سید حسین دوالمیالوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید حسین دوالمیالوی صوفی کامل ،ولی العصر ،مناظر الاسلام شاعر بارگاہ رسالت کی حیثیت سے مشہور ہیں۔

تعارف[ترمیم]

مفتی پیر سید حسین شاہ دوالمیالوی چشتی نظامی تحصیل چوآ سیدن شاہ ضلع چکوال کے معروف گاؤں دوالمیال کے مشہدی کاظمی سادات کے عظیم مبلغ مولانا سید رسول شاہ کے گھر آپ کی ولادت ہوئی آپ کے والد گاؤں تترال کی جامع مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اس طرح سادات کا سیاسی اور روحانی گھرانہ شروع ہی سے اس علاقہ میں علم و عرفان کا نور بکھیر رہا تھا۔ گھر یلو مذہبی ماحول سے متاثر ہو کر آپ میں بھی علوم دینیہ کا شوق پیدا ہوا۔ اور اس کے حصول کے لیے گھر سے نکلے اور اپنے عظیم خاندان سادات کے مشن کے وارث ہے جس کے لیے خدا پاک نے آپ کو چن لیا تھا۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں والد سے حاصل کی اور بعد ازاں آپ کے والد نے آپ کو چکوال شہر کے معروف عالم دین مولانا غلام حسین کے پاس داخل کرادیا وہاں سے ابتدائی کتابیں مکمل کرنے کے بعد ضلع سرگودھا کے شہر بھیرہ شریف میں مولانا غلام قادر بھیروی اور مولانا عبد العزيز بگوی سے اکتساب فیض کیا۔ بعد ازاں پشاور شہر میں مولانا قاضی غلام محی الدین مفتی قدیم پشاوری کے ہاں پشاور میں کچھ عرصہ اور پھر بقایا تعلیم لاہور جا کر مکمل کی۔ آپ بھیرہ شریف میں زیرتعلیم تھے تو امتحان میں شامل سوطالب علموں میں سے آپ کی کارکردگی سب سے بہتری اور اول درجہ میں امتحان پاس کیا۔دوران میں تعلیم بھیرہ میں قیام کے دوران موضع لون میانی میں مقیم ایک مجذوب فقیر کے پاس آپ آیا جایا کرتے تھے اور یہ مجذوب فقیر آپ سے بڑی محبت و شفقت سے پیش آتے اور آپ کی زبان سے نعت رسول مقبول ﷺسنتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس مجذوب فقیرکا انتقال ہو گیا۔ تو آپ ان کے وصال کے بعد ان کے مزار شریف پر بھی اکثر حاضری دیا کرتے تھے۔ ایک روز آپ اس مجذوب کے مزار پر تلاوت کرتے کرتے سو گئے تو خواب میں وہ مجذوب فقیر ملے اور فرمایا کہ آپ ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ کے گاؤں میراشریف چلے جائیں اور خواجہ احمد میروی کی بارگاہ میں حاضری دیں۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

مجذوب فقیر کاحکم ملتے ہی آپ فورا وہاں سے ضلع اٹک تحصیل پنڈی گھیپ کے میرا شریف ہے اور خواجہ احمد میروی کی خدمت میں پینے اور ان کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے اور مرشد کامل کے حکم پر واپس اپنے گاؤں پہنچ کر آپ نے درس و تدریس کا وسیع و عریض سلسلہ شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی عظیم الشان جامع مسجد کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ ابھی مسجد کی تعمیر مکمل نہ ہوئی تھی کہ مرشد کامل کا پیغام ملا آپ تعمیل ارشاد کے لیے فور میرا شریف پہنچے اور مرشد کامل خواجہ احمد میروی کی بارگاہ میں قدم بوس ہوئے آپ کے مرشد نے آپ کوخرقہ خلافت اور دستار سے نواز کر اجازت بیعت و ارشاد عطا فرمائی اور حکم دیا کہ خلق خدا کی خدمت کرو اور اللہ کے ذکر میں مست رہو۔

حج بیت اللہ وزیارت روضہ رسول[ترمیم]

1896ء میں آپ حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضہ رسول کریم کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین حجاز مقدس روانہ ہو گئے

فتنہ قادیانیت[ترمیم]

جس زمانے میں آپ حصول علم کے لیے کوشاں تھے اس زمانے میں آپ کا گاؤں دوالمیال قادیان کے بعد مرزائیت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ یہاں کے مرزائیوں کا سرخیل مولوی کرم دادمرزائی تھا جو مولوی نور دین مرزائی بھیروی کا شاگردتھا۔ آپ نے مرزائیوں کا بڑھتی ہوئی یلغار کو روکنے کے لیے ان سے ہر میدان میں مقابلے کا فیصلہ کر لیا اور اپنے رفقا اور عقیدت مندان کو ساتھ ملا کر اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ آپ نے مرزائیت سمیت دیگر تمام مذاہب باطلہ و عقائد باطلہ رکھے والوں کے خلاف بھر پورعلمی مواد سے تقریروں اور تقریروں کی جو مہم چلائی اس سے مرزائی بوکھلا کر رہ گئے اور حواس باختہ ہو کر مولوی کرم دادمرزائی نے آپ کو مناظرے کا چیلنج کر دیا۔ آپ نے فورا قبول کر لیا دوران مناظرہ خدا پاک کے فضل و کرم سے آپ کامیاب ہوئے اور مرزائی مناظر کو ہزیمت اٹھانا پڑی اس سلسلہ میں ناکامی کے بعد انھوں نے آپ کے خلاف مختلف قسم کے مقدمے بنائے جو کافی عرصہ تک چلتے رہے۔ ان میں بھی کامیابی آپ ہی کو نصیب ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں کی قوت کو یکجا کرنے کے لیے اور فتنہ قادیانیت کے بھر پور مقابلے کے لیے انجمن اسلامیہ کی بنیادی جس کا پہلا اجلاس۔ مارچ 1924ء کو ہوا اور اس طرح مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا شروع ہو گئے۔ انہی دنوں مولوی کرم دادخان مرزائی نے آپ کو ایک بار پھر مناظرہ کا چیلنج دیا اور کہا کہ اگر آپ نے مجھے شکست دے دی تو میں مرزا جی کو کافر اور اس کے سب دعووں کو جھوٹا مان لوں گا۔ چنانچہ 19 مارچ 1924ء کو چوآسیدن شاہ میں پولیس کی نگرانی میں مناظرہ طے پا گیا۔ تمام علما نے متفقہ طور پر آپ کو مسلمانوں کی طرف سے مناظر مقرر کیا۔ چنانچہ دوران مناظرہ آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل و براہین ان سے رومرزائیت کیا اور اس قسم کے مضبوط دلائل پیش کیے کہ مرزائی مناظر انگشت بدنداں رہ گیا

سیرت و کردار[ترمیم]

آپ نہایت بلند پایہ اخلاق کے مالک اور پرعزم و استقلال اور بہادر شخص تھے۔ شریعت و طریقت کی پاسداری آپ کا وتیرہ تھا زہد وتقوی میں بے مثال اور علم و فضل میں یگانہ تھے۔ تمام زندگی ناموس رسول کے تحفظ کی خاطر جہاد کرتے رہے۔ بڑے سے بڑا گستاخ رسول بھی آپ کے سامنے مبھوت ہو کے رہ جاتا تھا۔ آپ انتہائی خوبصورت اور دراز قد تھے۔ ملی زندگی بھی انتہائی خوبصورت تھی۔ وضع داری رواداری میں بے مثال اور یکتا تھے۔ اللہ پاک ہی کے سے دوستی رکھتے اور اللہ پاک ہی کے لیے کسی سے دشنی فرماتے تمام عمر اپنی ذات پر ہونے والے حملوں کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اپنے دشمنوں کو معاف فرمادیتے تھے۔ نماز پنجگانہ تہجد اور دیگر نوافل کا بہت خیال فرماتے تھے۔ ہر وقت آپ کی زبان پر خدا پاک اور اس کے رسول اقدس ﷺ کا ذکر جاری رہتا ہے۔

وفات[ترمیم]

آپ کا وصال مورخہ 13 فروری 1937ء بمطابق 28 ربیع الاول شریف 1369ھ بروز جمعرات سو برس کی عمر میں ہوا۔ نماز جنازہ آپ کے بیٹے اور خلف الرشید مولانا سید کرم حسین شاہ نے پڑھائی آپ کا مزار آپ کے آبائی علاقہ کے قبرستان واقع موضع دوالمیال نزد چوآسیدن شاہ ضلع چکوال میں مرجع خاص و عام ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار صفحہ 536،صاحبزادہ مقصود احمد صابری ہاشمی پبلیکیشنزراولپنڈی