روزنامہ سیاست
سیاست (اخبار) : حیدر آباد دکن سے شائع ہونے والا ایک معروف اخبار ہے۔ اس کے مدیر زاہد علی خان ہیں۔اس اخبار کے بانی عابد علی خان تھے۔ انھوں نے محبوب حسین جگر کی مصاحبت میں مل کر یہ اخبار 1948ء میں قائم کیا تھا۔
تاسیسی دور اور اخبار کی سرگرمیاں
[ترمیم]ریاست حیدرآباد دکن جس کا جغرافیائی نقشہ ہر دور میں بدلتا رہا، 17 ستمبر 1948ء تک جب بھارتی فوج نے نظام کی حکومت کا خاتمہ کیا، اس وقت تک بھی ایک عظیم رقبہ پر پھیلا ہوا۔ یہ 86 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا تھا انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ تھا۔ 1923ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد اگرچیکہ اسلامی مملکتیں جو باقی تھیں سعودی عرب' افغانستان و ایران وغیرہ پر مشتمل تھیں لیکن خوش حالی و شان و شوکت کے لحاظ سے ریاستِ حیدرآباد کو جو بین الاقامی مقام تھا اس کا ذکر آج بھی انگریز مصنفین کی تصانیف میں موجود ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیاٹن نے اپنی سوانح حیات میں تذکرہ کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب انگلستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا، ایسے وقت میں نواب میر عثمان علی خان کے گراں قدر عطیات نے بڑی حد تک سہارا دیا۔ مکہ اور مدینہ کے پانی اور بجلی کے خرچ بھی ریاستِ حیدرآباد نے اپنے ذمے لے رکھے تھے اور اس عظیم مقصد کے لیے " مدینہ بلڈنگ " کے نام سے شان دار عمارتیں جو آج بھی باقی ہیں مکہ اور مدینہ کے لیے وقف تھیں جن کے کرایے مکہ اور مدینہ کو بھیجے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ حاجیوں کو رہنے کے لیے رباط کے نام سے نظام نے مکہ اور مدینہ میں حرمین سے قریب عمارتیں بنوادی تھیں۔ریاستٓ حیدرآباد کی خصوصیت تھی کہ یہ ہمیشہ امن و آشتی کا علمبردار ' ہندو مسلم یکجہتی کی مثال اور علم و ادب نوازی کی ایک ایسی مثال تھا جس کو دنیا تمام کے علمأ و دانشور مفکرین و مورخین نے آکر اپنی خدمات سے مزید چار چاند لگائے۔[1]
حیدرآباد کی اس ریاست کے کھو جانے کے بعد یہاں کے مسلمان خود اعتمادی بھی کھو چکے تھے۔ اخبار سیاست نے اولًا حیدرآبادی مسلمانوں میں خود اعتمادی قائم کی۔ اس کے بعد اس اخبار نے اپنے ابتدائی سالوں میں گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اس نے اردو کو ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں کی مشترکہ زبان قرار دیا تھا۔ باہمی میل ملاپ اور رواداری کے کئی واقعات کو اخبار میں نمایاں مقام دیا۔ اس کے علاوہ چوں کہ اخبار کے بانی عابد علی خان بائیں محاذ کے خیالات سے بے حد متاثر تھے، اس لیے وہ معتدل زبان اور عدم تشدد کی باتیں زیادہ کرتے آئے تھے جو اس دور کے اردو اخبارات میں کم ہی دیکھا جاتا تھا۔ سیاست اخبار نے کئی رفاہی کام انجام دیے۔ ان میں پکوان، خیاطی، خطاطی اور کئی پیشہ ورانہ موضوعات پر مفت یا رعایتی شرح پر کلاسیس کروائے۔ کئی مصببت زدہ لوگوں کے لیے اپنے اخبار اور قارئین کے ذریعے چندے جمع کرواکر مدد کی۔ ایسی ہی مدد آفات سماوی اور فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے وقت کی گئی۔ 2002ء کے گجرات فسادات اور 2005ء میں جموں اور کشمیر میں آئے زلزلے کے متاثرین کی بھی قارئین نے اخبار کے ذریعے مدد کی تھی۔