سورہ الرحمٰن
سورة الرحمن ar-Rahman سورت الرحمن | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مدنی |
عددِ پارہ | 27 واں پارہ |
اعداد و شمار | 78 آیات, 352 الفاظ, 1585 حروف |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 55 ویں سورت جس کے 3 رکوع میں 78 آیات ہیں۔
نام
پہلے ہی لفظ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جو لفظ الرحمٰن سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم اس نام کو سورت کے مضمون سے بھی گہری مناسبت ہے، کیونکہ اس میں شروع سے آخر تک اللہ تعالٰی کے مظاہر و ثمرات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
زمانۂ نزول
علمائے تفسیر بالعموم اس سورت کو مکی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ بعض روایات میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور عکرمہ اور قتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، لیکن اول تو انہی بزرگوں سے بعض دوسری روایات اس کے خلاف بھی منقول ہوئی ہیں، دوسرے اس کا مضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی صورتوں سے زیادہ مشابہ ہے، بلکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور کی معلوم ہوتی ہے۔ اور مزید برآں متعدد معتبر روایات سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ ہی میں ہجرت سے کئی سال قبل نازل ہوئی تھی۔ مسند احمد میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حرم میں خانہ کعبہ کے اس گوشے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے دیکھا جس میں حجر اسود نصب ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جبکہ ابھی فاصدع بما تومر (جس چیز کا تمھیں حکم دیا جا رہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو) کا فرمانِ الٰہی نازل نہیں ہوا تھا۔ مشرکین اس نماز میں آپ کی زبان سے فبای اٰلآءِ ربکما تکذبٰن کے الفاظ سن رہے تھے "۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سورت سورۂ الحجر سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ البزار، ابن جریر، ابن المنذر، دارقطنی (فی الافراد)، ابن مدویہ اور الخطیب (فی التاریخ) نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سورۂ رحمٰن خود تلاوت فرمائی یا آپ کے سامنے یہ سورت پڑھی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ: "کیا وجہ ہے کہ میں تم سے ویسا اچھا جواب نہیں سن رہا ہوں جیسا جنوں نے اپنے رب کو دیا تھا؟" لوگوں نے عرض کیا وہ کیا جواب تھا؟ آپ نے فرمایا "جب میں نے اللہ تعالٰی کا ارشاد فبای اٰلآء ربکما تکذبٰن پڑھتا تو جن اس کے جواب میں کہتے جاتے تھے لا بشی من نعمۃ ربنا تکذب ہم اپنے رب کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ " اسی سے ملتا جلتا مضمون ترمذی، حاکم اور حافظ ابو بکر بزار نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے۔ ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں جب لوگ سورۂ رحمٰن کو سن کر خاموش رہے تو حضور نے فرمایا لقد قراتھا علی الجن لیلۃ الجن فکانو احسن مردودا منکم، کنت کلما اتیت علٰی قولب فبای اٰلآءِ ربکما تکذبان قالو لا بشیء من نعمک ربنا تکذب فلک الحمد۔ یعنی "میں نے یہ سورت اس رات جنوں کو سنائی تھی جس میں وہ قرآن سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ وہ اس کا جواب تم سے بہتر دے رہے تھے۔ جب میں اللہ تعالٰی کے اس ارشاد پر پہنچتا تھا کہ اے جن و انس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے اے ہمارے پروردگار، ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، حمد تیرے ہی لیے ہے۔ " اس روایت سے معلوم ہوا ہے کہ سورۂ احقاف (آیات 29 تا 32) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے جنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ بیان کیا گيا ہے، اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز میں سورۂ رحمٰن تلاوت فرما رہے تھے۔ یہ 10 نبوی کا واقعہ ہے جب آپ سفر طائف سے واپسی پر نخلہ میں کچھ مدت ٹھیرے تھے۔ اگرچہ بعض دوسری روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ معلوم نہ تھا کہ جن آپ سے قرآن سن رہے ہیں بلکہ بعد میں اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ خبر دی کہ وہ آپ کی تلاوت سن رہے تھے، لیکن یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے جس طرح اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنوں کی سماعتِ قرآن پر مطلع پر مطلع فرمایا تھا اسی طرح اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ اطلاع بھی دے دی ہو کہ سورۂ رحمٰن سنتے وقت وہ اس کا کیا جواب دیتے جا رہے تھے۔ ان روایات سے تو صرف اسی قدر معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ رحمن سورۂ حجر اور سورۂ احقاف سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ اس کے بعد ایک اور روایت ہمارے سامنے آتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ ابن اسحاق حضرت عروہ بن زبیر سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک روز صحابۂ کرام نے آپس میں کہا کہ قريش نے کبھی کسی کو علانیہ با آواز بلند قرآن پڑھتے نہیں سنا ہے، ہم میں کون ہے جو ایک دفعہ ان کو یہ کلام پاک سنا ڈالے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے کہا میں یہ کام کرتا ہوں۔ صحابہ نے کہا ہمیں ڈر ہے کہ وہ تم پر زیادتی کریں گے۔ ہمارے خیال میں کسی ایسے شخص کو یہ کام کرنا چاہیے جس کا خاندان زبردست ہو، تاکہ اگر قریش کے لوگ اس پر دست درازی کریں تو اس کے خاندان والے اس کی حمایت پر اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت عبد اللہ نے فرمایا مجھے یہ کام کر ڈالنے دو، میرا محافظ اللہ ہے۔ پھر وہ دن چڑھے حرم میں پہنچے جبکہ قریش کے سردار وہاں اپنی اپنی مجلسوں میں بیٹھے تھے۔ حضرت عبد اللہ نے مقام ابراہیم پر پہنچ کر پورے زور سے سورۂ رحمٰن کی تلاوت شروع کر دی۔ قریش کے لوگ پہلے تو سوچتے رہے کہ عبد اللہ کیا کہہ رہے ہیں۔ پھر جب انھیں پتہ چلا کہ یہ وہ کلام ہے جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں تو وہ ان پر ٹوٹ پڑے اور ان کے منہ پر تھپڑ مارنے لگے۔ مگر حضرت عبد اللہ نے پروا نہ کی۔ پٹتے جاتے تھے اور پڑھتے جاتے تھے۔ جب تک ان کے دم میں دم رہا قرآن سناتے چلے گئے۔ آخر کار جب وہ اپنا سو جا ہوا منہ لے کر پلٹے تو ساتھیوں نے کہا ہمیں اسی چیز کا ڈر تھا۔ انھوں نے جواب دیا آج سے بڑھ کر یہ خدا کے دشمن میرے لیے کبھی ہلکے نہ تھے، تم کہو تو کل پھر انھیں قرآن سناؤں۔ سب سے کہا، بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو کچھ وہ نہیں سننا چاہتے تھے وہ تم نے انھیں سنا دیا [1]
موضوع اور مضمون
قرآن مجید کی یہ ایک ہی سورت ہے جس میں انسان کے ساتھ زمین کی دوسری با اختیار مخلوق، جنوں کو بھی براہ راست خطاب کیا گيا ہے اور دونوں کو اللہ تعالٰی کی قدرت کے کمالات، اس کے بے حد و حساب احسانات، اسی کے مقابلے میں ان کی عاجزی و بے بسی اور اس کے حضور ان کی جواب دہی کا احساس دلا کر اس کی نافرمانی کے انجامِ بد سے ڈرایا گیا ہے اور فرماں برداری کے بہترین نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر ایسی تصریحات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی طرح جن بھی ایک ذی اختیار اور جواب دہ مخلوق ہیں جنہیں کفر و ایمان اور طاقت و عصیان کی آزادی بخشی گئی ہے اور ان میں بھی انسانوں ہی کی طرح مومن اور مطیع و سرکش پائے جاتے ہیں اور ان کے اندر بھی ایسے گروہ موجود ہیں جو انبیا علیہم السلام اور کتبِ آسمانی پر ایمان لائے ہیں، لیکن یہ سورت اس امر کی قطعی صراحت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن مجید کی دعوت جن اور انس دونوں کے لیے ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے۔ سورت کے آغاز میں تو خطاب کا رخ انسانوں کی طرف ہی ہے، کیونکہ زمین کی خلافت انہی کو حاصل ہے، خدا کے رسول انہی میں آئے اور خدا کی کتابیں انہی کی زبانوں میں نازل کی گئی ہیں، لیکن آگے چل کر آیت 13 سے انسان اور جن دونوں کو یکساں مخاطب کیا گیا ہے اور ایک ہی دعوت دونوں کے سامنے پیش کی گئی ہے۔ سورت کے مضامین چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک خاص ترتیب سے ارشاد ہوئے ہیں : آیت 1 سے 4 تک یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ اس قرآن کی تعلیم اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے اور یہ عین اس کی رحمت کا تقاضا ہے کہ وہ اس تعلیم سے نوعِ انسانی کی ہدایت کا سامان کرے، کیونکہ انسان کو ایک ذی عقل و شعور مخلوق کی حیثیت سے اسی نے پیدا کیا ہے۔ آیت 5-6 میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ تعالٰی کی فرمانروائی میں چل رہا ہے اور زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تابع فرمان ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نہیں ہے جس کی خدائی چل رہی ہو۔ آیت 7-9 میں ایک دوسری اہم حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالٰی نے کائنات کے اس پورے نظام کو ٹھیک ٹھیک توازن کے ساتھ عدل پر قائم کیا ہے اور اس نظام کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اس میں رہنے والے اپنے حدودِ اختیار میں بھی عدل ہی پر قائم ہوں اور توازن نہ بگاڑیں۔ آیت 10 سے 25 تک اللہ تعالٰی کی قدرت کے عجائب و کمالات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ان نعمتوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں جن سے انسان اور جن متمتع ہو رہے ہیں۔ آیت 26 سے 30 تک انسان اور جن دونوں کو یہ حقیقت یاد دلائی گئی ہے کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سوا کوئی غیر فانی اور لازوال نہیں ہے اور چھوٹے سے بڑے تک کوئی موجود ایسا نہیں جو اپنے وجود اور ضروریات وجود کے لیے خدا کا محتاج نہ ہو۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے اسی کی کار فرمائی سے ہو رہا ہے۔ آیت 31 سے 36 تک ان دونوں گروہوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب تم سے باز پرس کی جائے گی۔ اس باز پرس سے بچ کر تم کہیں نہیں جا سکتے۔ خدا کی خدائی تمھیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس سے نکل کر بھاگ جانا تمھارے بس میں نہیں ہے۔ اگر تم اس گھمنڈ میں مبتلا ہو کہ اس سے بھاگ سکتے ہو تو بھاگ کر دیکھو۔ آیت 37-38 میں بتایا گیا ہے کہ یہ باز پرس قیامت کے روز ہونے والی ہے۔ آیت 39 سے 45 تک ان مجرم انسانوں اور جنوں کا انجام بتایا گیا ہے جو دنیا میں اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرتے رہے ہیں۔ اور آیت 46 سے آخر سورت تک تفصیل کے ساتھ وہ انعامات بیان کیے گئے ہیں جو آخرت میں ان نیک انسانوں اور جنوں کو عطا کیے جائیں گے جنھوں نے دنیا میں خدا ترسی کی زندگی بسر کی ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کام کیا ہے کہ ہمیں ایک روز اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ پوری تقریر خطابت کی زبان میں ہے۔ ایک پرجوش اور نہایت بلیغ خطبہ ہے جس کے دوران میں اللہ تعالٰی کی قدرت کے ایک ایک عجوبے اور اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک ایک نعمت اور اس کی سلطانی و قہاری کے مظاہر میں سے ایک ایک مظہر اور اس کی جزا و سزا کی تفصیلات میں سے ایک ایک چیز کو بیان کر کے بار بار جن و انس سے سوال کیا گیا ہے کہ فبای اٰلآءِ ربکما تکذبان۔
حوالہ جات
- ↑ سیرت ابن ہشام، جلد اول، ص 336