سوید بن صامت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سوید بن صامت یہ شاعر تھے۔. گہری سوجھ بوجھ کے حامل اور یثرب کے باشندے تھے۔. ان کی پختگی ، شعر گوئی اور شرف ونسب کی وجہ سے ان کی قوم نے انھیں کامل کا خطاب دے رکھا تھا۔. یہ حج یا عمرہ کے لیے مکہ آئے۔. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی۔. کہنے لگے۔. "غالباً آپ کے پاس جو کچھ ہے وہ ویسا ہی ہے جیسا میرے پاس ہے۔."

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔. "تمھارے پاس کیا ہے۔.؟" سوید نے کہا۔. "حکمتِ لقمان۔." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔. "پیش کرو۔." انھوں نے پیش کیا۔.

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔. "یہ کلام یقینا اچھا ہے لیکن میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے بھی اچھا ہے۔. وہ قرآن ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کیا ہے۔. وہ ہدایت اور نور ہے۔." اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں قرآن پڑھ کر سنایا اور اسلام کی دعوت دی۔. سوید بولے۔. "یہ تو بہت ہی اچھا کلام ہے۔." اور اسلام قبول کر لیا۔.

اس کے بعد وہ مدینہ پلٹ کر آئے ہی تھے کہ جنگ بُعاث سے قبل اوس و خزرج کی ایک جنگ میں قتل کر دیے گئے۔. اغلب یہ ہے کہ انھوں نے 11 نبو ی کے آغاز میں اسلام قبول کیا تھا۔.[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. قاموس المشاہیر،نظامی بدایونی،جلد اول صفحہ 294،نظامی پریس بدایوں 1924ء