سید احمد شاہ سری کوٹی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مولانا سید احمد شاہ سری کوٹی خیبر پختونخوا کی مشہور اور بزرگ شخصیت ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

مولانا سید احمد۔لقب:عمدۃ العلماء، زبدۃ الاصفیاء۔موضع’’سری کوٹ‘‘علاقہ کی نسبت سے’’سری کوٹی‘‘کہلاتے ہیں۔

سلسلۂ نسب[ترمیم]

سید احمد شاہ بن سیدصدرالدین شاہ۔آپ خاندان ِ ساداتِ کے چشم و چراغ تھے۔آپ کاعلاقہ موضع سری کوٹ ہریپور ہزارہ سے پینتیس کلومیٹرمغرب کی جانب واقع ہے، آپ کی جائے ولادت ومدفن بھی یہی ہے۔ [1]

تحصیلِ علم[ترمیم]

ابتدا ء میں تجوید کے ساتھ قرآ ن کریم حفظ کیا، بعد ازاں اپنے علاقے کے جیدفضلاسے تحصیل علم کیا، اوردارالعلوم دیوبندجاکردرس حدیث لیا۔مولوی محمودالحسن دیوبندی کے اول تلامذہ میں سے تھے، وہ ان پر فخر کیاکرتے تھے۔مگر وہاں سے جلدہی واپس ہوئے، دیوبند کے غلط ماحول کاآپ نے مشاہدہ کرلیاتھا۔اس لیے دیوبندیوں سے سخت بے زارہوگئے تھے اور اپنی مجلس میں ان کاشدیدرد فرماتے تھے[2]۔آپ اپنے وقت کے جیدعالم اور شیخ طریقت تھے۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ غوث زماں خواجہ عبدالرحمن چھوہروی (بانیِ دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ، ومصنف مجموعہ صلوٰۃ الرسول)کے دستِ حق پرست پرسلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے۔کچھ عرصہ بعد خلافت واجازت سے مشرف ہوئے۔

سیرت وخصائص[ترمیم]

جامع علوم عقلیہ ونقلیہ، عارف اسرار ربانیہ، قدوۃ العلماء، زبدۃ الاصفیاء، حامیِ دینِ سیدالانبیاء سید احمدسریکوٹی اپنے وقت کے اجل عالم اور نہایت متقی اور پرہیز گارصوفی تھے، علم و فضل کے با وجود اپنے شیخ طریقت غوث زماں خواجہ عبد الرحمن چھو ہروی سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لیے آپ اپنے مرشد کامل کی خد مت میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے۔تکمیلِ علوم کے بعدایک عرصہ تک افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤ ن، زنجبار، اورممباسہ میں عرصہ ٔ دراز تک تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1339ھ/1920ءمیں پھر تبلیغ دین کے لیے رنگون( موجودہ نام یانگوں، برماکاسب سے بڑاشہر اور سابق دار الخلافہ)تشریف لے گئے اور مرکزی مسجد، مسجد نا خدا میں امام وخطیب مقررہوئے۔آپ کی شخصیت اس قدر پر کشش تھی کہ وہاں کے لوگ جوق درجوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرراہِ ہدایت سیکھنے لگے۔آپ کی تبلیغ وتلقین کایہ اثرہواکہ شراب وکباب کے رسیا، نہ صرف فسق و فجورسے تائب ہو گئے بلکہ نمازی اورتہجدگزاربن گئے[3]۔آپ کو اپنے شیخ سے بڑی عقیدت تھی چنانچہ آپ اکثر و بیشتر محبت بھرے الفاظ میں مرشد ِکامل کا تذکرہ فرماتے رہتے، اس کااثریہ ہواکہ بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ خواجہ چھوہروی کو دعوت دیں تاکہ ہم ان کی زیارت مشرف ہوں اور حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کریں۔آپ نے یہ صورت حال خواجہ چھوہروی کی خدمت میں لکھ بھیجی۔انھوں نے جو اباً اپنا ایک رو مال بھجوادیااورفرمایاجوشخص سحری کے وقت باوضو ہوکراس پر ہاتھ رکھے گاوہ میرامریدبن جائے گا۔اس طرح بے شمار افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے، تین سال بعد آپ نے اجازت و خلافت سے مشرف فرمایا[4]۔

1344ھ/1925ء میں آپ نے چٹا گانگ میں انجمن شوریٰ قائم کی اور جامعہ احمدیہ سنیّہ کی بنیاد رکھی۔جامعہ کی سہ منزلہ حسین و جمیل عمارت میں سینکڑوں طلبہ کے لیے رہائش کا انتظام کیاجہاں جدیدنصاب کے مطابق علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔بعد ازاں آپ کے فرزندارجمند مولاناصاحبزادہ سیدمحمدطیب شاہ ر کی سرپرستی میں جامعہ طیبہ ڈھاکہ کی تعمیر بڑی تیزی سے جاری تھی کہ مشرقی پاکستان ہم سے جداہوگیااوربنگلہ دیش کے نام سے ایک علاحدہ ملک بن گیا۔مولانا سیداحمد شاہ چٹاگانگ میں مدرسہ قائم کرنے کے باوجوداپنے شیخ و مرشد کے قائم کردہ دار العلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پور میں دلچسپی لیتے رہے۔چنانچہ دار العلوم کی موجودہ بلند و بالا عمار ت میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔اسی طرح پیرومرشدکی کتاب’’مجموعہ صلوٰ ۃ الرسول‘‘کثیر رقم خرچ کرکے اسے پہلی بارچھپوایا۔ورنہ نہیں معلوم یہ کتاب بھی دیگراکابرین کے مخطوطات کی طرح ناپید ہوجاتی۔آپ نے تقریباًسولہ سال تک مشرقی پاکستان میں قیام کیا۔اس عرصے میں بلا مبالغہ لاکھوں افراد حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔آپ کے مریدین کا امتیازی نشان مسلک اہل سنت پر ثابت قدمی، پاکستان سے سچی محبت اور دین ِمتین کے ساتھ گہرا لگاؤتھا۔ [5]

آپ نے تمام عمر ذکر الہی، عبادات، تبلیغ اسلام، اقامتِ دین، خدمتِ خلق اور اشاعت سلسلہ عالیہ قادریہ میں گزاری۔تقریباً سوبرس عمر پائی مگر وفات تک ایک لمحہ بھی غفلت وسستی میں نہیں گذرا۔آپ ہمت، استقلال، صبراور شکرکے پیکرتھے۔آپ سے سینکڑوں کرامات کاظہور ہوا۔مگرآپ استقامت فی الدین کوکرامت پر ترجیح دیتے تھے۔آپ کے دوفرزندہوئے۔بڑے فرزندحافظ سیدمحمد طیب شاہ، شریعت وطریقت میں بلندمقام رکھتے تھے۔والدکے حقیقی جانشین اور ملت اسلامیہ کے نقیب تھے۔

خلفاء[ترمیم]

1۔ قطبِ دوراں، خواجہ سید محمد شاہ ترمذی قادری بن خواجہ سید امان علی شاہ ترمذی قادری (خلیفہِ غوثِ زماں، خواجہ عبد الرحمن چھوہروی قادری)، سید آباد، گنجیاں شریف، ہری پور۔

2۔ عمدۃ الاصفیاء، خواجہ سید محمد طیب شاہ بن خواجہ سید احمد شاہ سریکوٹی، شتالو شریف، سریکوٹ۔

وصال[ترمیم]

آپ کاوصال بروزجمعرات، 11/ذیقعدہ1380ھ، مطابق 27/اپریل1961ء کوہوا۔آپ کی آخری آرام گاہ ہری پورشہرسے مغرب کی جانب اٹھارہ میل کے فاصلے پر’’شتالو شریف، سری کوٹ‘‘میں ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علما ومشائخِ سرحدجلد دوم:289/تذکرہ اکابرعلماءِ اہل سنت:169
  2. تذکرہ علمائے اہل سنت:48/تذکرہ اکابر اہل سنت:169
  3. تاریخ محمد مظہر صدیقی قادری، مولانا : مجموعہ شجرئہ عالیہ قادریہ حافظیہ، مطبوعہ 1395ھ، ص 9
  4. تذکرہ علما ومشائخ سر حد جلددوم:290
  5. تذکرہ علما ومشائخِ سرحد جلد دوم:290/تذکرہ علمائے اہل سنت:48