سید شاہ مردان شاہ ثانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید شاہ مردان شاہ ثانی
سابقہ رکن ایوان زیریں پاکستان
معلومات شخصیت
پیدائش 22 نومبر 1928ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 جنوری 2012ء (84 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لندن  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات امراض جگر  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش کراچی
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
جماعت پاکستان مسلم لیگ ف  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی یونیورسٹی آف لیورپول  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ کرکٹ کھلاڑی،  سیاست دان  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھیل کرکٹ  ویکی ڈیٹا پر (P641) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سید شاہ مردان شاہ ثانی پیر پاگارا ہفتم حُر قبیلہ کے روحانی پیشواتھے۔

نام[ترمیم]

سید شاہ مردان شاہ ثانی المعروف سید سکندرعلی شاہ سید شاہ مردان شاہ ثانی، آپ کا خاندانی نام ہے، جو آپ کے جد امجد شمس العلما ء پیر سید شاہ مردان شاہ اول کوٹ دھنی کی نسبت سے رکھا گیا، سید سکندر علی شاہ آپ کا عرفی نام ہے،مگر پیر پگاڑا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جب آپ، آٹھ برس کی عمر میں تھے تو اپنے خاندانی مرشد کے دربار کے سجادہ نشین سید محمد شاہ ثانی گیلانی کے دست بیعت ہو کر سلسلہ قادریہ میں شامل ہوئے۔ آپ کے بزرگ سلاسل نقشبندی اور سنوسی میں بھی بیعت یافتہ تھے، مگر خاندانی روایت تحت اجازت یا بیعت صرف سلسلہ قادریہ میں کرتے تھے۔

نسب[ترمیم]

پیر صاحب پگارا ہفتم، برصغیر کی عظیم روحانی خانقاہ امام العارفین سید محمد راشد شاہ صاحب الصوم (روزہ دھنی) کے آٹھویں سجادہ نشیں، تحریک آزادی کے عظیم مجاہد، سید صبغت اللہ شاہ شہید سو رہیہ بادشاہ کے بڑے صاحبزادے، آپ سلسلہ نسب میں پانچ واسطوں سے راشدی خاندان کے جد امجد پیر سید محمد راشد روزہ دھنی سے اورامام علی رضا، امام موسی کاظم، امام حسین ،حضرت علی المرتضی اور بی بی فاطمہ کے توسل سے اکتالیس واسطوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے ہیں۔

ولادت[ترمیم]

22 نومبر 1928ء بمطابق 7 جمادی الاخری، پیر جو گوٹھ ضلع خیرپور میرس (سندھ) میں پیدا ہوئے۔

القاب[ترمیم]

اس خانقاہ کے متوسلین، اپنے مرشدوں کو نام کی بجائے القاب سے یاد کرتے ہیں، دیگر بزرگوں کی طرح، سید شاہ مردان شاہ کا لقب "چھٹ دھنی" تھا، جو سندھی زباں کا لفظ ہے، اس کا مطلب ہے سائبان۔ اپنے بزرگوں کے مزارات پر روضہ تعمیر کراکے اس پر سونے کا گنبد لگوایا، اسی نسبت سے بھی کہتے ہیں۔ محسنِ ملت،پیکرحریت، اعلی حضرت کے القاب سی بھی جماعت (مریدین اور معتقدین) یاد کرتے ہیں۔

تعلیم و تدریس[ترمیم]

احمد فقیر مہر نامی گھوٹکی کے ایک بزرگ اور حافظ امام بخش باقرانی والے نے ابتدائی تعلیم دی۔ اس کے بعد تحریک آزادی میں مصروف آپ کے والد گرامی سو رہیہ بادشاہ کی گرفتاری اور خانداں کی نظر بندی کے باعث تعلیم تعطل کا شکار ہوئی، 20 مارچ 1943 ء کو سورھہیہ بادشاہ کو شہید کیا گیا، آپ کے صاحبزادگان پیر سید شاہ مردان شاہ اور میاں حزب اللہ شاہ المعروف نادر علی شاہ کو، تعلیم کے بہانے انگریز نے علی گڑھ کے طرف بھیجا۔ اس سفر کا احوال، پیر صاحب خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "کراچی سے ہمیں برقعے پہنا کر، علی گڑھ لایا گیا، وہاں ہم نے بہت دنوں بعد آزاد فضا میں سانس لیا،علی گڑھ میں دیگر تعلیم کے ساتھ ہماری درخواست پر برطانوی حکومت نے پراسیکیوٹنگ انسپیکٹر صدرالدین کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے مقرر کیا، جو کبھی کبھی سبق دیتا تھا، علی گڑھ میں کوئی خاص انتظام نہیں تھا، پھر جون 1946 ع میں سمندری جہاز کے ذریعے لیور پول (انگلینڈ) پنہچایا گیا، وہاں کسی پبلک اسکول میں داخل کروانے کی بجائے ھیرو کے قریب پنر Pinner نامی ایک دیہاتی علاقہ میں ایک ریٹائرڈ فوجی میجر سی ڈیوس کے اسکول میں چھوڑا گیا، وہاں مسٹر پلفورڈ ٹیوٹر اور برطانوی پروفیسر ٹرنر نگران تھے۔ اس اسکول کے طلبہ کی تعداد ہمیشہ 10ـ12 ہی رہی اور سارے ہی متعدد ممالک کے باغی رہنماؤں کی اولاد یا رشتیدار تھے۔ جن میں تھائی لینڈ، روڈیشیا، آئس لینڈ، عراق، ایران، حبشہ (ایتھوپیا) کے تھے۔ ان میں سے حبشہ کے بادشاہ "ہیل سلاسی" کے قریبی رشتیدار مسٹر "زوڈی" ہمارے قریب تھا، اسکول کا ماحول اتنا سخت تھا کہ کسی کو اپنی خاندان متعلق بات کر نے کی اجازت نہ تھی، اس اسکول میں مضامین کا انتخاب بھی طلبہ کی مرضی سے نہیں تھا۔ حتا کہ امتحانات کی تیاری دوران مسیحیت کا مضمون Divity (خدائی) بھی (مسلمانوں کو) پڑھایا جاتا تھا، حکومت پاکستان کے قیام تک یہ سلسلہ جاری رہا، پھر مدہیہ پردیش کے ڈاکٹر رحمان کی توجہ دلانے کے بعد حکومت پاکستان نے نوٹس لیا، اس کے بعد وہ نصاب تبدیل کیا گیا۔ وہاں پیر صاحب کو لاطینی اور برادر کو فرانسیسی کی تعلیم بھی دی گئی۔1952 ع میں پاکستان واپسی اور گدی کی بحالی بعد اعلی حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ کے نبیرہ مولانا مفتی تقدس علی خاں آپ کے اتالیق بنے، جس نے اسلامی علوم کی تعلیم دی۔

مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ تھے۔ ہندوستان پر برطانوی قابض حکومت نے 1942ء میں حر مجاہدین کو کالعدم قرار دے کر پیر پگاڑا کے والد پیر صبغت اللہ شاہ کو پھانسی دے دی اور ان کے بیٹوں کو اغوا کر کے لندن لے گئے۔ 1952ء میں پیر پگاڑا وطن واپس آئے اور سیاست میں مشغول ہو گئے۔

وفات[ترمیم]

بتاریخ 10 جنوری 2012ء مطابق 16 صفر المظفر 1433ھ کو شب 23:30 پر لندن کے ہسپتال میں وفات پائی۔ پیر جو گوٹھ خیرپورسندھ میں اپنے بزرگوں کی پہلو میں مدفون ہوئے۔[2]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Syed Shah Mardan Shah-II passes away — اخذ شدہ بتاریخ: 27 اکتوبر 2012
  2. "حروں کے پیشوا پیر پگارا انتقال کر گئے"۔ بی بی سی اردو موقع۔ 11 جنوری 2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ