سفاک تھیٹر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

"سفاک تھیٹر" (تھیٹر آف کرولٹی) فرانس کی تھیریٹکل راویت کی ایک منفرد تحریک اور تجرباتی رجحان ہے۔ فرانسیسی ڈراما نگار، ڈرامائی نظریہ دان، ادیب اور شاعر انتونن آخطو نے اپنے کتاب، "تھیٹر اینڈ ایٹذ ڈبل" میں سریلسٹ حوالے سے اپنے ڈرامائی اور تھیڑیکل نظریات پیش کیے جو اصل میں الفریڑ جیری کے سریلسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ ان کے خیال میں ہر ڈرامے یا ناٹک کے بطن میں ظلم اور سفاکی بسی ھوئی ہے جو ھماری حال کی ذہنی صورت حال میں مابعد الطعیات کی صورت میں دربارہ داخل ھونا چاھتی ہے۔ جس کی وجہ تکلیف یا سادیت بھی ھوسکتی ہے اور جو ہمارے باطن کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔ اس کا سبب تشدد، جسمانی یکسوئی اور عزم ہوتا ہے۔ یہ اصل میں ہمارے تصورات کا "کفن" ہے۔ ان معنی میں آخطو "سفاکی‘ کی بات کر رہا ہے "تشدد" کی نہیں ۔۔۔۔۔ اس صورت حال میں اداکار ناطرین کو سچح، حقیقت اور ظلم دکھتا ہے۔ جو سوچوں اور علامتوں کے درمیان پوشیدہ ہوتا ہے اور متن کا حاوی محرک "ظلم اور سفاکی" ہی ہوتا ہے۔ جس میں روحانی تجربے جسمانی تجربوں کے مابین اطہاری خلا کو پر کرتا ہے۔ بقول آخطو ۔۔" معاشرہ اور تھیٹر چلا ھوا کارتوس ہے " ۔۔۔ انھوں نے تھیٹر کو انقلابی سوچوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی تاکہ وہ اس کو زمین پر چلا سکیں۔ اکثر ڈرامے کے ناقدین نے ۔۔"سفاکی" ۔۔ ( کرولٹی) سے غلط مراد لی ہے۔۔ وہ جنسی ہیجانات کے اظہار، ظلم و تشدد کی عکاسی وغیرہ کو " سفاک تھیٹر کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سفاکی سے مراد انسانی زندگی مین ناکامیوں اور کامیابیوں کے پس پردہ جو عوامل کار فرما ان میں پنہاں درد کی تصویر کشی کرنا ہے۔ احمد سھیل نے لکھا ہے کہ۔۔۔" آخطو کا نظریہ کرولٹی (سفاکی) دراصل اتنا دقیق ہے کی وہ عریانیت اور جنسیت کے ذریعے اس کا اظہار ممکن نہیں اس کے رقاقت ک اندزہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آخطو " سفاک تھیٹر " میں الفاظ کی بھر مار کو گناہ تصور کرتا ہے۔ اس کے نزدیک چوں کہ ہم لاشعور کی نمائیدگی نہیں کوسکتے اس لیے یہ خوابوں کی زبان کو ترجیح دیتا ہے۔ مقصد یہ کہ الفاط سطحی ابلاغ کے رریعہ ہیں۔ اس لیے لاشعور تک پہنچنے کے لیے تہذیب کی خلا کو دور کرنا پڑتا ہے وہاں الفاظ کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔۔" ( احمد سھیل، "یورپ کا سفاک تھیٹر"بشمول کتاب " جدید تھیٹر "، ادارہ ثقافت پاکستان، اسلام آباد، نومبر 1984 صفحہ171)۔۔۔ "سفا ک تھیٹر" زندگی میں سچے اور ایمان دار افراد کو دوبارہ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخطو کا سفاک تھیٹر کا نظریہ ماضی کے ادبی فنکارانہ شہ پاروں کے وسیع نظر تجربوں کا نچور ہے۔ جو خدا کی موت کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ روشن خیالی کی سڑی ھوئی لاش کو تابوت میں بند کر دیا گیا ہے۔ سفاکی کا سیارہ کائنات پر چمکتا ہے۔ اگر اس کو آپ یورپ کے کھنڈر پر بیٹھ کر مطالعہ تو وہ کلاسیک ہے۔ آخطو کا موقف ہے کہ‘ تھیٹر زندگی اور فن کی مکمل "ترکیب" ہے اس لیے لوگ تھیٹر دیکھنے جاتے ہیں۔ جدید تھیٹر کے حوالے سے مخصوص موسیقی اور دیدنی فن میں تبدیل ھو جاتی ہے۔ لہذا لوگوں کو سفاک تھیٹر کا تحربہ کرنا چاہیے۔ فرانسیی لایعنی ادیب اور ڈراما نگار ژان ژینے کا ڈراما "دی بلیک" سفاک تھیٹر کا ایک نمائیدہ اور توانا کھیل ہے۔۔ اس تجرباتی ڈرامائی رجحان کو تحریکی شکل دینے میں فرانسیی ہدایت کار ژان لوئیس بادولت، ژاں ویلر، راجر بلیں، جرمنی میں ڈراما نویس پیٹر ویلس اور انگلستان میں ایڈورڈ بونڈ اور لندن کی رائل شیکسپیریں کمپنی نے "سفاک تھیٹر" کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ 1936 میں شروع ھونے والا سفاک تھیٹر علامتی تحریک، ڈاڈا تحریک اور مئیر کے روسی ڈرامے کا منطقی نتیجہ تھی۔ ایک طرف تو اس نے نو تشکیل تھیٹر اور مغربی تھیٹر کی فرسودگی پاش پاش کیا اور دوسری طرف مغربی ڈراموں میں موجود ان پوشیدہ خوبیوں کو بے نقاب کیا جن کی مدد سے ایک کامیاب اور ایک بھرپور اسٹیج کی تشکیل ممکن ہے۔ اس سلسلے میں احمد سھیل کا تفصیلی مضمون، " یورپ کا تشدد پسند تھیٹر" مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ مضمون ادبی جریدے " فنون " لاہور اگست 1980، شمارہ 14 مین چھپ چکا ہے۔



اس مضمون کو مزید توجہ کی ضرورت ہے

  • اگر دوسرے وکیپیڈیا پر اس عنوان کا مضمون موجود ہے تو اس صفحے کا ربط دوسری زبان کے وکی سے لگانے کی ضرورت ہے۔
  • اگر بڑے پیراگراف موجود ہیں تو ان کو مناسب سرخیوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔
  • اس صفحے میں مناسب زمرہ بندی کی ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ اگر اس صفحے کا انگریزی صفحہ موجود ہے تو اس کے زمرہ جات نقل و چسپاں کر دئیے جائیں۔

اس کے بعد اس سانچہ کو ہٹا دیا جائے۔