سید رشید الدین شاہ راشدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید فضل اللہ شاہ راشدی کی وفات کے بعد 1287ھ میں ان کے بھائی سید رشید الدین شاہ راشدی پیر جھنڈو سوم کی حیثیت سے سجادہ نشین مقرر ہوئے۔ اور " پیر سائیں بیعت" والے کے نام سے معروف ہوئے۔

پیدائش[ترمیم]

آپ 1254ھ میں پیداہوئے۔

دینی شغف[ترمیم]

آپ نے دینی تعلیم گھرمیں ہی حاصل کی اور تکمیلِ علومِ دینیہ کے بعد اپنے حلقہ واحباب اور ان سے باہربھی توحید وسنت کی بنیاد کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ان کی تربیت وتزکیہ نفس کرنا شروع کیا۔1857 کی جنگ آزادی کے وقت آپ 23 برس کے جوان تھے۔سندھکے مسلمانوں نے جنگ آزادی میں بھر پور حصہ لیا جس کے رد عمل میں انگریزوں نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے اور وحشت ناک سزائیں دیں۔ اس وقت دیندار مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ اسلامی تعلیم وتبلیغ سے اتحاد پیدا کرکے لوگوں میں آزادی کی روح پھونکی جائے اور انھیں جہاد کے لیے تیار کیا جائے اسی خیال وفکر سے پیر صاحب نے اپنے گاؤں پیر جھنڈو میں دینی مدرسہ قائم کیا اور ایک علمی کتب خانہ کی بنیاد ڈالی۔ آپ کی علمی مجالس میں کئی علما کرام شریک ہوتے تھے۔ ان مجالس میں مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ بھی امروٹ شریفضلع سکھر سے آکر شریک ہوتے تھے۔[1] مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃاللہ آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

مولانا سید رشید الدین شاہ صاحب العلم الثالث کی صحبت سے مستفید ہوا میں نے ان کی کرامتیں دیکھیں ذکر اسماء الحسنیٰ میں نے انہیں سے سیکھا وہ دعوت توحید وجہاد کے مجدد تھے۔

[2]

وفات[ترمیم]

آپ 1317ھ میں 61 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مقالہ ’’پیرجھنڈو کا کتب خانہ، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، ماہنامہ الولی حیدرآباد، اپریل، مئی 1978ء)
  2. مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگزشت کا بل از مولانا عبید اللہ لغاری، ص9
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔