سلطان غلام دستگیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وزیری پٹھانوں کے مرشد اعلیٰ حضرت سلطان باہو ہیں۔ اب بھی یہ ان کے سالانہ عرس پر ہزاروں کی تعداد میں گڑھ مہا راجا میں جمع ہوتے ہیں۔ حضرت سلطان باہو کے خانوادہ کے ایک درخشندہ ستارے حضرت غلام دستگیر تھے‘ جن کا سید یوسف الگیلانی المعروف پیر صاحب آف وانا کے ساتھ قریبی تعلق پیدا ہو گیا تھا اور ان کی محبت میں انھوں نے اپنے تمام وزیری مریدین سید یوسف الگیلانی کے حوالے کر دیے تھے۔ یہ حضرت یوسف الگیلانی تھے جنھوں نے جہاد کشمیر پر نوابزادہ لیاقت علی خان کو اکسایا تھا۔ حضرت یوسف الگیلانی کے حکم پر وزیری پٹھان جہاد کے لیے کشمیر روانہ ہوئے۔ سید یوسف الگیلانی کو وزیری لشکر کا سربراہ اعلیٰ مقرر کیا گیا ‘ جبکہ سلطان العصر حضرت غلام دستگیر ہمہ وقت وزیری لشکر کے ساتھ رہے ‘ حضرت یوسف الگیلانی کا ہیڈکوارٹر ایبٹ آباد میں تھا۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے میجر (ر) خورشید انور کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا۔ برگیڈیئر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) بختیار رانا کو افواج پاکستان کا رابطہ افسر مقرر کیا گیا۔ جہاد کشمیر کی راہنمائی کے سلسلے میں حضرت یوسف الگیلانی کو پاکستانی افواج میں لیفٹیننٹ کرنل کا اعزازی عہدہ دیا گیا‘ جبکہ حضرت غلام دستگیر کو '' فخر کشمیر'' کے خطاب سے نوازا گیا۔ [1]

جہاد کشمیر کے جذبے میں سرشار قبائلی مجاہدین 25 اکتوبر 1947ء کی شام کو بارہ مولا پہنچ گئے تھے اور وہ چند گھنٹوں میں سری نگر پہنچ سکتے تھے۔ اگر ان کو ایسے کرنے دیا جاتا تو پھر ان کو شہر سے نکالنا ناممکن ہو جاتا اور بھارتی فوج 27 اکتوبر کی صبح کو بڈگام کے ہوائی اڈے پر اتر نہ سکتی۔ مگر مجاہدین کے لشکر کو میجر (ر) خورشید انور نے آگے بڑھنے سے روک دیا کیونکہ مجاہدین معاہدہ کے مطابق سری نگر کا خزانہ لوٹنا چاہتے تھے‘ لیکن میجر خورشید انور اس کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ چنانچہ اسی گفت و شنید میں نہایت ہی اہم دن ضائع ہو گئے حتیٰ کہ بھارتی فوج سری نگر میں اتر آئی۔ بعد میں کسی نے بھی ان میجر صاحب کی پرسش نہیں کی کہ فتح کشمیر کے مقابلے میں اس خزانے کی آخر کیا اہمیت تھی؟ میجر (ر) خورشید انور نے مجاہدین کو بارہ مولا میں روکے رکھا کیونکہ اس کے ذمے سری نگر کو آزاد نہ کرانے کی ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ دوسری طرف سازش کے تحت 25 اکتوبر کو مہورا کا بجلی گھر اڑا کر سری نگر میں گھپ اندھیرا کروا دیا گیا تاکہ مہا راجا کشمیر خوفزدہ ہو کے بھارت کی گود میں جا گرے۔ ادھر سرحد کا ہمارا اپنا انگریز گورنر سر جارج کننگھم 22 اکتوبر کو بھارتی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف سر راب لاکھارٹ کو خبر دے چکا تھا کہ قبائلی مجاہدین کشمیر پر حملہ کے لیے دریائے اٹک پار کر چکے ہیں۔ ایک ضمنی سازش کے تحت سیالکوٹ کے قادیانی ڈپٹی کمشنر ایم۔ ایم۔ احمد نے جموں کا محاذ کھلنے نہ دیا اور بقول جنرل اکبر خاں طارق ہم نے جموں کو چھوڑ دیا لیکن جموں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔

کشمیر کو ہندوستان کے پنجے سے چھڑانے کا دوسرا سنہری موقع دسمبر 1948ء میں آیا۔ جب کہ افواج پاکستان کی اعلیٰ پلاننگ کے نتیجہ میں پونچھ میں ہندوستانی افواج پاکستان افواج کے نرغے میں آ گئی تھیں۔ پونچھ کے ایک طرف ایک گھنے جنگل میں پاکستان توپ خانے کا نصف حصہ چھپا ہوا تھا۔ جو سڑک پونچھ اور اس سے آگے جاتی تھی وہ مکمل طور پر پاکستانی فوج کی زد میں تھی۔ جب افواج پاکستان پونچھ پر حملہ آور ہوتی تو پونچھ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کا دونوں اطراف سے رابطہ منقطع ہو جاتا۔[2]

پاکستانی توپ خانہ ہندوستانی توپ خانے سے بدرجہ بہتر تھا۔ اس لیے ہندوستانی اس کی مزاحمت نہ کر سکتے۔ وقت کی کمی کے باعث انھیں کمک بھی نہ پہنچ سکتی۔ ان حالات میں ہندوستانی فوج ہتھیار ڈال دیتی یا تہس و نہس ہو جاتی اور پاکستانی افواج کے لیے سری نگر کی طرف پیش قدمی میں کوئی خاطر خواہ رکاوٹ باقی نہ رہتی۔

ہندوستان کی اعلیٰ فوجی کمان کو جونہی پاکستانی فوج کے اس متوقع حملہ کا پتہ چلا‘ اس نے فوراً اپنے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کو تمام صورت حال اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ کر دیا۔ پنڈت نہرو نے اسی وقت برطانوی وزیر اعظم‘ کلیمنٹ ایٹلی سے فون پر رابطہ قائم کیا اور ان پر زور دیا کہ پاکستان کو ہر قیمت پر اس حملے سے روکنا ہو گا‘ کیونکہ اتنے مختصر وقت میں ہندوستان کے لیے بذریعہ ہوائی جہاز بھی پونچھ کمک پہنچانا ممکن نہیں۔ اگر انھیں پاکستانی افواج سے ہزیمت اٹھانا پڑی تو وہ احتجاجاً دولت مشترکہ کی رکنیت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ اگر پاکستان کو اپنا حملہ منسوخ کرنے پر آمادہ کر لیا جائے اور ضلع پونچھ ہندوستان ہی کا حصہ رہے تو وہ یعنی پنڈت نہرو اگلے سال کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیں گے۔ اس طفل تسلی پر ہمارے ممدوح نوابزادہ لیاقت علی خان‘ اپنے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان کے اصرار پر یہ حکم دینے پر راضی ہو گئے کہ پاکستانی افواج اگلے روز پونچھ پر حملہ آور نہ ہوں۔ یہ حکم ملنے پر پاکستانی ایریا کمانڈر میجر جنرل حمید پر غم و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور وہ شکستہ دل ہو کر اپنے کمرے میں بند ہو گئے اور بعد میں افواج پاکستان سے استعفیٰ دے دیا۔ پاکستانی فیصلہ کن حملے کا خطرہ ٹلتے ہی پنڈت نہرو اپنے استصواب رائے کرانے کے وعدے سے منحرف ہو گئے اور مسئلہ کشمیر غیر معینہ عرصہ کے لیے معرض التواء میں ڈال دیا گیا۔ یہ اتنا بڑا قومی المیہ تھا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی تھی۔ پونچھ میں ہندوستانی افواج نے خود کو مضبوط کر لیا جبکہ پاکستان نے ایک نادر موقع کھو دیا‘ جو قوموں کی زندگی میں کبھی کبھار آتا ہے۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "فخر کشمیر" 
  2. "آزاد کشمیر" 
  3. مرتبہ محمد اکرام چغتائی (2009)۔ محمد اسد بندہ صحرائی۔ محمد اسد بندہ صحرائی: خود نوشت سوانح عمری 1932ء تا 1992: لاہور