سلطان محمد زکریا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میاں سلطان محمد زکریا
ذاتی
وفات
مذہباسلام
والدین
سلسلہقادریہ
مرتبہ
مقاممیانوالی
دورسولہویں ، سترہویں صدی
پیشرومیاں علی احمد
جانشینمیاں علی محمد

میاں سلطان محمد زکریا بانی میانوالی میاں علی احمد کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپ والد کے جانشین تھے۔ آپ بچپن سے ہی صاحب کرامت تھے۔ آپ نے دین اسلام کی خوب اشاعت فرمائی۔ آپ کے ہندو اور سکھ بھی عقیدت مند تھے۔ آپ والد کے ساتھ کچھی (میانوالی) میں سولہویں صدی عیسوی میں آئے تھے۔ [1]

میانوالی آمد[ترمیم]

میاں علی احمد کو ایک خواب میں حکم دیا گیا کہ تمام مال و اسباب کشتی میں ڈال کر اس کو دریا کی لہروں پر چھوڑ دیں۔ جہاں یہ کشتی جا کر رک جائے وہاں آپ قیام کریں اور وہی آپ کی آخری آرام گاہ بھی ہوگی۔ میں علی احمد نے اپنے بیٹے سلطان محمد زکریا سے اس خواب کا ذکر کیا اور باہم مشورے کے بعد کشی کی تلاش کی گئی تو قریب کوئی کشتی نہ ملی۔ حضرت سلطان محمد زکریا نے کالا باغ کی طرف منہ کر کے وہاں کے ایک کشتی بان سلطان موہانہ کو آواز دی۔ سلطان موہانہ نے 25 میل دور کالا باغ میں آپ کی آواز سن لی وہیں سے اس نے بھی عرض کی۔ حضور میں آ رہا ہوں۔ چنانچہ وہ کشتی لے آیا اور تمام مال و اسباب کے ہمراہ آپ سوار ہوئے اور کشتی اللہ کے سپردکر دی گئی۔ کشتی موجود بلو خیل سے مزید جانب مغرب آ کر رک گئی۔ چنانچہ میاں علی احمد نے اس جگہ قیام فرمایا۔ [2]

بیعت و خلافت[ترمیم]

سلطان محمد زکریا کے والد محترم سلسلہ قادریہ سے مجاز تھے اور آپ صاحب کرامت ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی تمام بھائیوں سے ممتاز تھے لہذا خلافت کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔

ظالم گکھڑوں کے خلاف بد دعا[ترمیم]

جب حضرت سلطان محمد زکریا اپنے والد محترم میاں علی احمد کے ساتھ کچھی (میانوالی) میں آباد ہوئے تو اس وقت وہاں گھکڑ غیر مسلموں کی حکومت تھی جو مسلمانوں پر حد سے زیادہ ظلم کرتے تھے۔ میاں علی احمد نے مسلمانوں کو متحد کر کے ان کے ظلم نے نجات دلا دی۔ جب دوبارہ مظالم کی شکایت سلطان محمد زکریا کے پاس پہنچیں تو آپ نے آک (اکڑے) کے خشک پھول منگائے اور انھیں آگ لگا دی ساتھ ہی فرمایا کہ گھکڑ یوں نیست و نابود ہو جائیں گے۔ چنانچہ اللہ کے ولی کی بددعا ان پر یوں ٹوٹ کر پڑی نشئہ شراب میں بد مستی کی حالت میں ایک دوسرے پرٹوٹ پڑے اور آپس میں قتل وغارت شروع کر دی اور اپنے ہاتھوں تباه و برباد ہو گئے۔

کشف و کرامات[ترمیم]

میاں سلطان محمد زکریا کی چند کرامات کا ذکر میانوالی گزٹ 1915ء میں کیا گیا ہے۔

امتحان لینے والے تباه ہو گئے[ترمیم]

آپ ایک تنازع کے تصفیہ کے لیے روکھڑی تشریف لے گئے۔ روکھڑی کے پٹھانوں میں سے کچھ نے آپ کی آمد پر ناگواری کا اظہار کیا اور یہی سوچا کہ بڑا فقیر بنا ہے اس کی فقیری کا امتحان لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک جھوٹ موٹ کا جنازہ تیار کیا گیا ان میں سے ایک جان بوجھ کر مردہ بن گیا اور باقی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر نماز جنازہ کے لیے عرض گزار ہوئے م چنانچہ آپ تشریف لے گئے انھوں نے تو پروگرام بنالیا تھا کہ جیسے ہی آپ جنازہ کے لیے الله اکبر کہیں گے میت بنا ہوا بندہ فوراً کھڑا ہو جائے گا لیکن ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ اللہ والوں کا امتحان لینا بعض اوقات جان لیوا بھی بن جاتا ہے۔ آپ نے پوچھا کہ میت کا جنازہ پڑھا دوں لوگوں نے کہا جی ہاں پڑھائیں۔ آپ نے جنازہ پڑھا دیا۔ لوگ انتظار میں تھے کہ ابھی ہمارا آدمی کھڑا ہوگا لیکن ان کو کیا معلوم کہ اولیاء اللہ سے مذاق کرنے والوں کوسخت سزا مل چکی تھی اور وہ بندہ جو زندہ تھا واقعی موت کا شکار ہو چکا تھا اور اس کا جسم اب لاش کی صورت میں عبرت کا نشان بنا ہوا تھا۔

غیب سے کھانا آگیا[ترمیم]

ایک مرتبہ سلطان محمد زکریا نے لوگوں کو تالاب کھودنے کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں نے اکٹھے ہو کر تالاب کی کھدائی شروع کر دی۔ (یہ تالاب آج بھی میانوالی سے شمال مغرب میں موجود ہے اور ٹوبہ دادا سلطانی زکری کے نام سے مشہور ہے) ان میں سے کچھ لوگوں نے عرض کی حضور ہم آپ کا کام کریں گے لیکن شرط ہے کہ ہمیں کھانے میں حلوہ اور بکری کا گوشت ملے۔ آپ نے فرمایا تم کام شروع کرو اللہ کرم کرے گا۔ انھوں نے کام شروع کیا ادھر سلطان محمد زکریا نے حکم دیا کہ میری چادر فلاں کری کے درخت پر ڈال دو۔ چنانچہ جب کام ختم ہو گیا تو آپ نے انھیں فرمایا کہ جاؤ میری چادر اٹھا لو نیچے جو کچھ ہے وہ بھی اٹھا کر لے آؤ۔ چنانچہ جلدی جلدی وہاں جا کر چادر اٹھائی تو دیکھ کر حیران رہ گئے حلوہ بھی موجود ہے اور گوشت بھی پکا ہوا تیار ہے۔ تمام لوگوں نے اس خدائی ضیافت کو مزے لے لے کر کھایا اور تمام ہجوم کا پیٹ بھر گیا اور وہ خوش وخرم واپس ہوئے۔

مزار[ترمیم]

میاں سلطان محمد زکریا کی تدفین شہر کے غرب جانب ہوئی۔

اولاد[ترمیم]

سلطان محمد زکریا کا ایک ہی بیٹا تھا۔

  1. میاں علی محمد

مزار کی منتقلی[ترمیم]

تدفین کے کچھ سالوں بعد سلطان محمد زکریا اپنے پوتوں کو خواب میں پہلے مزار سے نکالنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے دونوں پوتوں مراد علی اور غوث علی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ دوسری مرتبہ پھر خواب میں آپ کا حکم دیا کہ مجھے یہاں سے نکال کر مشرق کی جانب لے چلو جہاں تمھارے قدم رک جائیں وہاں مزار بنا دینا۔ چنانچہ آپ کو وہاں سے نکال کر چارپائی پر رکھا گیا اور پھر اپنے سروں پر یہ چار پائی اٹھا کر روانہ ہوئے۔ ایک بلند ٹیلے پر آ کر ان دونوں کے قدم رک گئے چنانچہ وہیں آپ کو دفن کیا گیا۔ یہی آپ کا موجودہ مزار ہے۔ آپ کا مزار میانوالی شہر کے قدیم قبرستان میں واقع ہے جو آپ کے نام سے مشہور ہے جناب صاحبزادہ محمد عالم گیر شاہ کی کوششوں سے 2006ء میں آپ کا نیا مزار بنایا گیا ہے جس پر ایک انتہائی خوبصورت دروازه لگایا گیا ہے جو پیش قیمت لکڑی سے تیار کیا گیا ہے۔ [3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 84
  2. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 141 ، 142
  3. سرزمین اولیاء میانوالی مولف سید طارق مسعود شاہ صفحہ 84 تا 87