سفید ہاتھی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یانگون کے باہر ایک نام نہاد سفید ہاتھی کی 2013ء میں لی گئی تصویر


سفید ہاتھی (انگریزی: White elephant) کسی ایسی ملکیت کو کہا جاتا ہے جس کا مالک اس سے آسانی سے چھٹکارا نہیں پا سکتا ہے اور اس کی قیمت، خصوصًا اس کے رکھ رکھاؤ کا خرچ اس چیز کی فائدہ مندی سے کہیں زیادہ ہے۔ جدید استعمالات میں یہ کوئی بھی شے، تعمیری منصوبہ، اسکیم، کاروباری پہل، سہولت وغیرہ ہو سکتی ہے جو بہت زیادہ خرچ پر محیط ہے مگر اس کا کوئی استعمال یا قدر نہیں ہے۔ [1]


پس منظر[ترمیم]

امر پورہ محل میں ایک سفید ہاتھی 1855ء
The برطانوی مشرقی افریقا کمپنی نے یوگانڈا کو سفید ہاتھی کے طور پر سمجھنے لگی جب اس کے اندرونی تنازعات اس علاقے کے نظم و نسق کو بہت مشکل بنا دیا تھا۔

اس اصطلاح کا مصدر مقدس سمجھے جانے والے سفید ہاتھی تھے جو جنوب مشرقی بادشاہ برما، تھائی لینڈ، لاؤس اور کمبوڈیا میں رکھتے تھے۔[2] سفید ہاتھیوں کی ملکیت کو ان ممالک میں ایک علامت کے طور پر سمجھا جاتا تھا کہ حکم ران انصاف اور اقتدار کی پاس داری سے اپنی حکومت میں امن اور ترقی قائم کر رہے ہیں۔ یہ خیال اب بھی تھائی لینڈ اور میانمار میں زبان زد عام ہے۔ یہ ہاتھی زبر دست پیسوں کی لاگت پر رکھے جاتے تھے، تاہم عام ہاتھیوں یا کچھ اور جانوروں کے مقابلے یہ زیادہ فائدہ نہیں پہنچاتے تھے۔ جدید دور میں کئی بار غیر ضروری بوجھ اور خرچ کی بھی سفید ہاتھی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ مثلًا مہنگائی کو بھی مجازی انداز میں سفید ہاتھی کہا جاتا ہے۔[3]

حکومت کی تعمیرات میں سفید ہاتھی کی تشبیہ[ترمیم]

24 نیوز ایچ ڈی کی اطلاع کے مطابق پاکستان میں تحریک انصاف اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پولیسیوں سے عوام کومطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے اور اس کے کئی منصوبے ناکام اور سفید ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ ارب روپے مالیت سے شروع کیا جانے والا پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ سفید ہاتھی بن گیا، جس کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کے لیے مزید 10 ارب روپے مانگ لیے، مزید یہ کہ کرائے میں سبسڈی نہ دی گئی تو بی آر ٹی منصوبہ چلانا بھی مشکل ہوگا۔ 23 مارچ 2019ء کو منصوبے کا صرف نمائشی افتتاح ہوا۔ اس سال جون یا جولائی میں بی آر ٹی مسافروں کے لیے باقاعدہ کھول دیا گیا، صوبائی حکومت کے پاس اس وقت صرف 20 بسیں ہیں مئی تک مزید بسیں آجائیں گی، منصوبے پر اب تک 67ارب روپے کی لاگت آئی ہے، کرایے میں سبسڈی دینے سے متعلق فیصلہ حکومت پر منحصر ہے،فی سٹاپ 15 روپے لینے کی صورت میں سالانہ 18-20 کروڑ روپے دینا ہون گے۔ اس طرح سے بھارہ سبسڈی کے بغیر واحد میگا پراجیکٹ چلانا ناممکن ہے۔ [4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Home : Oxford English Dictionary"۔ oxforddictionaries.com۔ 02 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 اپریل 2013 
  2. "Royal Elephant Stable" آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ thailandelephant.org (Error: unknown archive URL). Thai Elephant Conservation Center.
  3. Jacques P. Leider (دسمبر 2011)۔ "A Kingship by Merit and Cosmic Investiture"۔ Journal of Burma Studies۔ 15 (2) 
  4. "ڈی جی پی ڈی اے کامزید کہناتھاکہ سبسڈی کے بغیر واحد میگا پراجیکٹ چلانا ناممکن ہے، 220 بسوں میں تاحال 20 بسیں ہی پہنچ سکی جبکہ عملے کی تعیناتی،انفراسٹرکچر، دیگر امور تاحال نا مکمل ہیں۔"۔ 24 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2019