سومرہ خاندان
سومرہ خاندان فارسی: خانوادهٔ سومرگان | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1026ء–1351ء (عمر کوٹ میں 1440ء تک جلاوطنی میں رہے۔) | |||||||||
دار الحکومت | تھری | ||||||||
سرکاری زبانیں | فارسی[و 1] | ||||||||
عمومی زبانیں | سندھی (مقامی زبان) عربی (مذہبی زبان) | ||||||||
حکومت | بادشاہت | ||||||||
تاریخ | |||||||||
• | 1026ء | ||||||||
• | 1351ء (عمر کوٹ میں 1440ء تک جلاوطنی میں رہے۔) | ||||||||
| |||||||||
موجودہ حصہ | سندھ |
سومرہ خاندان (فارسی: سومرگان) نے سندھ پر غزنویوں کی حکومت کمزور ہونے کے بعد اس پر قبضہ کیا۔ مورخین کا سومروں کی قومیت اور مذہب میں اختلاف ہے۔
تاریخ
[ترمیم]سلطان محمود غزنوی نے ملتان اور سندھ پر فتح حاصل کرنے کے بعد وہاں اپنے عامل مقرر کیے، لیکن محمود کی وفات کے بعد جب سلطنت ان کی ذُرِیات میں منتقل ہوئی اور سلطان عبد الرشید بن محمود (441ھ – 444ھ) صاحب تخت و تاج ہوئے تو ان کی سلطنت بد وضعی اور آرا طلبی میں پڑ کر ضعیف ہو گئی، جس کی وجہ سے سرحدی علاقے کے لوگوں نے بغاوت کر کے خود اختیاری حاصل کرلی۔[1]
اسی زمانہ میں سومرہ قبیلہ کے لوگوں نے تھری کے شہر میں جمع ہو کر اپنے قبیلہ کے ایک شخص سومره نامی کو تخت پر بٹھایا اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا، ایک طویل عرصہ تک یہ قبیلہ اس سرداری میں زندگی بسر کرتا رہا، سومرہ نے اسی نواح کے صاد (سعد) نامی ایک زمین دار کی لڑکی سے شادی کی، جس سے ایک لڑکا بھونگر نامی پیدا ہوا۔[2]
محمد طور (مہاتم تور) نامی شہر ان کا راجدھانی تھا۔[3]
مذہب
[ترمیم]سندھ کے مورخ میر طاہر محمد نسیانی نے تاریخ طاہری میں یہ خیال ظاہر کیا کہ سومرہ قبیلہ ہندو حاکم خاندان تھا۔[4] نبی بخش بلوچ اس کی تردید کرتے ہوئے اسے غیر محققانہ قرار دیتے ہیں۔[5]
مورخ، میر علی شیر قانع ٹھٹوی کی رائے ہے کہ سومرہ قوم سامرہ کے عربوں سے نکلی ہے اور یہ قوم آل تمیم قبیلہ کے ساتھ دوسری صدی ہجری میں سندھ میں آئی۔[6]
اعجاز الحق قدوسی تمام آرا نقل کر کے لکھتے ہیں کہ سومرے نہ تو ہندو تھے اور نہ ہندو راجبوت، بلکہ وہ عرب تھے جو ہندوستان میں آباد ہو گئے تھے اور نسل در نسل یہاں رہ کر یہیں کے باسی شمار ہونے لگے تھے۔[7]
نبی بخش بلوچ تاریخ طاہری کی توضیح میں لکھتے ہیں کہ سومرہ دوسرے قبیلوں کی طرح سندھ میں اصلا ہندو مت یا بدھ مت کے پیرو تھے یہاں تک کہ اس علاقہ کو محمد بن قاسم نے فتح کر لیا اور اس علاقہ میں اسلام پھیل گیا، چنانچہ سمہ، سہتہ اور لوہانہ وغیرہ عرب حکمرانوں کے اثر سے مشرف بہ اسلام ہو گئے، سومرہ قبیلہ کے لوگوں نے بھی اپنی حکومت سے بہت پہلے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا۔[8]
سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ سومرے ابتدا میں اسماعیلیہ تھے۔[9]
صاحب جنت السندھ کا خیال ہے کہ امیر سومرہ وہ پہلے شخص تھے جو سنی مشائخ کے ہاتھ پر اسماعیلیت سے توبہ کر کے سنی ہو گئے تھے۔[10]
حوالہ جات
[ترمیم]حواشی
[ترمیم]- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 412.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 413.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 413.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 413.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 417.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 417.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 413.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 417.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 415.
- ↑ قدوسی (2004)، ج. 1، ص. 421.
ویب حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Sind Quarterly" (بزبان انگریزی). مظہر یوسف. 11 Nov 1981 – via گوگل کتب.
{{حوالہ رسالہ}}
: الاستشهاد بدورية محكمة يطلب|دورية محكمة=
(help)
کتابیات
[ترمیم]- اعجاز الحق قدوسی (2004)۔ تاریخ سندھ (چھٹا ایڈیشن)۔ لاہور: اردو سائنس بورڈ