سید عنایت اللہ شاہ بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید عنایت اللہ شاہ بخاری
معلومات شخصیت
پیدائش 1910ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اننت ناگ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 20 مئی 1999  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت مجلس احرار الإسلام
جمیعت علمائے اسلام  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند
جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ انور شاہ کشمیری،  شبیر احمد عثمانی،  محمد اعزاز علی امروہوی،  کفایت اللہ دہلوی،  مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوری  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

مولاناسیدعنایت الله شاہ بخاری ماضی قریب کے اکابر علما میں سے تھے۔ ان کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا۔

پیدائش اور خاندان[ترمیم]

آپ1915ءسے قبل ریاست کشمیر کے علاقہ گوہل میں جلال الدین کے گھرپیداہوئے۔ ان کے سلسلہ نسب کے ایک معروف بزرگ جلال الدین جہانیاں جہاں گشت اوچ میں مدفون ہے۔سوانح حیات سیدعنایت الله شاہ بخاری رح ص26،علامہ عنایت الله گجراتی،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازار پشاور،طبع سوم مارچ2007ء

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے ممتاز علما سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے جہاں اکابر علما سے علم و ادب کی کتابیں پڑھیں۔ بعد ازاں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سورت پہنچے اور محمد انور شاہ کشمیری اور شبیر احمد عثمانی سے دورہ حدیث پڑھ کر سندالفراغ حاصل کی۔ آپ کو جن دوسرے اکابر اساتذہ سے شرف تلمذ حاصل ہوا، ان میں مولانا اعزاز علی امروہی ،محمد ابراہیم بلیاوی،مفتی کفایت الله دہلوی اورمفتی مہدی حسن شاہجہان پوری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

بیعت[ترمیم]

فراغت کے بعد آپ حسین علی الوانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے دورہ تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ سلوک وتصوف کی تعلیم بھی حاصل کی اور خلافت واجازت سے نوازے گئے۔ مولانا حسین علی؛شخصیت،تعلیمات،کردارص298، میاں محمدالیاس،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازارپشاور،بدون تاریخ

دینی خدمات[ترمیم]

تقسیم ہندسے قبل مجلس احرارکے ساتھ وابستہ رہے اور بڑی سرگرمی سے کام کرتے رہے۔ پھر تنظیم اہل السُنت والجماعت پاکستان کے صدر منتخب ہوئے اور ناموسِ صحابہ کے تحفظ کے لیے گراں قدرخدمات انجام دیے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا اور ملتان جیل میں پابند سلاسل رہے۔1955ءمیں احمدعلی لاہوری نے آپ کوجمعیت علمائے اسلام کا ضلعی امیر مقرر کیا۔ 1957ءمیں شیخ القرآن غلام الله خان، قاضی نور محمد اورشیخ الحدیث قاضی شمس الدین کے ساتھ مل کر اہل بدعت کے خلاف ایک ملک گیر تنظیم جمعیت اشاعت التوحید والسنہ پاکستان کے نام سے تشکیل دی،جس کے پہلے امیر قاضی نور محمد اور آپ نائب امیرمنتخب ہوئے۔1962ءمیں قاضی صاحب کی وفات کے بعد آپ جمعیت کے امیر منتخب ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کم وبیش کوئی چالیس برس سے آپ جامع مسجدشاہ فیصل گیٹ گجرات کے خطیب چلے آ رہے تھے۔عالم شباب میں پورے ملک میں آپ کی خطابت کاچرچا تھا اوراہل بدعت کے ایوانوں میں آپ کی ولولہ انگیز خطابت نے زلزلہ برپا کیے رکھا تھا۔اعلیٰ درجہ کے خوش الحان،خوش بیان خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کو سحر انگیز طریق پر پڑھنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ تقریر کے وقت اردو کے بلندپایہ ادیب معلوم ہوتے تھے۔ آپ ایک عظیم خطیب، ذہین مقرر،اعلیٰ مدبّر اور شیخ طریقت تھے۔جامعہ ضیاءالاسلام گجراتکے بانی ہیں۔ سیاسی نظریات میں شبیر احمد عثمانی، ظفر احمد عثمانی،مفتی شفیع عثمانی اور احتشام الحق تھانوی کے ہم خیال رہے ہیں۔1970ء میں مرکزی جمعیت کی کانفرنسوں میں ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ان حضرات کے ساتھ شریک سفر رہے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیتے رہے۔ 1983ءمیں آپ نظام اسلام پارٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے جس کے صدراحتشام الحق تھانوی تھے۔1984ءمیں مرکزی مجلس عمل برائے ختم نبوتکے رکن رہے۔

مولانا حسین علی شخصیت،تعلیمات کردارص299

1985ءمیں آپ رضاکارانہ طور پر جمعیت اشاعت التوحیدوالسنہ کی امارت سے دستبردار ہوئے اور شيخ القرآن والحديث مولانا محمدطاہر کو امیر مقرر کر دیا۔

مولانا محمدطاہر اوران کی قرآنی تحریک ص261،262،میاں محمد الیاس،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازارپشاور،طبع دوم اپریل 2012ء

تصانیف[ترمیم]

آپ کی قلمی کاوشوں میں

  • شجرہ بدعات
  • ادخال الباغین اور
  • تذکرة البخاری شامل ہیں۔[1]

حال ہی میں آپ کے اول الذکر دو رسائل اور چند خطبات کا مجموعہ افادات بخاری کے نام سے مولانا اشرف سلیم نے شائع کیا ہے۔ آپ رح کے مکتوبات بھی قابل اشاعت ہیں لیکن اس جانب تاحال کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔

خلاصہ[ترمیم]

الغرض آپ نے ساری زندگی اہل بدعت اور اہل باطل کے خلاف جنگ لڑی ہے اور باطل کو ہر میدان میں شکست دی ہے۔ تحریک ختمِ نبوت ہو، تحریک بحالیء جمہوریت ہو یا لادینی عناصر کے خلاف تحریک ہو، آپ ہر میدان میں صف اول میں نظر آئے۔

وفات[ترمیم]

شاہ جی آخری عمر میں علیل ہو گئے تھے اور کچھ ہی عرصہ بیماری میں گزار كر آخر 20 مئی 1999ء بروز جمعرات کو علم و عمل کا یہ آفتاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب گیا۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. علمائے اشاعت کی تصنیفی خدمات،حشمت علی صافی،اشاعت اکیڈمی قصہ خوانی بازار پشاور،اپریل 2006ء
  2. مولانا محمد طاہر اور ان کی قرآنی تحریک ص 125 حاشیہ