سید صدیق احمد باندوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی
پیدائشسید صدیق احمد
1923ء مطابق 1341 ھ
قصبہ ہتورا ضلع باندہاتر پردیش ہندوستان
وفات28 اگست 1997ء[1]
مدفنقصبہ ہتورا ضلع باندہاتر پردیش ہندوستان
رہائشہتورا ضلع باندہاتر پردیش ہندوستان
اسمائے دیگرقاری صدیق باندوی ،
کارہائے نمایاںجامعہ عربیہ ہتورا
مؤثر شخصیاتمولانا اسد اللہ خلیفہ مولانا اشرف علی تھانوی
مذہباسلام
اولادمولانا سید حبیب احمد باندوی
موقع جال
http://jamiaarabiahathaura.com/

مولانا قاری سید صدیق احمد باندوی کی ولادت 11 شوال1341 ھ مطابق 1923ء کو بروز جمعہ اترپردیش کے باندہ ضلع کے ہتورا قصبہ میں ہوئی تھی۔[2] آپ کے والد کا انتقال آپ کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا اور آپ کی کفالت آپ کے دادا نے کی تھی۔ آپ کے دادا قاری عبد الرحمن پانی پاتی کے شاگرد تھے۔

تعلیم[ترمیم]

قاری سید صدیق احمد باندوی کے دادا بھی عالم تھے۔ آپ کے دادا کاشتکاری کے ساتھ ساتھ بچوں کو قرآن شریف بھی پڑھاتے تھے۔۔ آپ کی ابتدائی تعلیم دادا ہی کے ذریعہ ہوئی اور آپ نے صرف 7 سال کی عمر میں ناظرہ قرآن شریف تجوید کے ساتھ پورا کیا اور اس کے بعد حفظ کیا۔ اور عربی اور فارسی کی کچھ کتابیں بھی پڑھی بعد میں کانپور کے تکمیل العلوم کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور نحومیر ،میزان ،منتہ المصلی وغیرہ کتابیں پڑھی بعد میں پانی پت کے مدرسہ میں 2 سال تک قرأت سبعہ کے علاوہ قدوری شرح جامی بحث فعل تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 16 سال کی عمر میں مظاہرعلوم سہارنپور 1358 ھ میں داخلہ لیا اور یہاں 4سال تک اپنی تعلیم حاصل کی اس کے بعد 1362ھ میں مدرسہ شاہی مرادآباد میں دورہ حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور اسے مکمل کیا۔[2]

خدمات[ترمیم]

سید صدیق احمد باندوی نے تعلیم پوری طرح مکمل کرنے کے بعدضلع گوندہ کے مشہور اسلامی ادارہ مدرسہ فرقانیہ میں آپ نے تدرسی خدمات انجام دی اور 6 ماہ تک وہاں اپنی خدمات انجام دی اس کے بعد مدرسہ اسلامیہ فتحپور میں خدمات انجام دی۔[2] آپ کو مولانا اسعد اللہ سے نیعت اور خلافت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ شاہ وصی اللہ ن الہ آبادی [2] سے بھی آپ کو اجازت دی تھی۔ آپ نے باندہ کے اطراف کے علاقوں میں آپ نے تبلیغٰی دورے کر کے باندہ کے قرب و جوار میں بڑی محنت کی اور علاقہ میں دینی ماحول کو قائم کیا۔ آپ نے ہتورا میں ایک مدرسہ جامعہ عربیہ ہتورا کے نام سے قائم کیا اس وقت آپ کا علاقہ میں دینی ماحول نہیں تھا اور کچھ بھی صہولیات بھی نہیں تھی۔ لیکن اس مدرسے کے قائم ہونے سے یہاں بہت ہی رونق رہتی ہے۔[2]

وفات[ترمیم]

سید صدیق احمد باندوی کی وفات 28 اگست 1997 کو لکھنؤ میں ہوئی تھی جہاں آپ علاج کے لیے آئے ہوئے تھے۔ آپ کا جنازہ لکھنؤسے کانپور کے راستے ہتورا لیا گیا جس میں لوگوں کا جم غفیر تھا اور آپ کی تدفین ہتورا کے قبرستان میں ہوئی۔[2]

ذوق سخن[ترمیم]

مولانا سید صدیق احمد باندوی صرف اصلاحی سرگرمیوں میں ہی نہیں سرگرم رہتے تھے بلکہ آپ اردو ادب سے بھی دلچسپی رکتھے تھے اور شعر و شاعری بھی کرتے تھے۔ آپ ثاقبؔ باندوی کے تخلص سے اپنا حمدیہ اور نعتیہ کلام لکھتے تھے۔ نمونہ کلام

نمونہ انبیاء کا بن سلف سے کر سبق حاصل کہ منزل سخت ہوتی ہے،نہیں جب روشنی ہوتی
خداوندا توئی اب غیب سے سامان پیدا کر نہیں ثاقبؔ کی اب کوشش کہیں بھی کارگر ہوتی

[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  • حیات صدیق از محمد زید مظاہری ندوی مطبوعہ 2014