سہرانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سہرانی بلوچ
زبانیں
بلوچی زبان، سندھی زبان، سرائیکی زبان، اردو زبان
مذہب
اسلام
متعلقہ نسلی گروہ
بلوچ

"سہرانی" ایک بلوچ قبائل کا نام ہے۔ سہرانی پاکستان کے علاوہ بھی کئی ممالک میں آباد ہیں پاکستان میں سندھ کے شہر کندھ کوٹ، گھوٹکی، کراچی , حیدرآباد اور پنجاب میں ڈیرہ غازی خان، مظفرگڑھ ،ملتان ،لیہ اور راجن پور بلوچستان میں سبی خیبرپختونخوا میں اٹک اور بنوں میں کافی سہرانی خاندان آباد ہیں

ڈیرہ غازیخان[ترمیم]

سہرانی ایک قبیلہ ہے۔ پاکستان میں پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان میں جامپور روڈ نزد پل شوریہ واقع ہے، جہاں ایک علاقہ بستی سہرانی کے نام سے جانا جاتا ہے اور 15000 افراد پر مشتمل ہے۔

ضلع راجن پور[ترمیم]

سہرا نی ایک بہت ہی بڑا بلوچ قبیلہ ہے جو پنجاب کے ضلع راجن پور میں مختلف موضوات میں آباد ہے جس میں لعل گھڑ ہ، لنڈی سیداں، تمن گورچانی، چک شیہد ،حاجی پور  ،فاضل پور ،عاقل پور، راجن پور ، شکار پور ،فتح پور راجن پور تمن گورچانی میں سہرا نی قبیلے تین بڑے شاخ ہیں میرکھنی، موسا نی ، ہرنانی  اور مزید شاخیں بھی شامل ہیں۔  راجن پور میں  سہرا نی قبیلہ  گورچانی (گور شا نی ) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے  کیوں کے سہرا نی قبیلہ کئی صدیوں سے تمن گورچانی کے علاقے میں آباد ہے گورچانی (گور شا نی) قبائل میں  سہرا نی ،پتافی کی بہت ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہاں رہنے والے سہرانی قبیلے کی مادری زبان بلوچی ہے اور مقامی زبان سرائیکی ہے۔

بلوچستان[ترمیم]

سہریانی بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والا ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جو بلوچستان میں آباد ہے اس   کی زیادہ تر اکثریت بلوچی زبان بولتے ہیں۔

یہ قبیلہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں سبی، کوئٹہ اور ڈیرہ مراد۔لیکن یہ سہریانی قبیلے کی سب سے زیادہ آبادی گاؤں مل سہریانی  میں  پائی جاتی ہے۔ جہاں پر کم سے کم تین سو  گھر  ہیں ۔ یہ علاقہ مل سہریانی سبی سے  28کلومیٹر دورجنوب مشرق میں واقع ہے جہاں پر بہت ہی بڑا موضع ہے  جو سہریانی برادری کا اپنا ہے ۔ اس میں زیادہ تر اکثریت سہریانی قبیلے کی ہے اور یہ  موضع ضلع بولان میں آتا ہے۔ اس حلقے کے حساب سے

اس طرح کہی کافی آبادی والا گاؤں مٹھڑی ہے جو ایک بہت ہی بڑا گاؤں ہے۔ سہریانی مل سہریانی کے علاوہ مسو کے گاؤں میں بھی  سہریانی آباد ہیں۔

موضع مل سہریانی میں جو خاندان آباد ہیں پھر وہ  مختلف خاندانوں میں تقسیم ہو گئے ہیں  قادوخیل،سہرابزئی، چاکرانی،مزارانی اور میڑدازئی

لیہ[ترمیم]

پاکستان کے باقی اضلاع کی طرح ضلع لیہ میں بھی سہرانی قوم کافی تعداد میں آباد ہے۔اگر لیہ میں آباد سہرانی قوم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تو ایک خاتون جو گرمانی قوم سے تعلق رکھتی تھیں ان کی شادی سہرانی قوم میں ہوئی اور وہ دائی کا کام کرتی تھی۔وہ 1857 میں انگریزوں کے خوف سے اپنے معصوم بیٹے کو کپڑے میں لپیٹ کے جس کی عمر اس وقت ایک سال تھی چوک قریشی (ضلع مظفر گڑھ) سے اپنے بیٹے جس کا نام عمر علی تھا کو ساتھ لے کر اپنے بھائی کے گھر تونسہ شریف(ضلع ڈیرہ غازی خان) آ کر رہائش اختیار کر لی۔تونسہ شریف اس وقت شدید پانی کی قلت کا شکار ہوتا تھا اور اپریل،مئی کے مہینوں میں تونسہ کے لوگ گندم اور جو وغیرہ کی کے لیے دیہاتوں (بیٹ) کا رخ کرتے تھے۔اس وجہ سے عمر علی کی والدہ اپنے بھائی اور بیٹے کے ہمراہ بیٹ زور (جو ضلع لیہ کا ایک گاؤں ہے ) گندم کاٹنے کے لیے گئے پر زؤر قوم کافی تعداد میں آباد تھی تو انھوں نے عمر علی اور اس کی والدہ کو رہائش دے دی۔ وہاں ایک شخص جس کا نام قادر بخش تھا جو زؤر قوم سے تعلق رکھتے تھے انھوں نے عمر علی کی والدہ کو منہ بولی بہن بنا لیا اور ان کی تمام تر ذمہ داری اپنے ذمہ لے لی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمر علی بھی بڑا ہوتا گیا۔جب وہ جوان ہوا تو  قادر بخش زؤر نے عمر علی کو اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا۔عمر علی کے تین بیٹے ہوئے ان تینوں بیٹوں  میں سے ایک کا ایک بیٹا ہوا ، ایک کے چار بیٹے ہوئے اور ایک کے دو بیٹے تھے ۔ یہاں سے لیہ میں سہرانی قوم کی شاخ پھیلی جو آج کے دور میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لیہ میں آباد سہرانی قوم  میں اضافہ ہوتا گیا۔اب ضلع لیہ میں (لیہ،جیسل،موضع زؤر ، مو1ع گاڈی ،کوٹ سلطان،پہاڑ پور) میں سہرانی قوم بہت ہی کثرت تعداد میں آباد ہے۔اس کے علاوہ کوٹ سلطان سے مغرب کی طرف دریائے سندھ کے دونوں اطراف میں سہرانی قوم کے قبائل آباد ہیں۔ دریائی کٹاؤ کے باعث دریا کے ساتھ رہنے والے سہرانی قوم کے لوگ نکل مکانی کرتے رہے ہیں۔اس وقت لیہ میں دو سو کے قریب خاندان آباد ہیں۔جو تقریباً پچیس سو افراد پر مشتمل ہیں اس کے علاؤہ سہرانی قوم کے کافی خاندان تونسہ شریف میں بھی آباد ہیں۔ ان کا تعلق لیہ میں رہنے والے سہرانی قوم سے ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قبائلی لوگوں میں بھی تعلیم کا شعور پیدا ہوا اور اب کافی تعداد میں لوگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔یہاں کے مکینوں میں عام طور پر سرائیکی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان کے جو مشہور خاندان ہیں وہ سنوارا خان کی اولاد ، قاضی ، شیرن خان کی اولاد ، خانن خان کی اولاد اور اس کے علاؤہ بھی کافی خاندان آباد ہے جو اپنے بڑوں کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ جس طرح اس قوم میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح شعور بھی آتا جا رہا ہے ۔ اس قوم کے کچھ نوجوان سہرانی بلوچ اتحاد کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد اقبال سہرانی اور ان کی ٹیم کے توسط سے اپنی قوم کو اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں توقیر احمد سہرانی ( رکن تحریک سہرانی بلوچ اتحاد کونسل و آل پاکستان سہرانی اتحاد )، سیف خان سہرانی (رکن سہرانی بلوچ اتحاد کونسل) ، ایوب خان سہرانی ، حافظ اقبال سہرانی ، حفیظ سہرانی ، غلام شبیر سہرانی ، اجمل سہرانی ، ابرار سہرانی ، فوجی غلام عباس سہرانی ، رشید سہرانی و دیگر۔

حوالہ جات[ترمیم]

بلوچ قبائل