سلیم یوسف

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیم یوسف ٹیسٹ کیپ نمبر 91
ذاتی معلومات
پیدائش (1959-12-07) 7 دسمبر 1959 (عمر 64 برس)
کراچی، سندھ, پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 91)5 مارچ 1982  بمقابلہ  سری لنکا
آخری ٹیسٹ15 نومبر 1990  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
پہلا ایک روزہ (کیپ 40)12 مارچ 1982  بمقابلہ  سری لنکا
آخری ایک روزہ21 دسمبر 1990  بمقابلہ  سری لنکا
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ
میچ 32 86
رنز بنائے 1055 768
بیٹنگ اوسط 27.05 17.86
100s/50s -/5 -/4
ٹاپ اسکور 91* 62
گیندیں کرائیں
وکٹ
بولنگ اوسط
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ n/a
بہترین بولنگ
کیچ/سٹمپ 91/13 81/22
ماخذ: [1]، 4 فروری 2006

سلیم یوسف (پیدائش:7دسمبر 1959ءکراچی، سندھ) پاکستانی سابق کرکٹر تھے جنھوں نے 1980ء سے 1988ء تک 32 ٹیسٹ اور 86 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کھیلے۔ سلیم یوسف دائیں ہاتھ کے ایک بااعتماد بلے باز تھے جبکہ ان کا خصوصی شعبہ وکٹ کیپنگ تھا۔ وسیم باری کے بعد وہ پاکستان کے دوسرے وکٹ کیپر تھے جن کی چابکدستی اور وکٹ کے پیچھے متحرک کردار کو سبھی یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے علاوہ الائیڈ بینک، انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بینک آف پاکستان، کراچی، پاکستان کسٹم اور سندھ کی طرف سے بھی کرکٹ سے رشتہ نبھایا۔

ٹیسٹ کرکٹ[ترمیم]

سلیم یوسف کو 1982ء میں سری لنکا کے خلاف کراچی کے مقام پر ٹیسٹ کیپ دی گئی۔اس میں اس نے صرف 4 رنز بنائے پاکستان نے یہ ٹیسٹ 204 رنز سے جیت لیا تھا پہلے کھیلتے ہوئے میزبان ٹیم نے 396 رنز بنائے اس میں ہارون رشید کے 153 رنز شامل تھے جواب میں سری لنکا نے 344 رنز بنائے رنجن مدھوگالے 29 رنز پر راشد خان کی گیند سلیم یوسف کا پہلا شکار بنے سلیم یوسف نے اس کے ساتھ 4 مزید کیچ اور 2 اسٹمپ کیے سری لنکا کے خلاف اگلے ٹیسٹ میں سیالکوٹ میں اس نے وکٹوں کے ییچھے مزید 5 کیچ پکڑے یہ ٹیسٹ بھی پاکستان نے 8 وکٹوں سے جیت لیا تھا سلیم یوسف کی کامیابیوں کا سلسلہ مزید دراز ہوا جب اس نے کراچی کے آخری ٹیسٹ میں سری لنکا کو مزید مشکلات سے دوچار کیا۔ پاکستان نے یہ ٹیسٹ بھی 10 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ سری لنکا نے پہلے کھیلتے ہوئے 162 رنز بنائے۔ عبد القادر نے 44 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ سلیم یوسف نے رائے ڈیاس کو وکٹوں کے پیچھے کیچ کیا اور اسنتھا ڈی میل کو عبد القادر کی گیند پر سٹمپ کرکے پہلی اننگز میں 2 وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں پاکستان نے 295 رنز بنائے جس میں جاوید میانداد اور عمران خان کے 63، 63 جبکہ رمیز راجا کے 52 رنز شامل تھے۔ سری لنکا نے دوسری اننگ میں اروندا ڈسلوا کی سنچری کے ساتھ 230 رنز کا سکور بورڈ پر سجایا۔ سلیم یوسف نے دوسری اننگ میں 4 کھلاڑیوں کو مزید اپنا شکار بنایا۔ اس نے سداد ویٹمنی، اروندا ڈسلوا، ارجنا رانا ٹنگا اور اسنکا گورو سنھا کو کریز سے رخصت کرکے پاکستان کی جیت کی راہ ہموار کی۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے صرف 98 رنز کی ضرورت تھی جو اس نے بغیر کسی نقصان نے پورے کرلئے۔ اس کے بعد 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان میں سلیم یوسف نے عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا۔ فیصل آباد میں انھوں نے بیٹنگ میں 61 رنز بنانے کے علاوہ 3 کھلاڑیوں کو بھی شکار کیا۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 2 جبکہ کراچی کے ٹیسٹ میں 4 کھلاڑی ان کے ہتھے چڑھے۔ 1987ء کے مشہور دورہ بھارت میں بھی سلیم یوسف کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے کولکتہ کے ٹیسٹ میں 33 اور 43 جبکہ بنگلور میں 41 ناقابل شکست رنز بنائے جبکہ 8 کھلاڑیوں کو انھوں نے اس سیریز میں کیچ آئوٹ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ 1987ء میں جب پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو انھیں بھی ہمراہ لے جایا گیا۔ مانچسٹر اور لارڈز کے ٹیسٹوں میں ان کی باری نہ آسکی تاہم انھوں نے وکٹوں کے پیچھے 5 کیچ کرکے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ لیڈز کے تیسرے ٹیسٹ میں انھوں نے نہ صرف یہ کہ 37 رنز سکور کیے بلکہ وکٹوں کے پیچھے بھی عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا۔ انگلستان کی ٹیم پہلی اننگ میں 136 پر ڈھیر ہو گئی۔ ڈیوڈ کیپل 53 کے ساتھ ٹیم کی مدد نہ کرتے تو حشر اور بھی برا ہوتا۔ عمران خان، وسیم اکرم اور محسن کمال نے 3، 3 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ سلیم یوسف نے کرس براڈ 8، بل ایتھے 4، آئن بوتھم 26، نیل فاسٹر 9 اور فل ایڈمنڈ 0 کی اننگ کا خاتمہ اپنی شاندار وکٹ کیپنگ سے کیا۔ جبکہ جواب میں پاکستان نے 353 رنز سکور کیے تھے۔ سلیم ملک بدقسمتی سے 99 پر آئوٹ ہوئے جبکہ اعجاز احمد 50 اور وسیم اکرم 43 رنز کے ساتھ سکور میچ کو انگلستان سے بہت دور لے گئے۔ نیل فاسٹر کی تعریف کرنی پڑے گی جنھوں نے 107 رنز کے عوض 8 پاکستانی کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ دوسری اننگ میں بھی انگلستان کی ٹیم کی اننگ کے خسارے کو کم نہ کرسکی اور 199 پر ساری ٹیم ڈھیر ہو گئی۔ اس بار عمران خان نے 40 رنز دے کر 7 کھلاڑیوں کی اننگز کو ختم کیا تھا۔ سلیم یوسف کے حصے میں وکٹوں کے پیچھے صرف کرس براڈ 4 ہی کی وکٹ آئی تھی۔ پاکستان نے ایک اننگ اور 18 رنز سے انگلستان کو پچھاڑ دیا تھا۔ برمنگھم کے چوتھے ٹیسٹ میں سلیم یوسف خوب گرجے۔ انھوں نے 91 کی ناقابل شکست اننگ کھیل کر ٹیم کے سکور کو 439 تک پہنچانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ مدثر نذر 124 اور جاوید میانداد 75 نے بھی ٹیم کے سکور میں مدد دی۔ سلیم یوسف نے 152 گیندوں پر 182 منٹ میں 14 چوکوں کی مدد سے اپنی اننگ آگے بڑھائی۔ انگلستان نے اس بار پاکستانی بولرز کی خوب خبر لی۔اور مائیک گیٹنگ 124، ٹم رابنسن 80، جان ایمبری 58 اور کرس براڈ کے 54 کی مدد سے 521 رنز کا مجموعہ تشکیل دے دیا۔ سلیم یوسف نے 3 کھلاڑیوں کا راستہ روکا۔ پاکستان کی طرف سے عمران خان نے 129/6 اور وسیم اکرم نے 83/3 کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائی۔ پاکستان نے دوسری اننگ میں شعیب محمد 50 اور عمران خان 37 کے علاوہ کوئی بیٹسمین کریز پر ٹکنے میں ناکام رہا۔ سلیم یوسف نے 17 رنز بنائے تھے۔ پاکستان کی ٹیم نے دوسری اننگ میں 205 رنز بنا کر انگلستان کو جیتنے کے لیے 114 رنز کا ہدف دیا۔ مگر کم وقت کے باوجود انگلستان نے اس میچ کو جیتنے کے لیے بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں اس کی 7وکٹیں 109 رنز پر ڈھیر ہوگئیں۔ اس طرح یہ ٹیسٹ ڈرا ہو گیا۔ اوول کے آخری ٹیسٹ میچ میں سلیم یوسف نے 42 رنز بنانے کے علاوہ 2 انگلش کھلاڑیوں کو کریز سے رخصت کیا۔

1988ء کے کرکٹ سیزن اور اس سے آگے[ترمیم]

1988ء میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے دورے کی ٹھانی۔ جارج ٹائون کے پہلے ٹیسٹ میں سلیم یوسف نے 62 رنز بنانے کے علاوہ 4 کھلاڑیوں کی اننگز کو اختتام پزیر کرکے اپنے خطرناک ارادوں کا اظہار کیا۔ پورٹ آف سپین کے دوسرے ٹیسٹ میں بھی انھوں نے 39 اور 35 بنانے کے ساتھ 3 کھلاڑیوں کو وکٹوں کے پیچھے اور ایک کو سٹمپ کیا۔ برج ٹائون کے تیسرے ٹیسٹ میں ان کے ہتھے کوئی شکار نہ آیا مگر انھوں نے بیٹنگ میں 32 ناٹ آئوٹ اور 28 رنز ٹیم کو دیے۔ اسی سیزن میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو کراچی کے ٹیسٹ میں ایک کیچ اور 2 سٹمپ کے علاوہ انھوں نے بیٹنگ میں صرف 5 رنز بنائے تاہم فیصل آباد کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے میچ کی دونوں اننگز میں نصف سنچریوں کا جادو جگایا۔ انھوں نے 62 اور 66 ناٹ آئوٹ کی عمدہ باریاں کھیلیں۔ لاہور کے دوسرے ٹیسٹ میں 2 سٹمپ، 2 کیچ کے ساتھ اس نے اس سیریز کو نہایت اطمینان سے مکمل کیا۔ 1989ء میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا تو وکٹ کیپنگ شعبے میں انھوں نے خود سے منسوب توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کی۔ ولنگٹن ٹیسٹ میں 3 اور آکلینڈ میں 4 شکاروں کے ساتھ وہ سب کی نظروں میں آئے تاہم بھارت کے دورئہ پاکستان میں وہ کراچی کے واحد ٹیسٹ میں 36 رنز کی باری ہی کھیل پائے۔ اگلے سال 1990ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے کیے۔ یہ دورے ہر لحاظ سے سلیم یوسف کے لیے سودمند ثابت ہوئے۔ میلبورن کے ٹیسٹ میں سلیم یوسف نے بیٹنگ میں 16 اور 38 رنز بنانے کے علاوہ 4 کھلاڑیوں کی اننگ کا راستہ روکا۔ ایڈلیڈ میں 38 رنز کے ساتھ 2 شکار کیے تاہم سڈنی کے آخری ٹیسٹ میں وہ صرف 6 رنز بنا سکے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف اسی سیزن میں ہوم سیریز میں ان کی بیٹنگ میں صرف ایک 33 رنز کی نمایاں اننگ شامل تھی مگر وکٹوں کے پیچھے وہ ضرور متحرک دکھائی دیے۔ انھوں نے کراچی میں 3 کھلاڑیوں کو کیچ کیا تو لاہور ٹیسٹ میں ان کے شکار 5 رہے اور فیصل آباد کے آخری ٹیسٹ میں ان کے شکاروں کی تعداد 7 تک پہنچ گئی۔ تاہم اسی سیزن میں جب ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو انھیں کراچی کے پہلے ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے سکور 261 میں 3 کھلاڑیوں کو شکار کرنے کا موقع ملا۔ انھوں نے رچی رچرڈسن کو سٹمپ کرنے کے علاوہ گس لوگی اور آئن بشپ کے کیچز دبوچے۔ وقار یونس نے 76 رنز کے عوض 5 وکٹیں لے کر کالی آندھی کو کم سکور پر محدود رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ جواب میں پاکستان نے 345 رنز بنائے۔ سلیم ملک 102 اور شعیب محمد 86 کے ساتھ نمایاں سکورر تھے۔ ویسٹ انڈیز کی دوسری اننگ بھی 181 پر ختم ہو گئی۔ سلیم یوسف نے دونوں اوپنر کھلاڑیوں کو کریز سے رخصت کیا۔ اس نے گارڈن گرینج کو عبد القادر کی گیند پر کریز سے باہر نکلنے کی سزا سٹمپ کی صورت میں دی اور دوسرے اوپنر ڈسمنڈ ہینز کو وقار یونس کی گیند پر عمدہ کیچ کی شکل میں کریز سے رخصت کیا۔ پاکستان کو جیتنے کے لیے محض 98 رنز کا ہدف ملا تھا جو اس نے 2 وکٹوں پر پورا کرکے یہ ٹیسٹ 8 وکٹوں سے اپنے نام کیا۔ اس میچ کی فتح اس لحاظ سے بھی اہم کہی جا سکتی ہے کہ یہ سلیم ملک کا آخری ٹیسٹ تھا جس میں وہ شریک ہوئے۔

ون ڈے[ترمیم]

سلیم یوسف کو 1982ء میں سری لنکا ہی کے خلاف کراچی کے ایک روزہ میچ میں ون ڈے ڈیبیو کرنے کا موقع دیا گیا۔ جس میں وہ کوئی رنز بنانے میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ ابتدائی 11 میچوں میں وہ سری لنکا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز اور بھارت کے خلاف بیٹنگ میں کوئی زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے تاہم وکٹوں کے پیچھے انھوں نے 6 کیچ اور 6 سٹمپ کرکے سلیکٹرز کو مطمئن کیا۔ 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم گرائونڈ پر اس نے گوجرانوالہ اور حیدرآباد سندھ میں 23 ناٹ آئوٹ کی 2 باریاں کھیلیں جبکہ 1987ء کے عالمی کپ مقابلوں میں آسٹریلیا کے خلاف پرتھ میں 31 رنز ہی نمایاں نظر آئے۔ مجموعی طور پر ایک روزہ مقابلوں میں ان کی عمدہ کارکردگی کے لیے ہمیں 1990ء کے سیزن میں آسٹریلیا کے خلاف 59، بھارت کے خلاف 62 اور سری لنکا کے خلاف 46 رنز کی باریاں دیکھنی پڑیں گی جبکہ وکٹ کیپنگ کے شعبہ میں اس نے 1989ء میں بھارت کے خلاف لاہور میں 4، 1990ء میں سری لنکا کے خلاف ہوبارٹ میں 3، اسی سیزن میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی میں 3 شکار کیے۔ 1990ء میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف مسلسل چابکدستی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ان کا آخری کرکٹ سیزن تھا جس میں انھوں نے سری لنکا کے خلاف شارجہ میں اپنا آخری ایک روزہ میچ کھیلا جس میں اس نے 14رنز بنانے کے علاوہ وکٹوں کے پیچھے 2 اور ایک کو سٹمپ کیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد[ترمیم]

ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی میں خدمات انجام دیں۔ وہ اس وقت پاکستان کسٹمز سروس میں پرنسپل اپریزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس وقت پی ایس ایل کی فرنچائز کراچی کنگز کے ایڈوائزری بورڈ کے ارکان میں سے ایک ہیں[1]

اعداد و شمار[ترمیم]

سلیم یوسف نے 32 ٹیسٹ میچوں کی 44 اننگز میں 5 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1055 رنز سکور کیے۔ 27.05 کی اوسط سے بنائے جانے والے ان مجموعی رنزوں میں ناقابل شکست رہ کر 91 رنز ان کی کسی ایک انفرادی اننگ کا بہترین مجموعہ بنا۔ 5 نصف سنچریاں بھی ان میں شامل ہیں۔ اسی طرح 86 ایک روزہ بین الاقوامی میچز کی 62 اننگز میں 19 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 62 ہی کی بہترین انفرادی اننگز کے ساتھ انھوں نے 768 رنز بنائے۔ انھیں فی اننگز 17.86 کی اوسط حاصل ہوئی جس میں 4 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ سلیم یوسف نے 119 فرسٹ کلاس میچز کی 183 اننگز میں 23 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 145 ناقابل شکست رنز کی بہترین انفرادی باری کھیل کر 4278 رنز سکور کیے جس میں انھیں 6 سنچریوں اور 20 نصف سنچریوں کی مدد شامل تھی جس کی اوسط 28.43 نظر آئی۔ سلیم یوسف نے ٹیسٹ میچوں میں 91 کیچ اور 13 سٹمپ شکار کیے جبکہ ایک روزہ بین الاقوامی میچز میں ان کے شکاروں کی تعداد 103 رہی جس میں 81 کیچز اور 22 سٹمپ شامل تھے۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 298 کیچ اور 41 سٹمپ کرنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ سلیم یوسف کے پاس ایک عالمی ریکارڈ بھی موجود ہے جس میں انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف 1990ء میں لاہور کے مقام پر نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں 3 کھلاڑیوں کو سٹمپ کیا تھا جو اب تک قائم ہے۔ اسی طرح وہ سلیم یوسف اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں جس میں کسی وکٹ کیپر نے ایک اننگ میں وکٹوں کے پیچھے بائیز کے زیادہ رنز دیے ہوں۔ انھوں نے 1986ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں بننے والے 202/5 رنزوں میں 16 ایسے رنز دیے جو بائیز کے تھے۔ اس فہرست میں سب سے زیادہ بائیز رنز دینے کا ریکارڈ بھی ایک پاکستانی وکٹ کیپر اشرف علی کے پاس ہے جنھوں نے 1980ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیالکوٹ ٹیسٹ میں 201/3 کے سکور میں 20 بائیز کے رنز دینے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]