سید محمد مہدی بحر العلوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آیت اللہ العظمیٰ،سید  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سید محمد مہدی بحر العلوم
معلومات شخصیت
پیدائش 28 نومبر 1742ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کربلا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 9 جنوری 1798ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نجف  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام[1]،  اہل تشیع[1]،  شیعہ اثنا عشریہ[1]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص حسین نجف،  احمد العطار،  ابو علی الحائری،  احمد بن حسن النحوی،  شیخ احمد احسائی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ فقیہ،  الٰہیات دان،  شاعر،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

آیت اللہ العظمیٰ سید محمد مہدی بحر العلوم (پیدائش: 29 نومبر 1742ء— وفات: دسمبر 1797ء) بارہویں صدی ہجری اور تیرہویں صدی ہجری میں اصولی شیعی مرجع تھے۔ مہدی بحرالعلوم بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری کے مشاہیر اصولی شیعہ اثنا عشری میں سے تھے۔ مہدی مختلف علوم جیسے کہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، کلام اور علم الرجال میں تبحر رکھتے تھے۔ مہدی شیخ وحید بہبہانی اور میرزا محمد مہدی خراسانی کے شاگرد تھے اور خراسانی نے انھیں بحرالعلوم کا لقب دیا تھا جبکہ اِس لقب کا اِطلاق اُن سے قبل کسی کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ لقب اُن کے خاندان کا جزوِ خاص بن گیا اور آج تک اُن کے خاندان کی وجہ شہرت اِسی لقب سے ہے۔

سوانح[ترمیم]

مہدی کی پیدائش یکم شوال 1155ھ مطابق 29 نومبر 1742ء کو کربلا (عراق) میں ہوئی۔ اُن کے والد مرتضیٰ بن محمد بن بروجردی طباطبائی تھے جو شیعی دانشمند حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ مہدی کی پردادی محمد تقی مجلسی (مجلسی اول) کی نسل سے تھیں۔ اِسی سبب سے مہدی محمد تقی مجلسی کو اپنا جد اور علامہ مجلسی کو اپنا ماموں کہا کرتے تھے۔[2]

حصول علم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم کا آغاز کربلا میں ہی اپنے والد اور شیخ یوسف بحرانی (صاحب حدائق) سے کیا۔ بعد ازاں نجف چلے گئے اور وہاں شیخ مہدی بن محمد فتونی العاملی، شیخ محمد تقی الدورقی اور شیخ محمد باقر ہزارجریبی سے کسب علم کیا۔ کربلا واپس آئے اور یہاں شیخ وحید بہبہانی کے درس میں شرکت کرنے لگے۔[3][4] 1186ھ مطابق 1772ء میں وہ مشہدچلے گئے اور وہاں 7 سال تک مقیم رہے۔اِس تمام عرصے میں انھوں نے مجالس علمی میں شرکت اور علما کے ساتھ مباحثات کے علاوہ میرزا محمد مہدی خراسانی کے پاس فلسفہ پڑھنا شروع کیا۔ ان بزرگوار نے ان کے شامخ مقام علمی کے سبب انھیں بحر العلوم کو لقب دیا۔ ان سے پہلے یہ لقب کسی کے لیے بھی استعمال نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے بعد ان کے خاندان کے افراد اسے استعمال کرنے لگے اور آج بھی وہ یہ لقب اختیار کرتے ہیں۔[5][6]

تدریس[ترمیم]

جب شیخ وحید بہبہانی (متوفی 1205ھ) نے ضعیف العمری کے سبب سے درس منقطع کر دیا تو مہدی بحرالعلوم اُستاد کی نصیحت کی بنا پر واپس نجف چلے گئے جہاں انھوں نے تدریسی سلسلے کا آغاز کیا۔ 1193ھ مطابق 1779ء میں حج اداء کیا اور وہاں دوسرے اُمور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ فقہ مذاہب اربعہ کی تدریس بھی جاری رکھی۔ بہت سے افراد نے اِن کے حلقہ درس میں شرکت کی۔ سید بحر العلوم کی اخلاقی شہامت اور اصلاح طلبی کا رویہ سبب بنا کہ وہ اپنی ریاست اور زعامت عامہ کے دوران میں دینی و سماجی امور کی انجام دہی کے سلسلہ میں اپنے معاصر بزرگ علما سے تعاون کریں جیسے مسائل اور فتوی کے سلسلہ میں وہ عوام کو شیخ جعفر نجفی کی طرف رہنمائی کرتے تھے۔ قضاوت، فیصلوں اور رفع نزاع کے سلسلہ میں وہ شیخ محیی الدین کی طرف رجوع کرنے کو کہتے تھے۔ اقامہ نماز جماعت کے لیے میں انھوں نے عالم و زاہد شیخ حسین نجف کو مسجد ہندی کا امام مقرر کیا۔ اسی طرح سے انھوں نے اپنے شاگرد سید جواد عاملی صاحب مفتاح الکرامہ کو تدوین کتب اور اپنے دروس کی تقریرات لکھنے کے کیے معین اور تشویق کیا۔ ان کے درس کا محور ملا محسن فیض کاشانی کی کتاب الوافی تھی۔مہدی فقہ و حدیث کی تدریس کے علاوہ عوام الناس کے مسائل و امور کو بذات خود توجہ دیتے تھے۔[7]

وفات[ترمیم]

مہدی بحرالعلوم کا انتقال ماہ رجب 1212ھ مطابق دسمبر 1797ء میں نجف میں ہوا اور تدفین شیخ طوسی کی قبر کے پاس کی گئی۔

تالیفات و تصانیف[ترمیم]

مہدی بحرالعلوم کی  تصانیف یہ ہیں:[8][9][10][11]

المصابیح[ترمیم]

یہ کتاب عبادات و معاملات پر مشتمل ہے۔

الدرّة النجفیۃ[ترمیم]

اس میں انھوں نے طہارت اور نماز سے متعلق 2000 اشعار کو نظم کیا ہے۔

مشکاۃ الھدایۃ[ترمیم]

طہارت کے باب کی روایت منثور الدرّة النجفیۃ کا ذکر کیا ہے۔

الفوائد الرجالیۃ[ترمیم]

علم رجال کی کتاب ہے جس میں انھوں نے مشہور علمی و حدیثی خاندان اور شیعہ امامی روات اور علما کا تذکرہ کیا ہے۔

تحفۃ الکرام فی تاریخ مکۃ و البیت الحرام[ترمیم]

اس میں انھوں نے کعبہ کی وجہ تسمیہ، اس کے حدود، نقشہ اور تاریخ بنا کا ذکر تاریخی سلسلے کی روایات، مکہ کی  تاسیس اور ان کی مختلف عمارتوں کا تذکرہ کیا ہے۔

دیوان شعر[ترمیم]

جس میں 1000 ابیات ہیں اور زیادہ ابیات مدح و رثائ اہل بیت پر مشتمل ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://ar.al-shia.org/%d8%a7%d9%84%d8%b3%d9%8a%d8%af-%d8%a8%d8%ad%d8%b1-%d8%a7%d9%84%d8%b9%d9%84%d9%88%d9%85/
  2. شیخ عباس قمی: کتاب الکنی والالقاب، جلد 2، صفحہ 62۔ مطبوعہ 1358 شمسی ہجری۔
  3. محمد علی حبیب آبادی: مکارم الآثار در احوال رجال دورۃ قاجار، جلد 2، صفحہ 416۔ مطبوعہ اصفہان، 1362 شمسی ہجری۔
  4. محمد علی مدرس تبریزی: ریحانۃ الادب، جلد 1، صفحہ 234۔ مطبوعہ 1369 شمسی ہجری۔
  5. مہدی بحرالعلوم: الفوائد الرجالیہ، مقدمہ، صفحہ 43۔ مطبوعہ تہران، 1363 شمسی ہجری۔
  6. مہدی بحرالعلوم: الفوائد الرجالیہ، جلد 10، صفحہ 159۔ مطبوعہ تہران، 1363 شمسی ہجری۔
  7. محسن امین: اعیان الشیعہ، جلد 10، صفحہ 159۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1403ھ/ 1983ء۔
  8. امین محسن: اعیان الشیعہ، جلد 10، صفحہ 160۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1403ھ۔
  9. آقا بزرگ تہرانی: الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، جلد 21، صفحہ 81۔ مطبوعہ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔
  10. محمد علی حبیب آبادی: مکارم الاثار در احوال رجال دورة قاجار، جلد 2، صفحہ 419 تا 421۔ مطبوعہ اصفہان، 1369 شمسی ہجری۔
  11. خیرالدین الزرکلی: الاعلام الزرکلی، جلد 7، صفحہ 113۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1406ھ/ 1986ء