیرہ کے متعلق وصیت کی کہ جنازہ پر سرخ چادر نہ اڑھائی جائے۔ ایسے بین کرنے والے ساتھ نہ ہو ں جو وہ اوصاف بیان کریں جو مجھ میں نہیں۔ کسی کو جنازہ اٹھانے کی اطلاع نہ دی جائے۔ صرف چار آدمی اٹھانے کے لیے کافی ہوں گے۔ اسی مرض میں 94میں وفات پائی۔ وفات کے وقت پچھتر سال کا سن شریف تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس سال بہت بڑے بڑے فقہا کا انتقال ہوا اسی لیے اس سنہ کو سنۃ الفقہاء کہا جاتا ہے۔[20]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرۃ الحفاظ جلد 1مترجم صفحہ63
  2. تہذیب التہذیب ابن حجر عسقلانی جلد 1صفحہ201
  3. ابن سعد جلد5صفحہ88
  4. (ابن سعد:5/88)
  5. (ابن سعد:5/88)
  6. (ایضاً:90)
  7. (ابن سعد:5/91)
  8. (ایضاً:90)
  9. (ابن سعد:5/92)
  10. (ابن سعد:5/92)
  11. (ابن سعد:5/93)
  12. (ایضاً:94)
  13. (ابن سعد:5/93)
  14. (ایضاً:94)
  15. (تذکرۃ الحفاظ جلد 1صفحہ63)
  16. تہذیب التہذیب جلد 4صفحہ86
  17. سیرۃ الصحابہ جلد 13صفحہ178
  18. تہذیب التہذیب ابن حجر جلد 1صفحہ 209
  19. =تذکرۃ الحفاظ جلد نمبر 1صفحہ67=
  20. ابن سعد