سید فضل حسین شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سید فضل حسین شاہ
سید فضل حسین شاہ درمیان میں کھڑے ہیں، فوٹو 1944
پیشہروشن خیال ٹیچر, اہل تصوف، امامت اور خطابت
قومیتپاکستانی
نسلمشہدی حسینی سید
موضوعروشن خیال ٹیچر, اہل تصوف، امامت اور خطابت
شریک حیاتزلیخا, حنیف جان
اولادسید مظفر حسین شاہ، سید ممتاز حسین شاہ، سید غضنفر حسین شاہ، سید اقبال حسین شاہ، سید خورشید حسین شاہ، سید سجاد حسین شاہ.
ویب سائٹ
http://sfhteacher.blogspot.com//

یونین کونسل بیروٹ میں اگر تعلیم[1] کے حوالے سے احترام کے ساتھ ابتدائی اساتذہ کا نام لیا جائے تو جو تابناک نام سامنے آتے ہیں ان میں حضرت مولانا میاں محمد اسماعیل علوی، سید فضل حسین شاہ مشہدی اور شاعر کوہسار مولانا میاں محمد یعقوب علوی بیروٹوی[2] کے نام قابل ذکر ہیں، ان اساتذہ کرام نے تعلیم و تدریس کے میدان میں مقامی لوگوں کی دو نسلوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور علم کی ان راہوں کو روشن کیا جن پر چل کر آج بیروٹ کے لوگ ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

خاندانی پس منظر[ترمیم]

سید فضل حسین شاہ مشہدی حسینی سادات قبیلہ[3] سے تعلق رکھتے ہیں، سانحہ کربلا کے بعد حضرت سجاد (زین العابدین) کے جانشینوں نے بنوامیہ کے ان قاتلان حسین سے تحریک علویہ [4] کے پرچم تلے جس انتقام کی بنیاد رکھی اس سے عالم اسلام کا بچہ بچہ آگاہ ہے، آپ کے آبا و اجداد مدینہ سے سر زمین عراق اور مشہد (ایران) سے ہوتے ہوئے ہندوستان میں آئے، گکھڑوں کے عہد میں لورہ کے ڈھونڈ عباسیوں نے ان کی دینی، تعلیمی اور دیگر خدمات مستعار لیں اور انھیں ایک بڑا زرعی خطہ اراضی بھی مالکانہ حقوق کے ساتھ ہبہ کیا، بیروٹ میں آباد اس سادات خاندان کے مورث اعلیٰ جیون شاہ کو ایک سانحہ کے نتیجے میں راہی لورہ سے بے وطن ہونا پڑا، پہلے وہ نڑول (آزاد کشمیر) گئے اور وہاں سے وہ بیروٹ آئے اور بیروٹ کی پہلی مسجد کی امامت اختیار کی اور پھر وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے، ان کے یہاں چار فرزند ہوئے، سید فضل حسین شاہ مشہدی ان کے بڑے بیٹے نور حسین شاہ کی دوسری بیوی کی اولاد میں سے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔

ولادت، تعلیم اور تدریس[ترمیم]

سید فضل حسین شاہ 1900 میں بیروٹ میں پیدا ہوئے، ،[5] ابتدائی تعلیم اپنے والد سید نور حسین شاہ سے حاصل کی، وہ مزید دینی و عصری تعلیم کے لیے اس وقت کے معلم سید معصوم علی شاہ کے گشتی مدرسہ (Mobile School) میں داخل ہوئے، وہ پیدائشی طور پر ایک ذہین اور ہونہار شاگرد تھے، انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے دوسال میں ہی پرائمری امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کر لیا اور محض 12سال کی عمر میں کہو شرقی، باسیاں اور دیگر مقامات پر اپنے استاد سید معصوم علی شاہ کے ہمراہ درس و تدریس میں مشغول ہو گئے مگر 1918 میں جب ان کے استاد نے انھیں اہل تشیع کے مسلک سے منسلک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے ان سے مسلکی اختلاف کرتے ہوئے ان کے اسکول سے علیحدگی اختیار کر لی، اسی عرصہ میں ویرنیکلر پرائمری اسکول بیروٹ میں مزید اساتذہ کی ضرورت محسوس کی تو اسکول کے اول مدرس مولانا میاں محمد اسماعیل علوی کی تجویز پر آپ نے اسکول جوائن کر لیا [6] اپنی لیاقت، اہلیت، علمیت اور گہری پیشہ ورانہ وابستگی کی بنا پر اس وقت کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر منموہن رام نے ان کی ترقی کی سفارشات پیش کیں اور ایک تقریب میں انھیں نائب مدرس کے عہدے پر فائز کر دیا گیا، 1919 میں ان کے والد نور حسین شاہ کی خواہش اور مولانا میاں میر جی علوی کی کوششوں سے حضرت مولانا میاں پیر فقیراللہ بکوٹی نے اپنی سوتیلی مگر جان سے عزیز بیٹی زلیخا کو ان کے عقد میں دیدیا اور ان کے ہی کہنے پر اپنے والد کی جگہ بیروٹ کی مرکزی جامع مسجد بگلوٹیاں میں امامت اور خطابت کے فرائض بھی سنبھال لیے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے لحن دائودی عطا کیا تھا اور آپ کا خطبہ جمعہ سننے سے تعلق رکھتا تھا، سرکاری اسکول میں تدریس اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ بھی جاری رہی مگر وہ اپنے گھریلو و خاندانی تنازعات اور الجھنوں سے زندگی بھر نبرد آزما رہے، ان کی خانگی زندگی پر پہلا وار ان کے سوتیلے اور بڑے بھائی میر جی شاہ نے کیا جس کی وجہ سے ان کی پہلی شادی ناکام ہو گئی تاہم مولانا میاں میر جی علوی کی کوششوں سے ہی ان کے قریبی رشتہ دار اور بیروٹ خورد کی قریشی برادری کے سربراہ مولانا میاں نور عالم قریشی کی اکلوتی صاحبزادی حنیف جان کو ان کی زوجیت میں دیدیا گیا، اس تعلق نے سید فضل حسین شاہ کے لیے سماجی ترقی، علمی آفاق جہاں روشن ہوئے وہاں ہی اپنوں کی کمی کو خاصی حد تک کم کر دیا، سید فضل حسین شاہ نے بھی اس احسان کا بدلہ ان کے بیروٹ خورد سے دائمی انخلا کی صورت میں ممکن بنا کر ادا کیا، انھوں نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود اپنی ساری نرینہ اولاد کو اعلیٰ تعلیم دی۔

سید فضل حسین شاہ کی شخصیت کا دوسرا پہلو[ترمیم]

وہ ایک روشن خیال ٹیچر ہونے کے باوجود اپنی بیٹیوں کو پرائمری سے زیادہ تعلیم دینے کے حق میں نہیں تھے، انھوں نے اپنے ایک یتیم بھانجے خوشنود المعروف ٹہلا شاہ کو بھی اسکول نہیں بھیجا بلکہ اسے پرائی اولاد سمجھ کر نہ صرف اپنا بے دام نوکر بنایا بلکہ ان کی اولاد نے ان کے بعد اسے باقاعدہ غلام سے بھی بد تر بنا دیا، دنیا جانتی ہے کہ ان کا ایک بیٹا اسے خنازیر کا مریض ہونے کے باوجود پتھروں سے مار مار کر لہو لہان کر دیا کرتا تھا، اس غلامی سے اس نے 1966 میں فرار ہو کر نجات پائی، جو سید فضل حسین شاہ کے مشن، تدریس کے مقدس مشن اور بہنوں اور بیٹیوں کی اولاد کے ساتھ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کی وجہ سے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان کے خانگی کردار پر ان کے چھوٹے بھائی اشرف شاہ بھی عمر بھر شاکی رہے۔ ان کی بعض خانگی پالیسیوں کی وجہ سے ان کے بہنوئی سید غلام نبی شاہ، سید محمود شاہ، سگے بھائی سید غلام رسول شاہ کا ان سے زندگی بھر اختلاف رہا، انھوں نے ایک دوسرے کی غمی خوشی کو بھی چھوڑ دیا، واقفان حال جانتے ہیں کہ اگر ان کا سسرال ان کا ساتھ نہ دیتا تو شاید ان کا باقی رہنا بھی ممکن نہ ہوتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنی مشکلات کے باوجود انھوں نے عزت اور شہرت کمانے کے علاوہ جتنی بیروٹ میں جائداد بنائی اتنی ان کے خاندان میں کسی کو آج تک نصیب نہیں ہو سکی تاہم وہ اپنی حقیقی بیٹیوں کو بھی اپنی جائداد میں حصہ دینے سے عملی طور پر محروم رہے یہی وجہ ہے کہ آج ان کی پانچ بیٹیوں کا نام ان کی جائداد کے کاغذات میں موجود نہیں ہے۔

وفات اور تدفین[ترمیم]

سید فضل حسین شاہ 1956 میں اپنی سرکاری ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے، وہ ایک بیتاب شخصیت ہونے کی وجہ سے ہر وقت کچھ کرتے رہنا چاہتے تھے، انھوں نے چہٹے کی ٹہنڈی (جہاں آج کل ممتاز شاہ کا مکان ہے) میں بورڈنگ ہائوس کے نام سے ایک مکان بنوایا اور وہاں منتقل ہو گئے، یہاں انھیں اپنے خاندانی مخالفین پر اپنی اخلاقی، علمی، دینی اور سماجی برتری کی وجہ سے بھی ایک اطمینان حاصل ہوتا تھا ساتھ ہی گائوں بھر کے لوگ ان کے پاس اسی جگہ روحانی مسائل، مشکلات اور الجھنوں کے حل کے لیے بھی آتے اور من کی مراد پاتے، دن کو وظائف کرتے اور ساری ساری رات نوافل ادا کرتے ہوئے گزرتی، زندگی کے آخری برس مارچ کے بعد ان کی طبیعت خاصی خراب رہنے لگی، انھیں دمہ، مرض شقیقہ اور دیگر امراض بھی لاحق تھے، انھیں علاج معالجے کے لیے راولپنڈی میں حکیم نتھو کے پاس لایا گیا تو اس نے انھیں کینسر کا مریض قرار دیا، 1958 کے ستمبر میں ان کی دوسری بیٹی کی علوی اعوان برادری میں انہی کی خواہش پر شادی ہوئی اور اگلے ہفتے 28 ستمبر کو زندگی کے آخری سانس پورے کیے، انھیں بیروٹ کے اجتماعی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. History Of Education In India By N. Jayapalan, page 48
  2. Molana Yaqoob Alvi Birotvi Umer Khyam of Circle Bakote
  3. Ziaraat.com - Online Books
  4. تاریخ علوی اعوان از محبت حسین اعوان، کراچی
  5. Tribes of Circle Bakote
  6. Educational History of Birote

بیرونی روابط[ترمیم]