سید محمد تقی بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید محمد تقی باقری بلخی بخاری حسینی فریدی آپ سیدنا بابا فرید کی اولاد سے ہیں اور ابراہیم بن ادھم کی وجہ سے آپ بخاری اور بلخی ہیں۔ سید محمد تقی شاہ امام باقر کے فرزند سید عبد اللہ دقدق کی آل ہیں

خیر الاتقیاء ولیٰ کامل سید محمد تقی بخاری دھولی

تعارف[ترمیم]

سید محمد تقی بخاری کی ولادت موضع دھول کلاں میں تقریبا 1687 ء اور 1098ھ میں سید ہاشم کے گھرہوئی۔ آپ کی والدہ اُم تقی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سید تقی بخاری بہت زاہد اور پرہز گار تھے اور آپ کی کرامات کی ایک لمبی فہرست ہے جو آپ کے مرید بیان کرتے ہیں۔ اپنے مریدوں کی وجہ سے آپ دھول کلاں چھوڑ کر داعورہ چبھاں تحصیل بھمبھر ضلع میر پور آزاد کشمیر تشریف لے گئے وہاں ہی آپ کی زیارت گاہِ خاص عام ہے۔

اولاد[ترمیم]

آپؒ کے دو فرزند تھے اور دونوں ہی بہت متقی اور زاہد تھے

  1. سید محمد نقی بخاریؒ
  2. سید فقیر اللہؒ

سید محمد نقی بخاری بہت بڑے ولی حق تھے اسی لیے آپ نے اپنی تمام عمر پہاڑوں میں گزار دی اور لا ولد رہے کبھی شادی نہیں ہمیشہ راہ حق کی متلاشی رہے۔ آپ کا مزار مبارک بھی سید محمد تقی بخاری کے مزار مبارک سے مشرق کی جانب تقریبا 5 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے اوپر ہے۔ سید پیر محمد انور شاہ ولد گلزار حسین شاہ آف میراں پنڈی آپ کے دربار پر ہر سال عرس منقد کرتے ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ آپ کا نکاح کن سے ہوا اور کس دور میں آپ موضع دعورہ چبھا ں تشریف لے گئے لیکن اس بات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سید نقی بخاری اس وقت موجود تھے اس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ آپ شادی شدہ تھے۔ سید فقیراللہ جو سید تقی کے یقیننا بڑے بیٹے تھے وہ موضع دھول میں والدہ کے ساتھ رہے اور سید نقی والد کے ساتھ تشریف لے گئے۔ سید تقی بخاری کی اولاد جنابِ سید فقیر اللہ سے ہی چلی جن کا مزار موضع دھول کلاں میں ہے۔ سید تقی بخاری ولیٰ کامل تھے اور آپ کا حلقہ مریدین بہت وسیع تھا ۔

مزار مبارک[ترمیم]

سید محمد تقی بخاری کا مزار مبارک داعورہ چبھاں تحصیل بھمبھر ضلع میر پور آزاد کشمیر میں ہے۔ ان کے مزار کی تعمیر سید پیر فضل شاہ ولد نور شاہ نے تعمیر کروا دیا اور اس پر گنبد بھی موجود ہے۔ مقدمہ خیر الاتقیاء جس کو سید محمد حسین شاہ صابری ساہنا تحصیل پھالیہ نے لکھا ہے جس سے سید محمد تقیؒ کے مزار کی بہت خوبصورت منظر کشی کی گئی ہے۔ مورخہ 10:11:89 بروز جمتہ المبارک مصنف و مقدمہ نگار دونوں نے اکھٹے جا کر اس دربار شریف پر حاضری کا شرف حاصل کیا۔ داعورہ چبھاں پہاڑ کے اوپر آباد ہے اور دربار شریف اس کے بالکل متصل پہاڑ سے نیچے بطرف جنوب واقع ہے۔ دربار شریف کے چاروں طرف پہاڑ ہے جس طرف سے بھی جائیں پہاڑ سے چڑھ کر ہی جانا پڑھتا ہے اس کے جنوب میں برساتی نالہ ہے۔ جسے وہاں کی مقامی زبان میں کس کہا جاتا ہے۔ یہ دربار شریف سے شمال مشرق کی طرف سے آکر آپ کے قدموں کو سلامی دیتے ہوئے اپنا رخ مغرب کی جانب کر لیتا ہے۔ علاقے کی آب و ہوا بڑی خوشگوار اور صحت افزا ہے قہاں باریک اور موٹے ہر دو قسم کے خوبصورت اور زریں بیر موجود ہیں جو اس موسم میں کھانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ ایک ایک بیر ہم نے بھی بطور تبرک کھایا الحمد للہ۔ دربار کے اردگرد پتھر کی اینٹوں کی چار دیورای ہے چار دیوراری سے باہر ساتھ ہی پتھر کی اینٹوں کا بنا ہوا پرانے زمانے کا ایک کنواں ہے اس کے نیچے دو پتھروں پر کچھ تحریریں بھی کندہ ہیں۔ مگر کنویں کی اوپر کھڑے ہو کر پڑھی نہیں جا سکتی۔ شائد تعمیر کنندہ کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ کنویں کا پانی بہت گہرا ہے۔ چار دیواری و کنوئیں کی تعمیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ اس بزرگ کے بہت عقیدت مند اور معتقد تھے۔ سچ ہے جو ان کے ہو جاتے ہیں اور ہر حال میں حق وفاداری ادا کرنے کا سبق دے جاتے ہیں۔ آں راکہ از ساغر وفا ھتند سلام ما بر سانید ہر کجا ھتند یہ بزرگ دھول کلاں سے یہاں تشریف لے آئے تھے مریدوں کی محبت اور مناظر قدرت کی دلکشی پر سب کچھ بھول کر وہیں کے ہو گئے۔ زندگی کے دن یہیں بیت گئے لہذا یہیں آپ کی آخری آرام گاہ بن گئی۔ موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی! ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی آُپ کی اولاد میں سید کرامات شاہ کا گھر قریبی گاؤں ڈھیری وٹاں میں ہے یہ گاؤں دربار شریف سے بالکل جنوب کی طرف برلب سڑک واقع ہے یہی اس جگہ کا بس سٹاپ ہے باہر سے بھی آپ کی اولاد اور مرید آتے رہتے ہیں انھوں نے آپ کا مزار بنوا کر بجلی کا انتظام کر دیا ہے۔ مزار مبارک کا پتہ :بھمبر ضلع میر پور سر میر پور روڈ پر جائیں تو بس سٹاپ ڈھیری وٹاں پر اتر کر شمال کی طرف دوعوراہ چبھاں پر اتر کر جنوب کی جانب نالہ گذر کر مزار شریف ہے۔ سید محمد غضنفر شاہ بخاری کا شعر تیری مدح سرائی نہ ہو سکے دساں کیہ خیر الاتقیاء ایں توں تیرا کیہا قبول درگاہ ہووے واصل حق شاہ شاہِ اصفیاایں توں پیا بوہڑ ناں ایں سدا بھیڑ اندر مینوں جدوں وی کسے پکاریا اے تیری یاد غضنفر پئی روگ کٹے ایسا پیر ہادی پیشوا ایں توں