مندرجات کا رخ کریں

سید علی ترمذی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

#حضرت شیخنا و امامنا شیخ الاسلام و المسلمین شیخ سید علی ترمذی قدس سرہ العزیز المعروف پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ؛

پیر بابا وہ پیارا نام ہے،جو صوبہ (سرحد) خیبر پختونخوا کے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ہر دل آن کی یاد سے سر شار ہے،اور ہر سر ان کا نام سنتے ہی فرطِ عقیدت سے جھک جاتا ہے، صدیاں گزر جانے پر بھی ان کی عقیدت و احترام میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کوئی موسم ہو،کوئی زمانہ ہو، ٹرکوں، بسوں، ویگنوں اور کاروں پر جھنڈے لہراتے ہوئے زائرین بونیر میں ان کی مرقد مبارک کی جانب رواں دواں نظر آتے ہیں، وزیرستان سے چترال تک اور آزاد کشمیر اور ہزارہ سے خیبر اور جلال آباد تک شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جس کا دل پیر بابا کی یاد سے آباد نہ ہو۔

#ولادت_ؤ_نسب:

حضرت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ 908ھ بمطابق 1502ء کو قندوز میں پیدا ہوئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا خاندان سادات حسینی کا ایک شاخ ہے سادات کا یہ گھرانہ ہر دور میں سارے افغانستان، صوبہ سرحد،اور قبائلی علاقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا۔یہاں تک کہ کابل کے حکمران اس خاندان کے نہ صرف آرادت مند رہے بلکہ اپنی بیٹیاں اس خاندان میں بیاھنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے رہے۔

سید علی ترمذی کے والد محترم کا نام سید قنبر علی تھا، انکے بارے میں پیر بابا کا اپنا بیان ہے کہ " میرے والد بزرگوار سلاطین وقت کے مقربین میں شمار ہوتے تھے".آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سلطان کی طرف سے امیر نظر بہادر کا لقب بھی ملا تھا۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے تین بھائی تھے جن کے نام درج ذیل ہیں،

سید حسن رح، سید احمد رح اور سید عمر رح تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اجداد خراسان ماورالنہر سوغدیایہ لری دیش اور بری دیش میں رہتے آئے ہیں۔اسی نسبت سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو شہنشاہ خراسان اور پیر خراسان بھی کہا جاتا ہے۔ان علاقوں کو ترمذ، بلخ و بخارا، بدخشان، فرغانہ اور کندوز کہا جاتا ہے۔

اخوند درویزہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تذکرۃ الابرار میں لکھتے ہیں کہ!

"پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ امیر کبیر ظہیر الدنیا و الدین ناصر الاسلام و المسلمین المتحمد برحمتہ رب العالمین امیر طیمور کے خواہرزادہ تھے"

امیر طیمور کی ہمشیرہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے چھٹی پشت پر جد امجد سید احمد بیغم رحمتہ اللہ علیہ کے نکاح میں تھیں۔

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ہمایوں بادشاہ کے ہم عصر تھے، یہ بات بلا مبالغہ ہے کہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی اگر ان بادشاہوں کے ساتھ رشتہ داروی کی نسبت نہ ہی بنائی جائے، تب بھی پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ خود ایک بادشاہ ہے۔وہ روحانی دنیا کے ایسے بادشاہ ہے کہ آج تک انکی شہنشاہیت جو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہے اُسے زوال نہیں آیا ہے۔


#ابتدائی_تربیت:

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تربیت آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دادا امام المسلمین حضرت سید احمد نور رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ ہوئی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دادا حضرت امام المسلمین سیدالدنیا والدین سید احمد نور اپنے آبا و اجداد کے پسندیدہ طریقت پر سلسلہ کبرویہ کے سجادہ نشین تھے۔اور اپنے دینداری اور پرہیز گاری کی بدولت سارے علاقے میں بڑی عزت سے دیکھے جاتے،اس کے علاؤہ ایک جید عالم بھی تھے،حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے نحوہ کی مشہور کتاب شرحِ ملا جامی اپنے دادا سے پڑھی۔ ابتدائی سے پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ دنیا سے متنفر تھے،باقی بچے کھیل کھود میں لگے رہتے تھے جبکہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو کھیل کھود سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ہر وقت باقی بچوں سے الگ تھلگ رہتے تھے اس پر گھر کے افراد نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیوانہ کہنا شروع کیا۔

"چوں ندارم با خلائق الفتے

دوستاں پندارند کہ من دیوانہ ام"

جب میں نے لوگوں سے سلام دعا کم کرلی تو یار لوگوں نے مجھے دیوانہ سمجھ لیا۔

یہی حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ تھے۔لیکن گھر والوں کے برعکس آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دادا سید احمد نور رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تم اس دیوانے کا مرتبہ کیا جانو،دادا محترم کے دور بین آنکھیں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے چہرے میں مستقبل کے غوث کا عکس دیکھ رہی تھیں اور گھر والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ اس دیوانے کو میرے لیے چھوڑ دو۔سارے گھرانے میں مجھے یہی ایک دیوانہ پسند ہے۔چنانچہ دادا محترم نے بذاتِ خود حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کی اور علم کے علاؤہ عرفان کی سمندر میں بھی ڈبو دیا۔جس سے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں ایسی روشنی پھیلی کہ اس روشنی سے زمین منور ہوگئ۔

#سلسلہ_کبرویہ ھمدانی_میں_خلافت:

قبل از ذکر آچکا ہے کہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے دادا نے آپ کی تربیت کی احسن طریقے سے کی۔لیکن دادا کی زندگی نے زیادہ وفا نہ کی،اور جب آن کی وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ بیٹے! قرآن کریم میں سے جو بھی یاد ہو سنا دو،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ الملک کی تلاوت کی، تو دادا محترم نے دوبارہ تلاوت کرنے کے لیے کہا،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ نے دوبارہ تلاوت کی اس طرح تیسری بار تلاوت کی۔تو جناب دادا محترم نے ایک مرشد کے طور پر فرمایا کہ بیٹے! جو برکات اور انعامات روحانی طور پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملے ہیں' اور جو برکات ؤ انعامات مجھے بطور ورثہ اپنے اجداد سے ملے ہیں وہ سب میں تجھے بخش رہا ہوں، اور سلسلہ کبرویہ جو انکا خاندانی سلسلہ ہے، یہی سلسلہ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کے نام سے منسوب ہے۔یہ سلسلہ حضرت سید احمد نور رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والد اور آنکے والد کو اپنے والد سید محمد نور بخش ترمذی رحمۃ اللہ علیہ سے ملا تھا،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو اس سلسلے میں خلافت اپنے دادا محترم کے توسط سے ملی۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو لڑکپن اور جوانی کے درمیانی دور میں یہی عزاز ملا،یہ بہت بڑی سعادت تھی۔ اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دادا وفات پا گئے تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی دنیا تاریک ہوگئ،سارے کنبے کو ملال تھا۔لیکن حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کا حال کچھ اور تھا کیونکہ سارے کنبے میں ایک ہی دادا کی شخصیت تھی جو انکے غم گسار تھے۔دادا کی وفات کا حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ پر بہت اثر ہوا، آپ رحمتہ اللہ علیہ گم سم رہتے تھے کسی سے بات کرنے کو دل نہ چاہتا تھا،اس طرح کھانے میں بھی دل نہ لگتا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے گھر والے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دلجوئی میں رہتے تھے اور بسا اوقات آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے شاہانہ لباس پہنا کر اپنے ساتھ شاہی دربار لے جاتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ آن کا دل بہل جائے اور دادا کا غم ہلکا ہوجاے،لیکن پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ یہی شاہی لباس مجھے کاٹنے کو دوڑتا تھا اور جب دربار سے واپس آجاتے تو اس لباس کو اتار پھینک دیتے تھے،اور سادہ لباس پہن کر علماء و صوفیاء کے مجالس کی تلاش میں سرگردان رہتے تھے۔تاکہ ان کی محفل میں بیٹھ کر آگر دل بہل جائے، لیکن وہاں بھی دل نہ لگتا تھا۔صرف عالموں کی مجالس میں کبھی کبھی تسکیں قلب میسر آجاتی۔

#ہند_میں_آمد:

ظہیر الدین بابر آن دنوں کابل کے بادشاہ تھے۔انہوں نے ہند پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا،حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی سید قنبر علی جو کہ بابر بادشاہ کی طرف سے قندوز کے گورنر تھے،آپ رحمۃ اللہ علیہ کو "امیر نظر بہادر" کا لقب بھی ملا تھا۔بابر نے آن کو بھی ہند کے حملے میں شمولیت کی دعوت دی۔والد محترم نے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اپنے ساتھ لیا۔

932ھ بمطابق 1526ء بابر بادشاہ نے ابراہیم لودھی کے خلاف پانی پت میں لڑائی لڑی۔اس لڑائی میں قندوز گورنر امیر نظیر بہادر سید قنبر علی اور پیر بابا دونوں شامل تھے، اس وقت حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی عمر چوبیس برس تھی۔

اس لڑائی میں ابراہیم لودھی کو شکست ہوئی،اور تاج و تخت ظہیر الدین بابر کے حصے میں آیا۔جب پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نظارہ دیکھا کہ کل اس ملک کا فرمانروا ابراہیم لودھی تھا اور آج اس تاج و تخت کا مالک بابر بن بیٹھا،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ پر دنیا کی بے ثباتی اور بے وفائی واضح ہوگئی کہ تاج و تخت کسی سے وفا نہیں کرتا۔اور اس بے وفا دنیا کے لیے کتنے لوگ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیے جاتے ہیں اور ایک بادشاہ کے تاج و تخت پر کتنے لوگ قربان ہو جاتے ہیں،وہی تاج و تخت اس بادشاہ سے وفا نہیں کرتا۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کا دل تو پہلے سے اس دنیا سے أچاٹ ہوگیا تھا اور جب بچشم خود تاج و تخت،فتح و شکست کا یہ نظارہ دیکھا تو اس دنیا کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دل میں مزید نفرت آئی۔اس طرح سکون قلب ڈھونڈنے کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ پانی پت میں سپاہیانہ لباس میں گشت کرنے لگے۔

#شیخ_شرف_الدین_کے_مزار_پر:

اس گشت کے دوران آپ رحمتہ اللہ علیہ کو قطب عالم شیخ شرف الدین رحمۃ اللہ علیہ بوعلی قلندر پانی پتی کا مزار نظر آیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل کو اس مزار نے اپنی طرف کھینچا، گاہے گاہے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے قدم بھی أس طرف اٹھنے لگے اور گھوڑے کا منہ مزار کی طرف تھا،جیسے ایک مقناطیس لوہے کے ٹکڑے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔دربار کے دروازے پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا فوجی لباس سامان حرب اور گھوڑا اپنے خدمت گار کے حوالے کردیا،اور اس کو واپس جانے کا حکم دیا اس کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ مزار مقدس پر حاضر ہوئے مزار کے نزدیک آپ رحمتہ اللہ علیہ مراقبے میں چلے گئے،مراقبے کے دوران آپ رحمتہ اللہ علیہ پر شیخ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے انوار و فیوضات اور برکات کی بارش ہونے لگیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ اس دنیا سے متنفر تو پہلے تھے،اور جب یہاں ولی اللہ کے دربار میں یہ شان دیکھی تو دنیا سے مکمل طور پر کنارہ کشی کا مصمم ارادہ کرلیا۔

مراقبے سے فارغ ہوئے تو مزار کی دوسری طرف دروازے سے نکل گئے اور دور ایک ویرانے میں جا کر ذکر الٰہی اور عبادت میں مشغول ہو گئے۔جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کا خادم واپس چھاؤنی پہنچا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد محترم کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تلاش میں واپس شیخ شرف الدین پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار آئے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو مزار پر موجود نہ پا کر واپس ہوئے اور دل میں یہ خیال آیا کہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ تو پہلے سے بھی اس دنیا سے متنفر تھے کہیں نکل گئے ہونگے۔لیکن قلب پدری کو قرار نہ آیا،اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ویرانوں میں ڈھونڈھنے لگے،تلاش بسیار  کے بعد آخر کار آپ رحمتہ اللہ علیہ کو پا ہی لیا ایک ویرانے میں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ یاد الٰہی میں مشغول پائے گئی۔

باپ بیٹے کا سامنا ہوا، بیٹے نے والد محترم کے پاؤں چھونے کے بعد فرمایا"باوا جان! آپ رحمتہ اللہ علیہ مہربانی کر کے مجھے راہ حق پر چلنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔میں مزید آپ کا ساتھ نہیں دے سکوں گا۔کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے اجداد کے پرانے راستے زہد و تقویٰ اور رشد و ہدایت پر چلوں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اور بھی اولاد دی ہے ان سے دل بہلائے۔میں آپ کے کام نہ آسکوں گا۔کیونکہ میرا ارادہ دنیا سے منہ موڑنے کا ہے۔ بواسطہ خدا آپ رحمتہ اللہ علیہ مجھے آزادی دے دیں۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد گرامی جناب سید قنبر علی رحمتہ اللہ علیہ نے مجبور ہو کر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو اجازت دے دی اور اشرفیوں کا ایک تھیلا آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نذر کر دیا۔ لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اشرفیاں لینے سے انکار کر دیا اور فرمایا"میں راہ حق پر نکلنے والا ہوں اور میرے رزق کا بندوست بھی وہی کرے گا،اگر روپے پیسے کا لالچ ہوتا دربار کیوں چھوڑتا"

اپنے والد محترم کی رضامندی دیکھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ بہت خوش ہوئے اور والد محترم سے اجازت لے کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوئے

#مانک_پور_میں_قیام:

والد محترم سے رخصت ہو کر آپ رحمتہ اللہ علیہ مختلف منازل طے کرتے ہوئے مانک پور پہنچے۔ کٹرہ مانک پور آلہ آباد کے نزدیک ایک مقام ہے۔یہاں پر اللہ تعالیٰ کا ایک برگزیدہ بندہ جناب شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ قیام پزیر تھے۔جوکہ شیخ اسلام بہاءالدین  صامت جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے  حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

بحوالہ عبد الحلیم اثر صاحب 'پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے علم نحو کی کتاب کافیہ سے شروع کر کے علم الفقہ کی مشہور کتاب"درسی کتاب" ہدایہ تک پوری دینی کتب پڑھیں۔اور  علومِ ظاہر میں طاق ہوئے(روحانی تڑون مؤلفہ عبد الحلیم اثر صاحب صفحہ 427).

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ شیخ الاسلام حضرت سلونہ رحمۃ اللہ علیہ علمی اور غیر معمولی زہد و ریاضت سے بہت متاثر ہوئے،شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ کامل اولیاء اللہ میں سے تھے۔شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت پابند تھے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک مجلس میں وعظ فرما رہے تھے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صوفی فنافی اللّٰہ تعالٰی تک پہنچ جائے اور اللّٰہ تعالیٰ سے دل لگا لے تو لازم ہے کہ اس پر یہ حالت قائم ہوجائے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی یاد سے کسی وقت غافل نہیں رہتا۔اس پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خود تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا،الحمد اللّٰہ یہ کیفیت مجھے حاصل ہے۔

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ مجھے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اس بات پر یقین نہ آیا کہ انسان ایسی بھی کیفیت طاری ہوسکتی ہے۔ایک دن مجلس میں آپ رحمتہ اللہ علیہ وعظ فرما رہے تھے،اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ذہن اور زبان دونوں مصروف تھے۔تو میں نے سوچا کہ کیا اس وقت بھی شیخ صاحب یاد الٰہی میں مصروف ہونگے؟

میرے دل میں یہ خیال آتے ہی حضرت وعظ سے روک گئے۔چونکہ میں انکے کافی فاصلے پر تھا،تو زور سے بولے"سید علی اس وقت بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں ہوں" یہ سن کر میں دل میں بہت شرمندہ ہوا۔

اس طرح حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سو رہے تھے اور میں پاس بیٹھا ہوا تھا،تو میں نے سوچا کہ اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ نیند میں ہے اور یقیناً آپ رحمتہ اللہ علیہ ذکر الٰہی سے غافل ہونگے۔میرا یہ خیال آتے ہی آپ رحمتہ اللہ علیہ گہرے نیند سے چونک گئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا "سید علی! اس حال میں بھی میں غافل نہیں رہتا"

یہ حال تھا شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ کے کرامات کا،آپ رحمۃ اللہ علیہ پہنچے ہوئے ولی اللہ تھے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ تقریباً دو سال تک شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رہے۔یعنی 934ھ بمطابق 1528ء تک آپ رحمتہ اللہ علیہ شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ سے فیض اور تعلیم و تربیت لیتے رہے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی تعلیم یعنی طریقت میں بیعت کے لیے استدعا کی،شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سونا تو تھوڑی دیر سوچ کر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو جواب دیا کہ طریقت میں بیعت دینے کا  میں مجاز نہیں،البتہ میرا ایک پیر بھائی جو کہ اجمیر شریف میں رہتا ہے،آن کا نام شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ ہے وہ پہنچے ہوئے ولی ہیں،میرا ایک سفارشی خط لیکر انکے پاس چلے جاؤ اور انشاء اللہ وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اس  سلسلے میں فیض  پہنچائے گا۔چنانچہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ سے سفارشی خط لیکر رخصت ہوئے اور کٹھن ترین سفر طے کرتے ہوئے اجمیر شریف پہنچ گئے۔

#اجمیر_شریف_میں_امد:

اجمیر شریف پہنچے پر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ جناب شیخ الاسلام عطاء اللہ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شیخ سلونہ رحمۃ اللہ علیہ کا سفارشی خط ان کے حوالے کردیا۔خط پڑھنے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ سے حسب و نسب پوچھا، معلوم ہونے پر فرمایا " اے سید! سادات صحیح النسب، صحیح العقیدہ ہوتے ہیں اور وہ مخدومی کے قابل اور اہل ہوتے ہیں، مگر روحانی تربیت میں نفس کشی سے کام لیا جاتا ہے۔اور پیر کی خدمت کے بغیر نصب العین تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے لیے مصلئ(جائے نماز) کی خدمت کا کام سپرد کرتا ہوں۔

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی اس خدمت میں کوتاہی نہیں کی اور یہ خدمت کرتا رہا۔اور اس خدمت کو اپنے لیے ایک سعادت جانا اور ایک طویل مدت تک پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر صاحب کی خدمت میں گزارا اور جب کافی مدت تک اس خدمت عالیہ کے امتحان پر پورا اترے۔تب اسے علم سلوک و تصوف کی رموز سے آشنا فرمایا۔

بحوالہ میاں نامہ(قلمی نسخہ) مؤلفہ عبد الرشید کے ایک دفعہ حضرت شیخ المشائخ جناب سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ وضو فرما رہے تھے۔وضو خانہ مسجد کے صحن کے اس پار تھا وضو کرنے کے بعد مسجد میں داخل ہونے کے لیے صحن پر سے گزرنا پڑتا تھا۔ اس دن بارش ہوچکی تھی، صحن میں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا۔وضو خانہ سے مسجد میں داخلی راستے کے صحن میں جگہ جگہ پتھر رکھے ہوئے تھے تاکہ اس پر پاؤں رکھ کر صاف پاؤں لئے مسجد میں داخل ہوسکے۔بارش کی وجہ سے ایک جگہ پانی نے ایک پتھر کو ڈبو دیا تھا۔اگر اس جگہ پاؤں رکھ دیا جاتا تو پاؤں آلودہ ہو جاتا،حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو اپنے پیر صاحب کی پاؤں آلودگی سے بچانے کے لیے اس جگہ یعنی پتھر کی جگہ پانی سے بے نیاز ہو کر لیٹ گئے،شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ نے پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے پشت پر پاؤں رکھا اور دوسرے پتھر تک پہنچے۔شیخ صاحب کا پاؤں رکھنا تھا کہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ پر چودہ طبق روشن ہو گئے اور سلوک کے تمام مراحل ایک ہی جست میں پار گئے، نفس کشی کا یہ ایک بہترین موقع تھا۔یہی وہ وقت تھا جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند مرتبے پر فائز ہوئے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو غوث خطاب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پیر صاحب نے عنایت کیا تھا (تزکرۃ صوفیاء سرحد مؤلفہ اعجاز قدوسی صفحہ62).

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ جب شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا مقصد حاصل کرنے میں پہچان پایا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ پر بیحد شفقت فرمائی۔پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو چند مخصوص نکات سمجھائے ،پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ایک ہفتے تک ان کو ذہن نشین کرتے اور خلوت اختیار کر کے ریاضت کے ذریعے اس کی حقیقت اللّٰہ کی طرف سے عطا ہوتی۔پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ کے خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنی کیفیات بیان فرماتے تھے،شیخ صاحب تحسین آمیز الفاظ میں انکو نوازتے تھے۔اور خود بھی مسرور ہو جاتے،اس کے بعد دوسرے کلمات اور حقائق کے اسباق دیے دیتے تھے۔یہ سلسلہ جاری رہا اور روحانی طور پر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ بلند مرتبے کو پہنچتے رہے تب آنکو مازون و مجاز خلیفہ مقرر کر دیا گیا۔اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ارشاد و ہدایت کی اجازت دے دی گئی۔لیکن پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ لوگوں سے میل جول رکھنے سے باز رہتے تھے اور خلوت نشینی کو آپنا شعار بنا لیا تھا۔اس لیے اپنے شیخ صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ میں تبلیغ و ارشاد کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا۔تو جناب شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ جواب دیا کہ اللّٰہ تعالیٰ آپنی نعمت اہل آدمی کو سونپتا ہے۔یہ نعمت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔لہذا تم پر فرض عائد ہو جاتا ہے کہ اس نعمت سے مخلوق خدا کو فیض پہنچا دو۔لہذا اس کے بغیر اور کوئی چارہ نظر نہ آیا،تو اپنے پیر صاحب کے حکم کو بجالانا شروع کر دیا۔

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سالک کو راہِ سلوک میں منزل مقصود تک پہنچنے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔اور یہ رکاوٹیں ایک قسم کی آزمائش ہوا کرتی ہے۔اور جب سالک ان رکاوٹوں کو بخیر و خوبی عبور کر دیتا ہے تب اللّٰہ تعالیٰ آن کو بلند مرتبے پر فائز کر دیتا ہے۔ آن رکاوٹوں میں سب سے پہلی رکاوٹ شہرت ہے۔یعنی اللّٰہ تعالیٰ اس بندے کی شہرت ملک در ملک کردیتا ہے اور مقناطیس کی طرف وہ لوگوں کو کھینچ لیتا ہے اس درجے پر شیطان بھی سالک کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور اس کے دل میں کبر و غرور پیدا کر دیتا ہے۔ اگر شیطان کے بہکاوے میں آگیا تو گیا کام سے۔اور اگر اللّٰہ علیہ کی فضل سے شیطان کی غلبے سے وہ محفوظ رہا اور اسی شہرت میں اپنی منزل نہیں بھولا اور آگے بڑھا تو کامیاب و کامران ہوا۔لیکن ابھی آزمائش کے مرحلے ختم نہیں ہوئے۔اگے بھی اور امتحانات ہیں،اگر آن امتحانات سے سرخرو ہو کر وہ گزر گیا اور اللّٰہ تعالیٰ کی ذات اور قرب کی نعمت پر اکتفاء کیا اور کسی دنیاوی فریب میں مبتلا نہیں ہوا تو درجہ بدرجہ اس کا مرتبہ بلند تر ہوتا جائیگا۔پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی بہتر(72) رکاوٹوں کا ذکر فرمائیں۔اگر سالک ان بہتر 72 رکاوٹوں سے نکل جائے تب وہ منزل ارشاد کو پہنچتا ہے۔اس منزل سے پہلے سالک کو وعظ و نصیحت نہیں کرنی چاہئے۔

#حضرت_پیر_بابا_رحمۃ_اللہ_علیہ_پر_پہلی_آزمائش_یعنی_شہرت_کا_مرحلہ:

آپ رحمتہ اللہ علیہ عوام الناس میں اس قدر مشہور ہوئے کہ ہر وقت لوگوں کا اجتماع اور ہجوم ٹوٹ پڑتا تھا۔حالانکہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے طبعی میدان تنہائی، مراقبہ اور اپنی تزکیہ نفس تھا۔یہ لوگ آپ کی عبادت میں حائل ہونے لگے۔لیکن پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ آن کے لیے وقت نکال کر کسی کو بیعت شریعت آور بعض کو بیعت طریقت سے نوازتے تھے۔انہی لوگوں میں ملک گدائی اور حاجی سیف اللہ وغیرہ جو گیگیانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے،اور ہمایوں کی فوج میں شامل تھے نیز دوآبہ پشاور کے رہنے والے تھے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرید بن گئے۔

938ھ بمطابق 1532ء کا زمانہ تھا اور ہمایوں بابر کی وفات کے بعد بادشاہ بن گیا تھا۔لوگوں کے انبوہ کثیر دیکھ کر آگر حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ یہی اپنی منزل سمجھتے تو شاید پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مقام آج نہ ہوتا جو آپ رحمتہ اللہ علیہ آئندہ زمانے میں روحانی طور پر ترقی کر چکے تھے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ہجوم خلائق نے مجھے محصور کر ڈالا تو میں نے اپنے پیر شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ سے آپنی اس روحانی تکلیف بارے میں عرض کیا کہ اس کا علاج کیا ہے۔ چنانچہ مرشد رحمۃ اللہ علیہ محترم نے حکم دیا کہ کوہستان کی طرف چلو۔

#گجرات_میں_قیام:

اپنے مرشد سے اجازت پا کر حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ پشاور کی طرف عزم سفر ہوئے،دوران سفر جب آپ رحمتہ اللہ علیہ گجرات کے نواحی گاؤں  داؤد پنڈ کے قریب پہنچے تو ایک شخص جس کا نام بعد میں کیلاس معلوم ہوا، گاؤں کی طرف شور مچاتے ہوئے بھاگنے لگا اور لوگوں کو چیخ چیخ کر پکارنے لگا کہ "جس آدمی کو میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ گاؤں کے قریب آرہے ہیں، نکلو! اپنے نجات دہندہ کا استقبال کرو" دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے استقبال کے لیے نکل آیا۔پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ آخر قصہ کیا ہے؟

تو لوگوں نے کہا کہ کیلاس نے چند دن پہلے خواب دیکھا تھا۔اور خواب میں ہو بہو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حلئے کا آدمی اس نے دیکھا تھا' کہ اس آدمی کے ہاتھ پر یہ سارا گاؤں جو کہ مذہباً ہندو ہے۔مسلمان ہوگا۔اور اس آدمی کے ہاتھ پر سب بیعت کرینگے۔اور جب اس نے یہ خواب دیکھا تو سب لوگوں کو یہ خواب سنا دیا، نیز آپ رحمتہ اللہ علیہ کا حلیہ بھی بیان کیا".

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ شخص کوئی اور ہوگا۔لیکن لوگوں نے اور کیلاس نے یک زبان ہو کر کہ وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی ہیں۔کیونکہ ہو بہو حلیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ہے۔کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر جو لاٹھی ہے وہ اس نے خواب میں دیکھا ہے۔تب پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ آن کے ساتھ گاؤں چلے گئے۔آن سب کو کلمہ شہادت پڑھایا۔شریعت پر سب گاؤں والوں سے بیعت لی۔ایک سال تک آپ رحمتہ اللہ علیہ اس گاؤں میں مقیم رہے۔اور ان لوگوں کو دین اسلام کے بارے میں مکمل تبلیغ کرتے رہے۔

#والد_محترم_سے_دوبارہ_ملاقات؛

جس وقت حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ دؤاد پنڈ(گجرات) میں رہائش پذیر تھے تو اسی دوران شیر شاہ سوری نے ہمایوں مرزا کو شکست دی۔ہمایون راجپوتانہ کے راستے سندھ چلا گیا اور وہاں سے قندھار چلا گیا۔جہاں اس کا بھائی کامران مرزا وہاں کا حاکم تھا،لیکن کامران مرزا نے آنکھیں پھیر لیں تو ہمایون مرزا وہاں سے ایران چلا گیا۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے والد گرامی سید قنبر علی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ ہمایون مرزا کے ساتھ ہندوستان میں تھے اور ہمایون کی شکست کے بعد آن سے جدا ہوئے تھے اور پنجاب کے راستے اپنے وطن کندوز جا رہے تھے (تزکرۃ صوفیاء سرحد مؤلفہ اعجاز قدوسی صفحہ 86) تو راستے میں داؤد پنڈ پڑتا تھا اسی گاؤں میں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ رہائش پذیر تھے۔ یہاں پر باپ بیٹے کی دوسری بار ملاقات ہوئی۔دونوں بڑی گرم جوشی سے ملے والد بزرگوار نے فرمایا کہ بیٹا "تم نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے جبکہ میں شاہان وقت کے ساتھ رہا۔فتح و شکست ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ہمایون نے شکست کھائی اور سندھ کی طرح بھاگ گیا جبکہ ہم اپنے وطن واپس جا رہے ہیں۔آؤ دونوں وطن واپس چلے جائیں، لیکن حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے جانے سے انکار کر دیا،والد گرامی نے دو تھیلے اشرفیوں کے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو دینے چاہیے لیکن پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے لینے سے انکار کر دیا۔والد محترم نے اصرار کیا کہ بیٹے! لیے لو میری طرف سے خیرات کردو، چنانچہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے لے لی اور غرباء میں تقسیم کئے۔ یہ باپ بیٹے کی آخری ملاقات تھی۔جس وقت والد گرامی رخصت ہوئے تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اداس ہوگئے اور اجمیر شریف واپس جانے اور آپنے مرشد سے ملاقات کرنے کی خواہش ہوئی۔

#دوبارہ_سفر_اجمیر_شریف؛

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کے ہجوم گھبراتے تھے لیکن اہل طریقت پر واجب ہوتا ہے کہ لوگوں کو فایدہ پہنچائے۔نیز لوگوں سے میل جول رکھے۔چنانچہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے سوچا کہ واپس اجمیر شریف جا کر اپنے پیر سے استدعاء کروں کہ لوگوں کہ لوگوں کا یہ ہجوم مجھے سے نہیں سنبھالا جاتا۔ لہذا مجھے پیری و مرشدی سے آزاد کر دے اور یا مجھے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے دے۔والد گرامی سے رخصت ہونے کے چند دن بعد واپس اجمیر شریف روانہ ہوئے۔ راستے میں شیر شاہ سوری کے فوجیوں نے آن کی تلاشی لی اور جو نقدی انکے پاس تھی وہ لے لی(روحانی تڑون صفحہ 418).

جب آپ رحمتہ اللہ علیہ اجمیر شریف پہنچے تو معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ وفات پا چکے تھے۔چنانچہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ تعزیت کے لئے انکے بیٹے شیخ حسین رحمۃ اللہ علیہ کے پاس انکے گھر گئے اور حجرے میں داخل ہوئے۔تو شیخ حسین رحمۃ اللہ علیہ مراقبے میں تھے،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ان کے خادمان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ حسین رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبے سے سر اٹھایا تو آن کو دیکھ کر خوشی محسوس کی،اور فرمایا کہ ابھی ابھی مراقبے میں میرے والد گرامی نے مجھے حکم دیا کہ ابھی جو مہمان آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آنے والے ہیں آن کے دو خرقے مبارک ہے،ان میں ایک خرقہ مبارک نووارد کے حوالے کردو اور یہ خرقہ خلافت ہے۔اور دوسرے خرقے کے ٹکڑے کر کے باقی مریدوں میں تقسیم کردو۔

ان میں خرقے پر حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کا نام سید علی لکھا ہوا تھا، اس کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے کردیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ مرشد صاحب کا ارشاد ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کوہستان کی طرف جائے اور وہاں سکونت اختیار کریں۔یہ مشیت ایزدی تھا کیونکہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ تو اپنے آپ کو آزاد کرانے کے لیے آرہے تھے تاکہ مرشد سے آزادی حاصل کریں۔لیکن قدرت آپ رحمتہ اللہ علیہ سے علاقہ یوسفزئی میں کام لینا چاہتے تھے۔اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اولاد کے ہاتھوں جہاں اسلام کی روشنی نہیں پہنچی وہاں اسلام کی شمع روشن کرنا چاہتے تھے۔جو کفر کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور بعد میں انہوں نے اپنے خون سے ان علاقوں میں اسلام کی شمع جلائی اور برف پوش وادیوں کے اس پار اسلام کا بول بالا کردیا۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اجمیر شریف میں چند دن گزارے اور پھر سوچا کہ اگر مرشد کی وصیت پر عمل کرنا مقصود ہو تو کوہستان کی طرف جانا چاہیے۔ لیکن مرشد نے کوہستان کی تخصیص نہیں کی تھی کہ کس علاقے کے کوہستان میں جایا جائے انکا اپنا وطن کندوز ولایت شمالی علاقہ بھ کوہستانی علاقہ ہے۔تب آپ رحمتہ اللہ علیہ آپنے وطن جانے کا فیصلہ کیا۔اجمیر شریف میں قیام کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے علاقے کو براستہ پشاور روانہ ہوئے، پشاور کا پرانا نام پرشو پور  تھا،جبکہ قدیم زمانے میں اس کو باگرام بھی کہا جاتا تھا۔

#پشاور_اور_دوآبہ_میں_آمد؛

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اجمیر سے روانہ ہوئے مختلف منازل طے کرتے ہوئے پشاور آپہنچے۔پشاور کو پھولوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا۔یہ ایک خوبصورت شہر تھا،ساتھ ہی ایک تاریخی شہر بھی تھا،افغانستان نیز سمرقند، بلخ و بخارا میں جانے کے لئے پشاور پر سے گزرنا پڑتا تھا۔سکندر اعظم کے وقت سے لیکر انگریزوں کے دور تک مختلف فاتحین نے پشاور میں اپنی یادگار چھوڑے۔وسطی ایشیا میں داخلے کا راستہ پشاور ہی تھا، حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سفر سے تھکے ہوئے تھے،لہذا چند دن یہاں پشاور میں آرام کی غرض سے ٹہر گئے۔یہی زمانہ غالباً 947ھ کا تھا۔

ایک دن پشاور شہر میں حاجی سیف اللہ گیگیانی اور ملک گدائی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی۔یاد رہے کہ اجمیر شریف میں مذکورہ اشخاص نے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت لی تھی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرید بن گئے تھے،اور اسی عقیدت کی وجہ سے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو مجبور کرنے لگے کہ آن کے ساتھ دوآبہ چلے جائیں۔

دوآبہ پشاور کے نزدیک ایک موضع کا نام ہے۔ اس کو دوآبہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں دو آب یعنی دریا کابل اور دریائے سوات و پچکوڑہ کا سنگم ہے۔اس لیے اس کا نام دوآبہ پڑگیا۔ان دونوں اصحاب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سے نہایت عاجزی سے التجاء کی کہ آپ ہمارے ساتھ ہمارے گاؤں چلئے۔تاکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت سے ہماری آل و اولاد، ہمارے اقربا اور ہماری قوم نیز ارد گرد کے علاقے کے لوگوں کو فیض حاصل ہوسکے۔انہوں نے مزید اصرار کیا کہ ہمارے علاقے میں لوگ غلط رسم و رواج اور بدعات میں مبتلا ہیں۔ان خلاف شرع رسومات کی خاتمے کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا جانا ازحد ضروری ہے۔تاکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت سے لوگوں کا بھلا ہو۔اور غلط کاریوں سے توبہ تائب ہو۔چنانچہ حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ آن کی دلجوئی کی خاطر ان کے ہمراہ دوآبہ تشریف لے گئے۔اس تمام علاقے کے عوام و خواص نے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف رجوع کیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پند و نصائح سے فیض حاصل کرتے رہے۔بہت سے لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرید بن گئے۔کسی نے شریعت پر بیعت کی اور چند مخصوص اہل علم کو طریقت پر بیعت دی۔پرانے زمانے میں مہمانوں کی بہت قدر کی جاتی تھی۔اور خصوصاََ علماء و و صلحاء کی قدر حد درجے زیادہ کیا جاتا تھا۔اور یہی ان لوگوں کا خلوص تھا کہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ ایک سال کا طویل عرصہ دوآبہ میں گزارا،یعنی غالباً 947ھ سے 948 ھ تک پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ دوآبہ میں تھے۔ایک سال گزارنے کے بعد حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وطن جانے کا ارادہ ظاہر کیا،لیکن ان پر خلوص گیگیانیوں کا دل ابھی نہیں بھرا اور  وہ کسی بہانے سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو روکتے رہے،ان بہانوں میں ایک بہانہ یہ تھا کہ یوسفزئی کے علاقے پر بے دین اور ملحد پیروں کا بڑا غلبہ ہے۔اور وہاں کے سادہ دل عوام کو ان پیروں نے آپس میں تقسیم کر دیا ہے اور تمام لوگ مختلف فرقوں اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ہر ایک فرقہ اپنے پیر کے پرستش میں مشغول ہے۔اور یہی برائے نام پیر ان سادہ دل عوام کو لوٹ رہے ہیں۔نیز صحیح دین اسلام سے بھٹکا کر اباحتیٰ عقائد میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ان پیروں میں ایک کا نام پیر طیب جبکہ دوسرے کا نام  پیر ولی بہت مشہور تھے۔لہذا مذہب کے نام پر ان سادہ لوح مسلمانوں کو ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ کرنا آپ رحمتہ اللہ علیہ جیسے ولی اللہ کے لیے لازم ہے۔

#علاقہ_یوسفزئی_میں_آمد؛

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے دینی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ توہین سنی اور مسلمانوں کے اندر  ان گمراہیوں کا وجود پل رہا ہے تو بے تاب ہوا اور ان گمراہیوں کے خلاف لڑائی (جہاد) اپنے لیے فرض سمجھا۔نیز ان سادہ لوح مسلمانوں کو راہِ راست پر لانا بھی اشد ضروری تھا" لہذا حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ علاقہ یوسفزئی کی طرف روانہ ہوئے اور جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علاقہ یوسفزئی پہنچ گئے تو یوسفزئی قبیلے کے لوگوں کے بارے میں اپنے تجزیہ کے بعد فرماتے ہیں۔

1:یہ لوگ سادہ لوح ہے مکر و فریب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

2: دینداری میں جوان بوڑھوں سے بڑھ کر دیندار ہیں۔اور سب کہ سب دین اسلام کے شیدائی ہیں۔

3:دینی امور میں عورتیں مردوں سے بڑھ کر ہیں۔اور دین اسلام کے زیادہ پابند ہے۔

4:یہاں تک کہ بچے بھی اپنے بچپن میں دین اسلام کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔اور دین کو سیکھنے کے نہایت شائقین ہیں۔

5: غرباء جو کہ خان اور ملک کے خدمتگاری انجام دیتے ہیں'خوانین سے زیادہ دیندار ہوتے ہیں۔اسلام سے اس قدر محبت کہ باوجود وہ اس لیے گمراہی میں مبتلا ہے کہ سب بے علم ہیں۔نہ یہاں کوئی دینی مدرسہ ہے جس سے علم دین سیکھ لیا جائے اور نہ ایسے جید علماء اس علاقے میں ہیں جو دینی امور کو سمجھا سکے۔دوسری طرح ناکارہ شیخان اور گمراہ پیروں کی اس علاقے میں بہتات ہے اور ان لوگوں کی بے علمی وجہ سے یہی پیر فوائد حاصل کر رہے ہیں۔اور یہی جعلی اور دنیا پرست پیر شریعت اسلام کے مخالف راستے پر ان لوگوں کو گامزن کرتے رہے۔بہت سارے لوگ ان جعلی پیروں مرید بن گئے تھے جو کہ اسلام اور پیر پرستی کے نام پر بہت سے بدعات ایجاد کئے ہوئے ہیں۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ ان لوگوں (پختونوں) کا قاعدہ ہے جب کبھی کوئی نووارد عالم یا شیخ ان کے علاقے میں داخل ہو جاتا ہے تو لوگ جوق در جوق اس عالم یا شیخ کی زبانی اچھی باتیں اور پند و نصائح سننے آجاتے ہیں۔مگر سننے کی حد تک شوقین ہوتے ہیں اور پند و نصائح پر عمل کرنا گوارہ نہیں کرتے۔کیونکہ اپنی بے علمی کی وجہ سے یہ لوگ کسی صوفی، بزرگ اور جعلی پیر میں تمیز نہیں کرسکتے کہ واعظ کے قول و فعل میں تضاد ہے کہ یکسانیت۔نیز وہ اسلام کے صحیح راستے پر گامزن ہے یا گمراہ ہے۔البتہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہ اہل حق اور باطل میں تمیز کرسکتے ہیں۔ مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کی برابر ہوتی ہے۔

#علی_کلے_سدوم_میں_قیام؛

علاقہ سدوم کو شہباز گڑھ ضلع مردان اب ایک سڑک آتی ہے اور یہی سڑک رستم سے مشرق کی طرف آکر امبیلہ کے راستے بنیر میں داخل ہوتی ہے۔سدوم نام کا کوئی قصبہ یا گاؤں موجود نہیں اس علاقے کا مرکزی قصبہ رستم  کہلاتا ہے۔بہرحال رستم سدم مشہور ہے۔رستم سے شمال مشرق کی طرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں جس کا نام علی کلے(الی کلے) ہے۔اس گاؤں کا علی یا الی جو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر (یعنی سید علی رحمتہ اللہ علیہ) رکھا گیا ہے،جو کہ اب تک علی یا الی کے نام سے مشہور ہے۔اس گاؤں کی مشرق جانب ایک اور گاؤں لنڈے ہے۔دونوں گاؤں علی لنڈے کے نام سے مشہور ہے(روحانی تڑون صفحہ 526).

جس وقت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اس علاقے تشریف لائے تو لوگ جوق در جوق ارد گرد علاقوں سے آکر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مجلس میں شریک ہوتے تھے۔اور پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے وعظ و نصیحت سنتے تھے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "شریعت کے جتنے مسائل مجھے یاد تھے وہ سب کے سب ان لوگوں کو بیان کئے اور ان کو مزید یہ نصیحت کی کہ علم و عرفان(شریعت آور طریقت) دونوں سے باخبر رہنے کے لیے کوشش کریں۔پہلے علم سیکھئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن شریعت کے پابند رہو اور اہل ہوا اور اہل بدعت سے اپنے اپ کو بچالو۔الحمداللہ میری کوشش رائیگاں نہیں گئی اور ان جعلی پیروں کی پیری سے باز رہے۔

رفتہ رفتہ سارے لوگ جو کہ گمراہ اور جعلی پیروں کے نرغے میں پھنس گئے تھے آن سے آزاد ہو کر شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند ہوگئے۔

جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ علاقہ سدوم میں آئے تو یہی ان دونوں پیروں پیر طیب اور پیر ولی کا اس علاقے پر قبضہ تھا۔ان دونوں ملحدان پیروں نے یوسفزئی قوم کے اکثر لوگوں کو اسلام کے روشن راستے سے روگردان کیا تھا۔ان کی گمراہیاں درجہ ذیل ہیں۔

1:پیران ملحدان سرود(موسیقی) کو حلال گردانتے تھے اور ہر وقت ساز بجاتے تھے۔

2:ان سازوں کو سننے عورتیں، مرد، بڑے، چھوٹے سب مل کر بیٹھتے تھے اور پردے کو بلکل ختم کیا گیا تھا،اور ان عورتوں کو بہودہ اور خلافِ شرع احکامات دئیے جاتے تھے۔یہ سب  شریعت کے دائرے سے نکلے ہوئے تھے۔ پیر ولی بڑیچ( نعوذ بااللہ) خدائی کا دعویدار تھا۔

پیر طیب ہندوستان سے آیا تھا۔اور جب پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ علاقہ یوسفزئی میں وارد ہوئے تو پیر طیب ہزارہ کی طرف بھاگ گیا۔لیکن لوگوں میں یہ بات مشہور کی کہ سید علی رحمتہ اللہ علیہ کو میں نے اس ملک سے نکال باہر کر دیا۔

اور پیر ولی کو جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے جب مناظرے کے لیے دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا،اور اس کی کمزوری عوام پر ظاہر ہوگئی۔

اس حالت میں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں اور دوستوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے استدعاء کی کہ اگر آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے وطن قندوز گئے تو یہی معصوم عوام پیر طیب کے بڑ کو سمجھ کر پھر بدعات میں مبتلا ہونگے۔لہذا آپ رحمتہ اللہ علیہ پر لازم ہے کہ ایک سال یہاں اور گزار لے،تاکہ پیر طیب کی پیشن گوئی اور بڑ غلط ثابت ہو جائے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے آن کا کہنا مانا اور اس علاقے میں مزید ایک سال ٹھہر گئے۔

سدوم میں علی کلے قیام کے دوران حضرت اخون درویزہ رحمۃ اللہ علیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے ملے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے گرویدہ ہو کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے حلقہ مریدی میں شامل ہو گئے۔

#علاقہ_سدوم_میں_قبیلہ_یوسفزئی_میں_شادی؛

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے یوسفزئی علاقے میں کچھ عرصہ گزارنے کا قصد کیا،تاکہ پیر طیب کی پیش گوئی غلط ثابت کیا جاسکے اور ان لوگوں کی اصلاح کی جائے اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلایا جا سکے،

جب اس علاقے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا ایک سال گزر گیا،تو پختونوں کے رواج کے مطابق جب کوئی عالم یا شیخ جو ان کو پسند آئے تو اس بزرگ (شیخ) کو اپنے علاقے میں رکوانے کی خاطر علاقے کے معززین (خوانین) اس کو اپنی بیٹی یا بہن عقد میں دیتے تھے،

تاکہ اس قبیلے میں شادی کر کے یہاں بود و باش اختیار کرے اور اس شخص کی برکت سے ان کو خیر پہنچے۔

بیٹی یا بہن کو غیر مشروط طور پر اس شخص کے نکاح میں دے دیتے تھے،اس آدمی سے جہیز یا مہر وغیرہ کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے حضرت محمد گیسودراز رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کا رشتہ کیا جا چکا تھا۔ چنانچہ درجہ بالا رواج کے تحت سودم و بنیر کے معززین میں سے ایک معزز خان جن کا نام ملک دولت خان جو کہ قبیلہ ملی زئی کی ایک شاخ بارکشاہ زئی تعلق رکھتے تھے،اور آپ اس بارکشاہ زئی قبیلے کے سردار بھی تھے۔

آنہوں نے سید علی ترمذی المعروف پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ میری بہن بی بی مریم سے نکاح کرلیں،حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے انکار کر دیا لیکن علاقے کے معززین کہ جرگہ اور اپنے دوستوں مریدوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اس آمر کے لیے مجبور کیا۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس قوم کے عقیدتمندوں اور دوستوں کے اس پرخلوص جرگے کو میں ٹھکرا نہ سکا،اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو "ہاں" کرنا پڑی۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی شادی تقریباً 955ھ یا 965ھ میں ہوئی۔

جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی شادی ہوئی اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کی عمر مبارک 47 سال تھی۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد حضرت شیخ سالار رومی رحمتہ اللہ علیہ کی وصیت اور مشیت ایزدی تھی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اس علاقے (کوہستان) میں مستقل سکونت اختیار کریں۔

بنیر میں قیام کے پہلے سال تک شیر شاہ سوری کی حکومت تھی۔جب شیر شاہ سوری نے وفات پائی تو آپ کے جانشینوں نے کچھ عرصہ حکومت کی اس کے بعد ہمایوں مرزا نے دوبارہ  دلی کے تخت پر قبضہ جمایا۔

یہ 962ھ کا دور تھا۔یعنی حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے بنیر و علاقہ یوسفزئی میں چودہ سال گزر گئے تھے۔اور جب آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے سید مصطفیٰ بابا رحمۃ اللہ علیہ  972ھ میں پیدا ہوئے،تو حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے آبائی وطن قندوز جانے کا ارادہ کرلیا۔کیونکہ اپنے والدین عزیز و اقارب سے جدا ہوئے کافی عرصہ گزر گیا تھا۔

#قندوز_میں_والدہ_صاحبہ_سے_ملاقات؛

طویل مسافت طے کرنے کے بعد حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ اپنے علاقے قندوز میں داخل ہوئے۔یہاں مانوس فضا میں سانس لینے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔والدہ صاحبہ کی قدم بوسی کے بعد والد گرامی کے بارے میں معلوم کیا۔تو والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہ وفات پا چکے ہیں۔اس پر حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ آزردہ ہوگئے اور والد محترم اور دادا محترم کے قبور پر فاتحہ پڑھنے گئے۔کچھ عرصہ قندوز میں گزارنے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ ادھر علاقہ یوسفزئی میں میں نے شادی کی ہے اور بچے بھی ہوئے ہیں اس پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ نے بڑی شفقت اور مہربانی سے فرمایا کہ جب تم نے شادی کی ہے اور بال بچے بھی پیدا ہوئے ہیں تو میری نسبت تمارے بال بچوں کا زیادہ حق بنتا ہے۔اور تمہیں چائیے کہ جلد از جلد اپنے بال بچوں کے پاس پہنچو۔میں تمہیں آپنا حق بخشتی ہوں،اور اگر تمارے بال بچے یہاں آنا چاہتے ہیں تو تمہیں چائیے کہ ان کو یہاں اپنے ہمراہ لے آؤ اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو تمہیں وہاں رہنے کی اجازت ہے۔والدہ صاحبہ نے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے لیے کچھ تیاریاں کیں اور اپنے ساتھ زاد راہ لے کر اپنی والدہ صاحبہ کی بہت سی دعاؤں کے ساتھ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ رخصت ہوئے۔جند دنوں کے بعد واپس علاقہ یوسفزئی میں پہنچ گئے۔

#دوکڈہ_بنیر_میں_قیام؛

والدہ صاحبہ سے ملاقات کے بعد جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ واپس ہوئے تو کچھ عرصے کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ علاقہ گدیزئ میں منتقل ہوئے۔علاقہ گدیزئ کی مرکزی جگہ پاچا کلے ہے اور دوکڈہ جو ایلم پہاڑ کے ترائیوں میں ایک پر فضا اور پر سکون جگہ ہے۔اپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سکونت اختیار کی۔اج بھی دوکڈہ میں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ وہی گھر موجود ہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں رشد و ہدایت کا کام شروع کیا،نیز اس علاقے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا جو کہ آج بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ نام مدرسہ سید عالیہ سے چل رہا ہے اور عوام الناس کو اس میں علم ظاہری حاصل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔

یہاں دوکڈہ میں چھ سال گزارنے کے بعد 978ھ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بایزید کا خط ملا۔ (روہی آدب مؤلفہ محمد نواز طائر صفحہ 207/208 ) آپ رحمتہ اللہ علیہ کو پتا چل کہ پختونوں پر ایک اور بلا نازل ہوئی حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں کہ"افغانوں پر ایک قوی بلا نازل ہوئی،کاش؛ اس علاقے میں اسلام کا بادشاہ ہوتا"اس وقت جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو بایزید کا دعوت نامہ ملا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دعوت دی تھی کہ میرے حلقہ مریدی میں شامل ہو جاؤ۔اس وقت اکبر ہند کا بادشاہ تھا۔جو خود بھی اسلام سے بہت دور تھا اور ایک نیا دین " دین الٰہی"کے نام سے شروع کر کے اس کا پرچار کر رہا تھا۔اس لیے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ کاش یہاں اسلام کا بادشاہ ہوتا۔

نیز مغلوں کا موجودہ صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کوئی بھی اثر و نفوذ نہیں تھا۔ یہ علاقہ آزاد تھا،اکبر نے اس علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی،لیکن کامیاب نہیں ہوا تھا۔

گویا کئی برس اس علاقے میں گزارنے کے بعد حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو بایزید ملعون کا خط ملا۔اور یہ پتہ چلا کہ بایزید ملعون محض سستی شہرت پانے کا دلدادہ تھا۔اور آسے شدید خواہش تھی کہ آسے پیر و مرشد مان لیا جائے۔

#سلسلہ_ہائے_طریقت؛

حضرت سید علی ترمذی المعروف پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو پیران طریقت و مشائخ کی طرف سے چودہ خانوادوں کے سلسلہ ہائے طریقت میں ماذون و مجاز خلافت عطا ہوئی۔ان چودہ خانوادوں میں سے دو سلسلوں اذن و اجازت آپ رحمتہ اللہ علیہ کو آپ کے دادا سید احمد نور رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے ملی تھی۔

1 سلسلہ کبرویہ، 2 سلسلہ قادریہ، باقی بارہ سلسلوں کی اجازت آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے مرشد جناب شیخ سالار عطا اللہ رومی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے ملی۔جن کی تفصیل یہ ہے۔

3: سلسلہ چشتیہ، 4: سلسلہ سہروردیہ، 5: سلسلہ شطاریہ، 6: سلسلہ ناجیہ حلاجیہ، 7: سلسلہ زیدیہ، 8: سلسلہ ادھیمہ، 9: سلسلہ ابو ہریریہ، 10: سلسلہ عجمیہ، 11: سلسلہ داودیہ، 12: سلسلہ کرخیہ، 13: سلسلہ سقطیہ، 14: سلسلہ فردوسیہ۔

#جھوٹے_مدعیان_ولایت

آس وقت پختونخوا میں گمراہ پیروں کے نام درج ذیل ہیں۔

1 بایزید انصاری المعروف بہ پیر روشن و پیر تاریک۔ 2 پیر چالاک، 3 پیر پہلوان، 4 لال شہباز قلندر، 5 پیر طیب، 6 پیر ولی، 7 کریم داد، 8 شیخ الیاس، 9 ملا میرو، 10 شیخ ابراہیم، 11 خلیل روغانی، 12 شیخ میاں خان، 13 شیخ میرداد خیل، 14 ملا عمر شلمانی، 15 ملا رکن الدین، 16 ملا عبد الرحمٰن، 17 تانی مہمنذری، 18 شیخ یوسف مہمنذری، 19 سید احمد بن میرو، 20 شیخ فرید، 21 حاجی عمر، 22 زژی جان، 23 شاہ اسماعیل، 24 میر علی، 25 ابوبکر، 26 عمر،27 شیخ قاسم غوریا خیل،

#حضرت_پیر_بابا_رحمۃ_اللہ_علیہ_کا_پختونخوا_پر_اثرات؛

حضرت سید علی غواص المعروف پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اس خاندان کے چشم و چراغ تھے جن کے اسلاف نے میدان کربلا میں ایک جابر اور فاسق بادشاہ کے خلاف اور دین اسلام میں ایک بدعت کے خلاف آپنا سر کٹوایا اور اسی سارے خاندان نے جس کو ایک جابر نے ایک ایک گھونٹ پانی کے لیے ترسا کر آن کی جان آفرین کے حوالے کروادی تھی۔لیکن خلافت کو ملوکیت میں تبدیل ہونے نہیں دیا۔آن کو ہر قسم کی ترغیبات دی گئی لیکن وہ طمع و لالچ میں نہیں آئے اور کبھی کسی دور میں بھی اس خاندان کے افراد کسی جابر حکمران کے سامنے نہیں جھکے۔مختلف ادوار میں آپنا خون دے کر اسلام کی ٹمٹماتی ہوئی بتی کو روشن کر ڈالا جو آب تک روشن ہے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ جس کا مغلوں کے ساتھ رشتہ داروی تھی۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چھٹی پشت پر دادا سید احمد بیغم رحمتہ اللہ علیہ کا نکاح امیر طیمور گورکان کی ہمشیرہ سے ہوا تھا۔لیکن پانی پت کے میدان میں شاہںوں کی فتح و شکست کو دیکھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ بہت متاثر ہوئے اور دنیا کی بے ثباتی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل اس قدر بھر گیا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دنیاوی حشمت،امارت،جاہ و جلال کو چھوڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے شاہی لباس اتار اور فقیری کا لباس پہنا۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ آگر دنیاوی طمع رکھتے تو مغلوں کے پاس امارت بھی تھی اور جاگیر بھی،آپ رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ وقت کے رشتے دار تھے،اور بادشاہوں کے رشتے داروں کے لیے کسی قسم کی دنیاوی کمی نہیں ہوتی۔لیکن بچپن میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا میلان طبع فقیری کی طرف مائل تھا۔اس لیے کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے پختونخوا میں دین اسلام کے لیے کام لینا چاہتے تھے۔نیز کوہستان میں جو کفار تھے،اللہ تعالیٰ آن کو مشرف بہ اسلام کرانا چاہتے تھے۔اور یہ کام حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اور آن کے اولاد سے لینا چاہتے تھے۔

یوسفزیوں پر اللّٰہ تعالیٰ کا کرم تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپنا ایک برگزیدہ بندے کو انکی رشد و ہدایت کے لئے بھیجا۔اور اسی ہستی کی بدولت بدعات سے پاک معاشرہ قائم ہوا۔اور لوگوں کو بد عقیدہ پیروں سے نجات مل گئی اور وہ صحیح العقیدہ مسلمان بن گئے۔

حضرت اخون درویزہ رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ جب حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ علاقہ سوات و بنیر میں آئے تو اس وقت کے لوگ وحشی اور اجڈ تھے۔آن لوگوں کا کام رہزنی، بردہ فروشی اور ڈاکہ زنی تھا۔وہ شراب کھلے عام پیتے تھے۔ اور شراب کشید کرنے کی بٹھیاں ہر جگہ موجود تھیں۔خود اخون درویزہ رحمۃ اللہ علیہ چشم دید گواہ ہے۔نیز یہاں پر آس وقت کوئی ایسا مصلح قوم نہیں تھا کہ ان لوگوں کی اصلاح کرتے، بلکہ ان پر ایسے پیر مسلط تھے کہ ان کے عقائد و اعمال میں مزید بگاڑ پیدا کرتے۔ان قبائل کی آپس میں دشمنیاں چلتی تھیں۔ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کا جانی دشمن تھا۔ا اسی وقت دریاؤں،پہاڑوں اور جگلات نے سوات و بنیر نیز علاقہ سمہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا تھا۔نیز دریاؤں پر کوئی پل یا اور کوئی ذریعہ آمد و رفت نہیں تھا۔ان حالات میں اور اسی ماحول میں جو کہ برائے نام مسلمان تھے،ان میں تبلیغ کرنا اور انہیں آمر بلمعروف اور نہی عن المنکر پر چلانا بہت مشکل امر تھا۔لیکن حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے حوصلہ نہیں ہارا اور دونوں طرف سے آپنا مشن جاری رکھا۔

(1) دینی تعلیم کے ذریعے شریعت سے آگاہ کرانا، جگہ جگہ مجلس اور مساجد میں مولود کے ذریعے بدعات اور بد عادات کے خلاف جہاد کرنے اور لوگوں کو صحیح عقیدہ اختیار کرنے کی نفسیاتی طور پر عملی شکل دکھانا اور عملی شکل خود حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ تھے،اور انکے وہ مرید جو ظاہر و باطن کا نمونہ بن کر اور خود کو مکمل پابند شریعت اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ڈال کر رہتے تھے۔اور جب انہیں اسلام کی سچی تصویر دیکھائی گئی تو آن لوگوں کی دلوں میں مدارس اور جید علماء کا انتظام کر کے صحیح شریعت کا درس لینے کا جذبہ پیدا ہوگا۔

(2) وہی ملحد پیر جو ان لوگوں کے عقائد میں بگاڑ پیدا کرتے تھے۔آن کے ساتھ مناظرہ کر کے آن کے عقائد کو غلط ثابت کرنا اور آگر پیر توبہ تائب ہو جاتے تو ٹھیک ورنہ عوام الناس میں آنکے خلاف شرع عقائد کو آشکار کرنا۔یہ پیر بابا علیہ رحمۃ کا دوسرا مقصد تھا۔

اسی محاذ پر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اور اخون درویزہ علیہ رحمۃ نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور علاقہ یوسفزئی،علاقہ گیگیانی (تحصیل چارسدہ)شنغر و علاقہ پشاور کو ملحد پیروں سے مکمل طور پر نجات دلا کر لوگوں کو دوبارہ صحیح العقیدہ مسلمان بنایا۔یہی راسخ العقیدہ مسلمان آگے چل کر دین اسلام کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ دینے لگے۔اور آج حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اور آن کی اولاد کی عظمت گن گا رہے ہیں۔

بنیر میں ایک ضرب الامثال مشہور ہے کہ؛

"ایلم لوئے دے کہ پیر بابا ؒ "

ایلم جو کہ ایک پہاڑ کا نام ہے بڑا ہے کہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ۔

یہ ضرب الامثال اسی طرح مشہور ہوا کہ علاقہ بنیر کے لوگ دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔

پہلا گروہ کہتا تھا کہ ایلم پہاڑ بڑا ہے جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ دوہ سرے(دو سر والا) والا پہاڑ  بڑا ہے۔ ایک دفعہ ایلم والے گروہ کے ایک آدمی سے دوسرے گروہ والے آدمی نے پوچھا کہ"ایلم بڑا ہے کہ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ بڑا ہے"

تو اس شخص نے کچھ پریشان ہو کر کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ تجھے بھی ایسے ہی امتحان میں ڈالے جس طرح تو نے مجھے ڈالا۔

آگر ایلم کو چھوٹا کہتا ہوں،تو میری پشتو(خودی) کمزور ہوتی ہے اور اگر پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو چھوٹا کہوں تو کفر کی حد تک پہنچتا ہوں۔

یہی بڑائی اور عظمت بیٹھے بٹھائے نہیں ملتی۔بڑائی بڑے لوگوں کی بیان کی جاتی ہے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو یہی مقام آن کے کارناموں سے ملا ہے۔انہوں نے مجاہدے کیے،محنت کی تب مینار بن گئے۔اور یہی وہ عظمت تھی کہ خوانین میں سے ایک خان نے اپنی بہن آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بیاہ دی۔اور یہی انکی عظمت کا اعتراف تھا کہ بعد میں خوانین یوسفزئی اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی سے کیں۔

پختونخوا میں مانکیال کی ترائیوں سے لیکر بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے ریگزاروں تک،چترال سے لیکر دریائے سندھ کے کنارے تک ہزارہ ڈویژن،افغانستان،ہندوستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد آباد ہیں۔

جس طرح مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے دین میں بدعات اور اکبر کے دین الہٰی کے خلاف مملکت ہند میں عملی اور قلمی جہاد کیا اور لوگوں میں ایسا شعور پیدا کیا کہ وہ بدعت و صحیح اسلامی شریعت کے مابین فرق محسوس کر کے صحیح شریعت نبوی صلی اللہ علیہ کی راہ پر چل سکے۔

اسی طرح حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دور میں پختونخوا میں دین اسلام کے لیے کام کیا۔بدعقیدہ پیروں کی بدعات سے پختونوں میں طہارت پیدا کی اور پختون صحیح العقیدہ مسلمان بن گئے۔اور یہی پختون آج بھی حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ اور انکی اولاد کو بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔اور آج تک حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی گدی کے اثرات باقی ہے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے محنت کر کے پختونوں کو  صحیح العقیدہ مسلمان بنا دیا۔

شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

" زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی"

اور اسی زرخیز مٹی کی نم حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے مہیا کی اور آئندہ زمانے میں اس قوم نے ثابت کر دیا کہ دین اسلام کے لیے اپنے سر تن سے جدا کئے جاسکتے ہیں۔اور ان دشوار گزار برف پوش وادیوں میں اسلام کی شمع روشن رکھا،جہاں پہنچنا محال تھا اور جب اسی قوم کے افراد حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں اور اولاد کی سرکردگی میں ان دشوار گزار پہاڑوں میں پہنچے تو کفار ڈوما نے پہاڑ کی چوٹیوں سے ان پر بڑے بڑے پتھر لڑکھائے جس سے بے شمار افراد شہید ہوئے،لیکن جن کی دلوں میں اسلام کی شمع روشن ہو  تو وہ کب جان کی پرواہ کرتے ہیں۔

اس قوم کو ایک عرب مفکر اور مؤرخ امیر شکیب ارسلان،جو علامہ سید جمال الدین افغانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے،کچھ یو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

"میری جان کی قسم اگر ساری دنیا میں اسلام کی نبض ڈوب جائے اور کہیں بھی اس میں زندگی کی رمق باقی نہ رہے تب بھی کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے درمیان بسنے والوں میں اسلام زندہ رہے گا۔اور ان کی عزائم جوان رہیں گے (حیات پیر بابا مؤلفہ محمد شفیع صابر صفحہ 19).

دنیا میں جو بھی تحریک شروع ہوئی ہے۔اس تحریک کے لیے اللّٰہ تعالیٰ ایک محرک پیدا کردیتا ہے۔علاقہ کوہستان،کافرستان اور چترال میں بے دین لوگوں کو مشرف بہ اسلام رکھنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ یوسفزیوں سے کام لینا چاہتا تھا اور اس نے یوسفزیوں کو حرکت میں لانے کے لیے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو روانہ فرمایا اور یوسفزیوں نے وہ کام کر دکھایا جو کہ شہنشاہ ہند بھی نہ کر سکا۔اس لیے کے مشیت ایزدی یہی تھی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قندوز شمالی افغانستان جو کہ روس کے سرحد پر واقع ہے،وہاں سے حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو اٹھوایا اور ہندوستان میں تربیت حاصل کرنے کے بعد ایک عظیم مصلح کی طرح اس قوم کی اصلاح کی اور اسی قوم نے اصلاح کے بعد وہ کام کر دکھایا جو تاریخ کے اوراق میں زرین باب بن گیا ہے۔

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی خدمات سے اس جدید دور میں بھی کوئی آنکھیں نہیں چرا سکتا۔آنہوں نے پختونوں پر بہت احسانات کئے ہیں۔جس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ حیات تھے تب بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ سے فیض حاصل کیا تھا اور آپ وفات پا گئے تو تب بھی ہزاروں زائرین آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لئے جوق در جوق آتے ہیں۔خاص کر موسم بہار میں تو زائرین کا ایک میلہ لگا رہتا ہے اور تا قیامت حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کے گہرے اثرات پختونوں کے علاؤہ سارے پاکستان پر رہیں گے۔

#حضرت_پیر_بابا_رحمۃ_اللہ_علیہ_کو_دنیا_کے_جاہ_و_جلال_سے_نفرت_تھی؛

پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو دنیاوی جاہ و جلال سے نفرت تھی۔جب کبھی آپ کے والد صاحب آپ کو مجبور کر کے مغلیہ دربار لے جاتے تھے۔تو واپس آکر آپ رحمتہ اللہ علیہ شاہی لباس اتارتے تھے اور فقیرانہ لباس پہن کر علماء اور صوفیاء کی صحبت میں شمولیت اختیار کرتے تھے۔حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کو مغلیہ دربار سے امارت اور جاگیر نیز دنیاوی جاہ و جلال مل جاتا آگر آپ رحمتہ اللہ علیہ مغلوں کا ساتھ دیتے۔لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پانی پت کے مقام پر دنیاوی جاہ و جلال کو لات مار کر اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ایک کھٹن راستہ اختیار کیا۔

"خوشا رندی کے پا مالش

کنم صد پار سائی را

تو آں شاہی کہ شاہان کج کلا ہے

مگس را میدی فزو ہمائے

أس گلی کا گدا ہوں میں جس میں

مانگتے تاجدار پھرتے ہیں

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعل پاک حضور  ﷺ

تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں۔

#اولاد؛ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں تھے۔

بیٹوں کے نام درج ذیل ہیں ۔

1؛ سید احمد ۔ 2؛ سید مصطفیٰ۔ 3؛ سید حبیب اللہ(لاولد)، 4؛ سید عبداللہ(لاولد)۔

#وفات؛

حضرت پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ نے 991ھ بمطابق 1583ء  کو علاقہ گدیزئ بنیر میں وفات پائی اور پاچا کلے میں دفن کئے گئے۔پاچا کلے کے پیچھے شمال مشرق سمت سکنہ نربٹول میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی چلہ کشی کا ایک غار آج بھی موجود ہے۔جسے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چلہ گاہ کہا جاتا ہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے ساتھ اب ایک جامع مسجد بھی بن چکی ( سید پائندہ شاہ المعروف چڑی بابا جو کہ چکٹ کروڑہ کے رہائشی تھے،انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 1937/38ء میں کیا تھا)۔نیز زائرین کے لئے یہاں لنگر بھی چلتا ہے۔

#تحریر سید عظمت شاہ عرف آیان آف کروڑہ

#حوالہ_جات

1 تذکرہ سادات ترمذی مؤلفہ سید عبد الاحد شاہ ترمذی سوات۔

2 تذکرۃ صوفیاء سرحد مؤلفہ اعجاز قدوسی۔

3 تذکرۃ الابرار مؤلفہ اخون درویزہ رحمۃ اللہ علیہ۔

4 عبرۃ الاولی الابصار مؤلفہ سید عبد الجبار شاہ سابق بادشاہ سوات۔

5 روحانی تڑون مؤلفہ عبد الحلیم اثر۔

6 حیات پیر بابا مؤلفہ محمد شفیع صابر۔

7 روہی آدب مؤلفہ محمد نواز طاہر۔آپ کا اصل نام"سید علی ترمذی" تھا۔ معروف نام پیر بابا ہے۔ آپ سادات ترمذ میں سے تھے۔ آپ کی پیدائش 908ھبمطابق 1502ء میں بمقام قندوز (پرانی کتابوں میں اس کا نام ترمذ ہے) کنڑ میں ہوئی۔ آپ کا نسبی تعلق امیر کبیر سید علی ہمدانی سے ہوتے ہوئے امام زادہ محدث مدینہ حضرت سید حسین اصغر بن حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام بن حضرت امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے، اس وجہ سے آپ کو سادات ترمذی عابدی الحسینی سے بھی جانا جاتا ہے۔

آپ کے والد بزرگوار سید قنبر علی ہمایوں بادشاہ کی فوج میں کمانڈر تھے۔ پیربابا کی ابتدائی تربیت آپ کے دادا جناب سیداحمد نور یوسف نے فرمائی ۔ آپ ایک صوفی باصفا اور ولی الله تھے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے متوسلین کو شریعت مطہره کی پابندی کا درس دیا۔

[1]پیر بابا رح کا شجرہ نسب

پیر خراسان میرسید علی ترمذی المعروف پیربابا رحمتہ اللہ علیہ مزار مبارک بونیر شریف پاکستان بن میرسید قنبرعلی گورنر قندوز رح بن میر سید احمد نور ترمذ رح بن میرسید یوسف نور ترمذ بن میر سید احمد ترمذ بن میر سید محمد ہمدانی مرود شہر کولاب تاجکستان بن مبلغ اسلام امیر کبیر میر سید علی یمدانی رح مزار شہر کولاب تاجکستان بن میر سید شہاب الدین شاہ بزاش مولد ہمدان مرقد گمبد علویان ہمدان ایران بن میر سید محمدباقر الحسینی مولد ہمدان مرود علویان ہمدان ایران بن میر سید علی الاکبر مولد ہمدان مرقد گمبد علویان ہمدان ایران بن میر سید یوسف الحسینی مولد ہمدان مرقد دامن کوہ الوند عباس باد بن میر سید محمد شرف الدین مولد بلخ مرقد ہمدان ایران بن میر سید محمد محب اللہ مرقد بلخ بن میر سید ابوالکامل جعفر بلخی مرقد بلخ بن میر سید عبداللہ بلخی مرقد بلخ بن میر سید محمد اول مرقد بلخ بن میر سید ابوالقاسم علی مرقد بلخ بن سید ابوعلی الحسن مرقد بلخ بن سید عبداللہ الحسین مرقد مدینہ منورہ بن سید جعفر الحجتہ مرقد جنت البقیع مدینہ منورہ بن سید عبید اللہ الاعرج مرقد امرا مداین عراق بن محدث مدینہ امام زادہ سید حسین اصغر علیہ السلام مرقد جنت البقیع مدینہ منورہ بن حضرت امام علی زین العابدین علیہ السلام جنت البقیع مدینہ منورہ بن حضرت امام الشھید دشت کربلا حسین علیہ السلام کربلا المعلیٰ عراق بن امیر المؤمنین امام المتقین مولا علی علیہ السلام کرم اللہ وجہہ نجف اشرف عراق الکریم بن ابو طالب علیہ السلام و سیدۃ النساء اھل الجنۃ فاطمۃ الزھرہ البتول سلام اللہ علیہا جنت البقیع مدینہ منورہ بنت امام الانبیاء و المرسلین سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

القابات

[ترمیم]

غواص بحر حقیقت، غوث خراساں پیربابا

سلسلہ تصوف

[ترمیم]

آپ نے شیخ سالار رومی سے بیعت فرمائی تھی۔ انھوں نے مجاہده کے بعد آپ کو سلسلہ چشتیہ، سہروردیہ، شطاریہ اور جلاجیہ میں اجازت عطا فرمائی۔ سلسلہ کبرویہ میں آپ کو اپنے دادا جان سے اجازت حاصل تھی۔ آپ خود فرماتے ہیں: اذن سلسلہ کبرویہ فقیر از نجاست یہ سلسلہ کبرویہ نسل در نسل جنا ب شیخ جمال الدین کبریٰ سے چلا آ رہا ہے۔ تکمیل علوم کے بعد روحانی فیوض و برکات کے حصول کے لیے آپ پانی پت میں شاہ شرف الدین قلند ر کے مزار پر حاضرہوئے ،اور فیض باطنی سے شرف الدین قلندرنے آپ کو نواز ا ۔

سخاوت

[ترمیم]

آپ کی طبیعت مبارکہ میں اتنی سخاوت تھی کہ کوئی سائل بھی آپ کے دروازہ سے خالی نہیں لوٹا ، مسافروں کو زاد راہ مہیا کرتے۔ بیماروں کی عیادت کے ساتھ مالی امداد بھی کرتے۔ آپ کا لنگر ہر وقت جاری رہتا اور ان گنت لوگ آکر روٹی اور کپڑا حاصل کرتے. حضرت اخوند درویزہ فرماتے ہیں کہ کسی وجہ سے کچھ عرصہ میں آپ سے ملاقات نہ کرسکا ۔ آپ نے سبب پوچھا میں نے عرض کیا کہ حضورخالی ہاتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا مناسب نہیں سمجھتا، آپ نے اعراض کرتے ہوئے فرمایا ۔ وہ لوگ جو اونٹ ،گائے اور گھوڑے لنگر میں پیش کرتے ہیں ان کو میں دوست یا مرید نہیں خیال کرتا ۔ بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جانتا ہوں۔ مگر ہاں میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے ہیں اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں۔[2]

شادی

[ترمیم]

علاقه یوسف زئ کے ایک بڑے خان نے جس کا نام ملک دولت ملی زئ تھا اور قبیله بارکشازئ سے تعلق رکھتاتھا, آپ کو اپنی همشیره بی بی مریم حباله عقد میں دے دی, اور آپ اس علاقه میں مستقل سکونت پزیر هوئے اور الله تعالی نے آپ کو اولاد دی. [3]

بونیرشریف میں قیام

[ترمیم]

آپ مقام بونیرشریف میں مستقل قیام پزیر ہو گئے۔ اپنے شیخ کے حکم کے مطابق کو ہستانی علاقہ میں خانقاہ قائم کر کے سلسلہ کی تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ لنگر جاری کر دیا۔ درس تدریس کا انتظام کیا۔ بڑے بڑے علما اور صلحاء آپ کے دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہوئے ۔[4]

اولاد و خلفاء

[ترمیم]

آپ کے تین بیٹے سید حبیب ، سید مصطفی اور سید احمد تھے۔ اول الذکر جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ جبکہ سید مصطفی بابا اور سید احمد بابا سے آپ کا سلسلہ نسب چلا۔ سید مصطفی کی کثیر اولاد ہیں آپ کے چار فرزندان کے ذریعے نسل بڑھی سید عبدالوہاب المعروف میاں اودل بابا ، سید شامیر، سید قاسم المعروف میاں قاسم بابا اور سیدحسن۔ سید حسن وادی سوات میں مرغزار کے مقام پر ابدی نیند سو رہے ہیں۔اور سید قاسم کی اولاد کا سلسلہ سوات ،مردان ،چارسدہ ،مانسہرہ,ہری پور ،بوگڑ منگ ،ناران ،کاغان اور دیرتک پھیلا ہوا ہے کچھ ان میں سے سید بہرام شاہ المعروف ( مٹئ بابا) کی أولاد ہے اب وہ شنکڈ،سورڈھيرے، شلتالو،ملم اور سر سرداری میں رہتے ہیں-سید قاسم بابا کے بیٹے سید شیخ کبیر کے بیٹے سید پیر امام المعروف میاں مانڈہ بابا کی اولاد سوات وادی پیوچار میں اباد ہیں کچھ دیر میں بھی اباد ہیں محقق و ماہر انساب سادات وادی پیوچار پیر سید عارف علی شاہ ترمذی اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اور سید عبد الوہاب کا مزار ضلع بونیرشریف کے گاؤں شل بانڈی کے مقام پر ہے۔ آپ کی اولاد کا سلسلہ صوبہ سرحد کے علاقہ ہری پور، مانسہرہ' ایبٹ آباد، آتیراں، گھنیاں، چور کلاں سے افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ پیر بابا کے بے شمار مریدین تھے۔ خلفاءمیں سے آخوند درویزہ کو جو فضیلت وعظمت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ ان کا اصلی نام عبد الرشید تھا اور ننگر ہار افغانستان کے رہنے والے تھے۔ لیکن عمر کا زیادہ حصہ پشاور، اطراف پشاور اور سوات وبندیل میں بسر کیا تھا۔ بچپن سے ہی ان پر خوف الہٰی طاری رہتا تھا۔ حصول علم کے بعد ہی پیر بابا سے وابستہ ہو گئے تھے۔

وفات

[ترمیم]

آپ نے 991ھ بمطابق 1583ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار شریف مینگورہ (سوات) سے چالیس میل کے فاصلے پر ضلع بونیر شریف کے موضع پاچہ کلے میں ہے۔

ملفوظات

[ترمیم]
  • ”اپنے ایمان اور بہت سے لوگوں کے ایمان کو زوال سے بچاؤ“۔
  • ”عام مسلمانوں کو سیدھا سادہ دین بتاؤ کیونکہ آج کل لوگ علم پر گھمنڈ کرتے ہوئے گمراہ ہو رہے ہیں۔ طریقت کی حقیقت سے آگاہ نہیں۔ اس لیے مختلف نظریات کے شکار ہوجاتے ہیں “۔
  • ”میرے دوست اور مرید وہ ہیں جو مجھ سے روحانی فائدہ حاصل کرتے اور میرے احوال پر نظر رکھتے ہیں“۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Hazrat Pir Baba (Rahmatullahi Allaih)"۔ 29 اکتوبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2017 
  2. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
  3. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول صفحه نمبر 10,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
  4. تذکره علما و مشائخ سرحد جلد اول,مصنف: محمد امیر شاه قادری, ناشر: عظیم پبلشنگ هاؤس, خیبر بازار پشاور
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

القمری فی انساب الطالبین المعروف سادات قبائل مؤلف سیدقمر عباس ہمدانی رسالہ نسب نامہ سید علی ترمذی مؤلف سیدقمر عباس ہمدانی