سوائن فلو سب سے پہلے 2009ء میں سامنے آیا۔ اس کا ماخذ خنزیر تھے۔ اس سے متاثر ہونے والوں کی بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جن کا براہ راست واسطہ خنزیروں سے پڑتا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسے ’’پِگ وائرس‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ سوائن انفلوئنزا وائر س کی متعدد اقسام میں سے کوئی ایک بھی اس کا سبب بن سکتی ہے۔ ایچ ون این ون انفلوئنزا وائر س اس کی وہ قسم ہے جو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔ 2009ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے وبائی مرض قرار دیا۔ اسی برس جانوروں میں پائی جانے والی اس عمومی بیماری کے انسانوں میں سرایت کرنے کا انکشاف ہوا تھا۔ تاہم 2010ء میں ڈبلیو ایچ او کی جانب سے اس وبا کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا اور اس کے بعد سے اس کا شمار عام قسم کے فلو میں کیا جاتا ہے۔ چونکہ اس بیماری کے جراثیم چھوت کی خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں اس لیے بڑی آسانی سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ سوائن فلو سے بچاؤ کی ویکسین کو انفلوائنزا سے بچاؤ کی روایتی ویکسینز میں شامل کیا جا چکا ہے۔ اب دنیا کے اکثر ممالک میں اسے وبائی شکل اختیار کرنے سے روکنے کا انتظام موجود ہے۔[2]
اس مرض کی اہم وجہ وہ مویشی ہوتے ہیں جن میں یہ مرض نزلہ زکام کی صورت میں شروع ہوتا ہے۔ اس کے جراثیم متاثرہ جانور کی سانس کے ذریعے فضاء میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر سانس کے ذریعے فضاء سے انسان کے پھیپھڑوں میں چلے جاتے ہیں۔ شروع میں نزلہ زکام ہوتا ہے اور جب جراثیم کا حملہ بڑھتا ہے تو بات سوائن فلو تک پہنچ جاتی ہے۔