امام بری
مضامین بسلسلہ |
امام بری | |
---|---|
امام بری
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1617ء بمطابق 1026ھ کرسال، ضلع چکوال، پاکستان |
وفات | 1705ء نور پور تھل |
شہریت | برصغیر پاک و ہند |
والدین | سید سخی محمود شاہ (والد)brother=بابا مزمل شاہ کاظمی |
عملی زندگی | |
پیشہ | الٰہیات دان |
درستی - ترمیم |
سید عبد اللطیف کاظمی قادری المعروف امام بری کا تعلق قادریہ سلسلہ سے ہے [1] آپ بری امام (امام البر خشکی کے امام)کے لقب سے زیادہ مشہور ہیں آپ کا دربار پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے نواحی گاؤں نور پورشاہاں میں واقع ہے اس سے پہلے یہ جگہ چور پور کہلاتی تھی[2] امام بری اسلام آباد کے سرپرست ولی (سینٹ) ہیں۔
والدین
[ترمیم]سید عبد اللطیف کاظمی قادری کے والد کا نام سید سخی محمود شاہ کاظمی ہے سید سخی محمود شاہ کاظمی کا دربار پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر واقع ہے[3]
سلسلہ نسب
[ترمیم]شاہ لطیف بری بن محمود شاہ بن سید احمد یا حامد بن بودلا شاہ بن اسکندربن عباس بن عبد الغنی بن سید حسین بن سید آدم بن علی شیر بن عبد الکریم بن وجیہ الدین بن محمد ولی بن محمد ثانی الغازی بن رضا دین بن صدر الدین بن محمد احمد ثابق بن ابو القاسم بن پیر بربریاں بن سلطان عبد الرحمن بن اسحاق ثانی بن موسیٰ اول بن محمد عالم بن قاسم عبد اللہ بن محمد اول بن اسحاق بن موسیٰ کاظم[3] آپ کا نسب کا ذکر سید قمر عباس اعرجی ہمدانی نے اپنی کتاب مدرک الطالب فی نسب آل ابی طالب میں کیا ہے آپ حسینیال مشہدی موسوی سید ہیں
حالات بچپن
[ترمیم]سید عبد اللطیف کاظمی قادری ( 1617ء) اور (1026ھ) میں چکوال کے ایک گاؤں کرسال میں پیدا ہوئے یہ شاہجہان کا عہد حکومت تھا سید عبد الطیف کاظمی قادری کے والد سید سخی محمود شاہ کاظمی اپنے پورے خاندان سمیت ہجرت کر کے با غ کلاں آ گئے جو اب آبپارہ کے نام سے مشہور ہے [3]
القاب
[ترمیم]بری بادشاہ،بری سلطان اور امام بری کے القاب آپ کو دیے گئے ہیں[4]
تعلیم
[ترمیم]سید عبد اللطیف کاظمی قادری غورغشی (اٹک) گئے جہاں پر دو سال قیام کے دوران آپ نے فقہ، حدیث، منطق، ریاضی اور علم طب کے متعلق سیکھا کیوں کہ اس دور میں غورغشی (ضلع اٹک) علم کا مرکز جانا جاتا تھا [5]
مرشد
[ترمیم]سید جمال اللہ حیات المیر جو غوث اعظم کے پوتے تھے جو حسن ابدال میں مقیم تھے انکا سلسلہ قادریہ تھا [6] جب تک سخی حیات المیر حیات رہے یہ ان کی صحبت میں رہے
شادی
[ترمیم]ضلع ہزارہ کے ایک معزز خاندان کے سردار سید نور محمد کی صاحبزادی بی بی دامن خاتون سے شادی ہوئی ایک بچی پیدا ہوئی جو بہت چھوٹی عمر میں فوت ہو گئیں اس کے بعد آپ کی کی زوجہ بھی وفات پا گئیں دوبارہ آپ نے شادی نہ کی[7]
کرامات
[ترمیم]سید عبد اللطیف کاظمی قادری بچپن میں مویشی چرایا کرتے تھے ایک بار آپ مویشی چرانے لے کر گئے آپ نے مویشیوں کو کھلا چھوڑ دیا کھ مویشی چر لیں اور خود درخت کے نیچے آرام کرنے لگے آپ کے مویشی چرتے ہوئے کھیتوں میں گھس گئے اور فصل کو نقصان پہنچایا آپ مویشی لے کرواپس آ گئے اتنے میں کھیت کا مالک بھی آ پہنچا اس نے آپ کے والد صاحب کو شکایت لگائی کہ آپ کے مویشیوں نے میری فصل تباہ کر دی ہے اور میرے پاس چشم دید شواہ بھی موجود ہیں جنھوں نے خود مویشیوں کو کھیت میں گھس کر فصل کو تباہ کرتے دیکھا اس پرسید عبد الطیف کاظمی قادری نے جواب دیا کہ فصل کو کسی نے تباہ نہیں کیا فصل بالکل ٹھیک ہے یہ سن کر کھیت کا مالک نے آپ کے والد صاحب سے کہا کہ آپ خود جا کر کھیتوں کی حالت دیکھیں جب آپ کے والد صاحب کھیتوں میں پہنچے تو وہاں کا نظارہ کچھ اور تھا کھیت لہلہا رہے تھے اور فصلیں بھی بالکل ٹھیک تھیں یہ نظارہ دیکھ کہ کھیت کا مالک حیران رہ گیا کہ اس نے جب دیکھا اس وقت کھیتوں کی حالت اور تھی اور اب اور ہے کھیت کا مالک اپنی بات پر پشیمان ہوا اور معافی مانگ کر واپس چلا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آ پ پیدائشی اللہ کے ولی ہیں [5]
سید عبد الطیف کاظمی قادری ایک بار پتھر پر بیٹھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے کہ اس علاقے سے بادشاہ وقت اورنگزیب عالمگیر کا اپنی فوج کے ساتھ گذر ہوا رات ہونے کی وجہ سے اورنگزیب عالمگیر نے فوج کو پڑاؤ کا حکم دیا اور لنگر کی تیاری کا بھی حکم دیا جب لنگر تیار ہوا تواورنگزیب عالمگیر نے حکم دیا کہ تمام علاقے کی عوام کو بھی کھانے میں شرکت کی دعوت دی جائے حکم کے مطابق لوگ کھانے کے لیے آ گئے اور کھانا شروع کر دیا اس اثنا میں چند سپاہی اورنگزیب عالمگیر کے پاس حاضر ہوئے اور شکایت لگاتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نے آپ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے یہ سن کر اورنگزیب عالمگیر برہم ہوا اور بولا کہ جاؤ اور دوبارہ انھیں ہمارا حکم سناؤ سپاہی چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد جب لوٹے تو انھوں نے دوبارہ وہی جواب دیا جسے سن کر اورنگزیب عالمگیر نے سپاہیوں سے کہا کہ ہم خود جا کر اس شخص کو ملنا چاہتے ہی جب اورنگزیب عالمگیر، سید عبد الطیف کاظمی قادری کے پاس پہنچا تو تحکمانا انداز میں سید عبد الطیف کاظمی قادری سے مخاطب ہوا ”کیا وہ تم ہی ہوجس نے ہمارا حکم ماننے سے انکار کیا“سید عبد الطیف کاظمی قادری نے جواب دیا ”'ہاں وہ میں ہی ہوں“اس پر اورنگزیب عالمگیر بولا ”کیا تم نہیں جانتے کہ ہم بادشاہ وقت ہیں اور تم ہماری جاگیر میں موجود ہو“سید عبد الطیف کاظمی قادری نے جواب دیا ”تم جو بھی ہو جاگیر صرف اللہ کی ہے اور اگر تمھیں جاگیر دیکھنے کا بہت شوق ہے تو ہمارے ساتھ اس پتھر پر بیٹھو '“ جب اورنگزیب عالمگیر بیٹھا تو اسے اپنے چاروں طرف ہیرے جواہرات سے بنا دربار نظر آیا اور وہ پتھر جس پرسید عبد الطیف کاظمی قادری بیٹھے تھے وہ ایک بہت خوبصورت تخت کی صورت میں نظر آیا “ تواورنگزیب عالمگیر سید عبد الطیف کاظمی قادری سے بولا”مجھے معاف کیجئے گامیں آپ کو نہیں پہچان پا یا تھا اس لیے آپ سے گستاخی کر بیٹھا تھا “یہ سن کرسید عبد الطیف کاظمی قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اورنگزیب عالمگیر کو معاف کیا اوراس کے حق میں دعا بھی فرمائی [8]
سیرو سیاحت
[ترمیم]سید عبد الطیف کاظمی قادری نے بہت سے علاقوں کا دورہ کیا جن میں کشمیر، بدخشاں، بخارا، مشہد، بغداد اور دمشق شامل ہیں آپ حج کی غرض سے مکہ مکر مہ بھی گئے اورمدینہ منورہ بھی گئے تقریباً 25 سال کی عمر میں واپس تشریف لائے۔[2]
اشاعت اسلام
[ترمیم]سید عبد الطیف کاظمی قادری نے نور پور شاہاں میں قیام کے دوران اسلام کی تعلیمات کے ذریعے لا تعداد ہندوؤں کے دلوں میں اسلام کی شمع کو روشن کیا [9]
چلہ گاہیں
[ترمیم]آپ کی کئی چلہ گاہیں ہیں جن میں نیلاں بھوتو، گنگڑ [6] نور پور کے غار میں چلہ کشی کی[10] مرشد نے چلہ کشی کے بعد آکر نکالا اور فرمایا امام البر ہو جو بعد میں بری امام ہو گیا
وصال
[ترمیم]شاہ عبد الطیف کا وصال 1117ھ بمطابق 1706ء میں نور پور شاہاں اسلام آباد میں ہوا۔[11]
مزار
[ترمیم]آپ کا دربار پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے نواحی گاؤں نور پور شاہاں میں واقع ہے جہاں ہر سال لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں۔[7] دربار اورنگزیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں تیار کروایا[12]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ تذکرہ اولیاء پاکستان جلد اول ،عالم فقری، صفحہ190 شبیر برادرزلاہور
- ^ ا ب ایضاً صفحہ192
- ^ ا ب پ ایضاً صفحہ190
- ↑ دائرہ معارف اسلامیہ جلد4 صفحہ 389،جامعہ پنجاب لاہور
- ^ ا ب ایضاً صفحہ191
- ^ ا ب ایضاً صفحہ197
- ^ ا ب ایضاً صفحہ204
- ↑ ایضاً صفحہ202
- ↑ ایضاً صفحہ194
- ↑ ایضاً صفحہ195
- ↑ حدیقۃ الاولیاء،غلام سرور قادری صفحہ33،تصوف فاؤنڈیشن لاہور
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 03 اکتوبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2015
- 1617ء کی پیدائشیں
- 1705ء کی وفیات
- اسلام آباد کی شخصیات
- اسلام آباد کے صوفیا
- اسلام آباد میں اسلام
- اسلامی فلسفی
- اولیا
- پاکستان میں مزارات
- پاکستانی صوفیا
- تاریخ اسلام آباد
- تاریخ پاکستان
- سترہویں صدی کے اسلامی مسلم علما
- صوفی شعرا
- علماء علوم اسلامیہ
- مسلم فلاسفہ
- مسلمان مصلحین
- مغل سلطنت کے صوفیا
- پنجابی صوفیا
- سلسلہ قادریہ
- صوفی اولیا