سید میر طیب علی شاہ بخاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پیر سیّد میر طیب علی شاہ بخاری

معلومات شخصیت
پیدائشی نام سید میر طیب علی
پیدائش 14 جنوری 1971(1971-01-14)
حضرت کرماں والا اوکاڑہ
وفات 14 جنوری 2022ء
حضرت کرماں والا اوکاڑہ
قومیت پاکستان
مذہب اسلام
شوہر صاحبزادی پیر سید محمد باقر علی شاہ بخاریؒ
رشتے دار برادر اکبر ۔ پیر سید صمصام علی شاہ بخاری
عملی زندگی
قلمی نام شیخ المشائخ ، بابا جی ، جانشین ِگنجِ کرم
موضوعات روحانیت (مذہب)
ادبی تحریک ذکر میلاد پیغمبرِ اسلام و عشقِ رسول ﷺ
مادر علمی خلافت نقشبندی
پیشہ کھیتی باڑی
وجہ شہرت روحانی پیشواء
متاثر اہلسنت نقشبندی
ویب سائٹ
ویب سائٹ www.karmanwala.com
باب ادب

بابا جی سیّدمیر طیب علی شاہ بخاری، معروف بزرگ حضرت پیرسید محمد اسماعیل شاہ بخاری حضرت کرماں والے کے پوتے ہیں اور آستانہ عالیہ حضرت کرماں والا شریف اوکاڑہ کے سجادہ نشین دوم تھے۔

Baba Ji Sayed Mir Tayyab Ali Sha Bukhari

ولادت[ترمیم]

شیخ المشائخ، بابا جی سیّدمیر طیب علی شاہ بخاری کی ولادت ماہ ذی القعدۃ، جمعرات کے دن بتاریخ 14جنوری 1971ء لاہور میں پیر سیدعثمان علی شاہ بخاری  کے ہاں ہوئی۔

نام ونسب[ترمیم]

آپ کے والد سیّدعثمان علی شاہ بخاری نے آپ کا نا م ”سیّدمیر طیب علی شاہ بخاری“ تجویز فرمایا۔ چوالیس واسطوں سے آپ کا نسب نامہ خلیفہ چہارم مولائے کائنات سیّدنا علی المرتضی سے جاملتا ہے۔آپ میاں شیر محمد شرقپوری کے خلیفہ سیّدمحمد اسمٰعیل شاہ بخاری، حضرت کرماں والے کے پوتے ہیں۔آپ کی والدہ میاں شیر محمد شرقپوری کے خلیفہ، پیر سیّدنورالحسن شاہ بخاری،   حضرت کیلیاں والےؒ   کی صاحبزادی اور حضرت پیر سیّدمحمد باقر علی شاہ بخاری کیلانی  ؒ   کی ہمشیرہ ہیں یعنی بابا جی سیّدمیر طیب علی شاہ بخاری  اعلیٰ نسب کے حامل اور نجیب الطرفین سیّدہیں۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

بچپن سے ہی آپ دینی و روحانی مزاج سے سرشار تھے۔ عارفانہ اور قلندرانہ وجاہت ایسی رعب والی تھی کہ بڑے بڑے مقام و مرتبے والے دم بخود رہ جاتے اور آپ کے سامنے ادب و احتیاط کا دامن تھام لیتے۔ آپ نے نہایت قلیل عرصہ میں قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور تصوف و روحانیت کے اسباق اپنے بزرگوں سے حاصل کرتے ہوئے تکمیل فرمائی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ نے اپنے والدِ گرامی کے دست ِ مبارک پر بیعت کی اور انھوں نے ہی خلافت سے بھی نوازا۔ آپ کے والد ِ گرامی نے بالکل چھوٹی عمر سے ہی آپ کی تربیت کی ذمہ داری اپنی ہمشیرہ سیدہ بے بے جی رحمۃ اللہ علیہا کے سپرد کر دی تھی سو انھوں نے مزید اسباقِ طریقت و معرفت پڑھائے۔ آپ کی عمر مبارک ابھی صرف 9 سال چند ماہ تھی کہ آپ کے مرشد اور والد حضرت بابا جی سیّدعثمان علی شاہ بخاریؒ  مورخہ 15 جولائی 1978ء بروز ہفتہ وصال فرما گئے۔ آپ کو اپنے والد ِ گرامی کے ساتھ بہت زیادہ روحانی لگاؤ اور اُنس تھا، چنانچہ اُنکے وصال کے بعد آپ خاموش الطبع اور تنہائی پسند ہو گئے۔

سجادہ نشینی[ترمیم]

آپ اپنے برادرِ اکبر حضرت مخدوم المشائخ پیر سیّدصمصام علی شاہ بخاری مدظلہ‘ العالی سے بہت محبت فرماتے اور اُن کے ادب و احترام کا بہت لحاظ رکھتے جبکہ پیر سید صمصام علی شاہ بخاری مدظلہ‘ العالی بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بے پناہ محبت فرماتے اور والد ِ گرامی کے وصال کے بعد اپنے بھائی کے لیے ایک عظیم سایہ بن کر ذمہ داری نبھاتے رہے یہاں تک کہ جب سجادہ نشین اوّل حضرت کرماں والا شریف، حضرت بابا جی سیّدمحمد علی شاہ بخاریؒ   کا وصال ہوا تو روایت و طریقہ کے مطابق خو د سجادہ نشین بننے کی بجائے اپنے چھوٹے بھائی بابا جی سیّدمیر طیب علی شاہ بخاری ؒ کے جذبہ ء عشقِ رسول ﷺ اور تبلیغی خدمات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُن کے حق میں دستبردار ہو گئے چنانچہ بابا جی سیّدمیر طیب علی شاہ بخاریؒ   کو سجادہ نشین اوّل بابا جی سیّدمحمد علی شاہ بخاری ؒ کے وصال کے بعد سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے جملہ مشائخ بشمول سجادہ نشین آستانہ عالیہ مکان شریف، سجادہ نشین آستانہ عالیہ کوٹلہ شریف اور سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرق پور شریف نے متفقہ طور پر سجادہ نشین دوم قرار دیتے ہوئے دستار بندی کی۔دستار بندی کی اُس تقریب ِ سعید میں بے شمار مشائخ عظام اور سجادہ نشین حضرات بھی موجود تھے، جن کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

شیخ المشائخ بابا جی ؒ کی شخصیت اَن گنت اوصاف ِ حمیدہ سے متصف تھی۔آپ کی شخصیت میں ایسی روحانی وجاہت اور قلندرانہ مزاج تھا جس محفل میں تشریف لے جاتے، ہر کوئی بے ساختہ آپ کی طرف متوجہ ہو جاتا۔ آپ نے ہمیشہ تصنع، دکھاوا اور بناوٹ سے بیحد احتراز کیا۔ اِس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ رعب ڈالنے کے لیے جبہ قبہ پہنا جائے بلکہ آپ سادہ انداز میں ٹوپی یا پگڑی استعمال فرماتے اور سادہ لباس پسند فرماتے۔ آپ نے زیادہ تر سفید لباس زیب ِ تن فرمایا۔ جب شریعت ِ مطہرہ یا سنت ِ پاک کے خلاف کوئی بات کرتا تو آپ اُسی وقت ٹوک دیا کرتے۔ شریعت کی مخالفت پر آپ کبھی خاموش نہیں رہتے تھے۔شیخ المشائخ بابا جی ؒ  کا یہ عام طریقہ تھا کہ جب کسی کی اصلاح کرنا مقصود ہوتا تو آپ نام لیے بغیر کسی نہ کسی اشارے کنائے سے سمجھا دیا کرتے۔ آپ احساسات تک کا اِتنا خیال فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی نے کوئی غلطی کی ہے تو اُسے سب کے سامنے سرزنش نہیں کرنی اور نہ ہی اُسے شرمندہ کیا جاتا تھا بلکہ بڑے پیار اور محبت کے ساتھ سمجھایا جاتا۔اولیائے متقدمین کی طرح آپ بھی سختی یا زبردستی کرنے سے گریز فرماتے تھے بلکہ جس کسی کی بہتری مقصود ہوتی، اُس کی طرف محبت بھری توجہ مبذول فرما دیتے۔ آپ کی تربیت حکمت سے لبریز اور کرم سے معمور ہوا کرتی تھی اِسی لیے پوشیدہ پوشیدہ آخرت بہتر کر دیتے تھے اور دنیا تو مفت میں سنور جاتی۔ راقم الحروف کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کی محفل میں کچھ کاروباری لوگ آنے لگے۔کاروبار سے متعلق گفتگو ہوتی تھی مگر تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ وہی کاروباری لوگ نیک و پاکباز اور پابند ِ شریعت دکھائی دیے، اللہ والوں کا انداز کچھ ایسا ہی دل رُبا ہوتا ہے۔حضور شیخ المشائخ بابا جیؒ  کی طبیعت بہت زیادہ نفیس، پاکیزہ اور صفائی و طہارت پسند تھی۔ آپ ؒ  ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ بات کرتے ہوئے  ”آپ“ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ آپ نے ساری زندگی اِس بات پر انتہائی پابندی کے ساتھ عمل کیا کہ جب بھی جوتا اُتارتے تو جوتے کا رُخ قبلہ شریف کی طرف کر دیتے۔ اِسی طرح برتن یا کوئی چیز دیکھتے تو اُس کا رُخ بھی قبلہ شریف کی طرف کر دیا کرتے تھے۔ کسی جگہ سے گذرتے ہوئے اگر کوئی کاغذ بالخصوص اخبار کا ٹکڑا زمین پر گرا پڑا نظر آتا تو اُسے خود اُٹھا لیتے یا اپنے ساتھ موجود بیلی کو اشارہ فرما دیتے جو فوراً سمجھ جاتا اور کاغذ اُٹھا کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیتا۔ حضور شیخ المشائخ بابا جی  ؒ  کلام اللہ، نبی کریم ﷺ کی نسبت یا اولیاء سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا بہت زیادہ ادب و احترام فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اِس بات کی تاکید فرماتے کہ نمازِ پڑھنے کے لیے مصلیٰ یا جائے نماز کا انتخاب دیکھ بھال کر کیا جائے کہ اُس میں خانہ کعبہ یا مسجد سے مشابہت والی کوئی تصویر نہ ہو کیوں کہ اِس طرح کی جائے نماز پر نماز پڑھنا خلافِ ادب ہوتا ہے۔ حضور شیخ المشائخ بابا جی ؒ دنیاوی طمع و لالچ سے پاک تھے اور آپ کی طبیعت میں قناعت پسندی بہت زیادہ تھی۔ اپنے آبا و اجداد کی زرعی زمین سے حاصل شدہ آمدن کا ایک بڑا حصہ آپؒ  نے میلادِ پاک کے انتظام و انصرام، ماہِ رمضان کے دوران مدینہ پاک میں لنگر شریف، دینی معاملات کے علاوہ وابستگان کی خدمت اور آستانہ عالیہ کے لنگر شریف کے لیے مختص کیا ہوا تھا۔ اگر کوئی مرید آپ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرتا تو فی الفور ارشاد فرماتے کہ اِسے میلاد ِ پاک کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا جائے۔ بے شمار مرتبہ امیر کبیرمریدین نے  مال و دولت پیش کیا تو آپ پیار سے سمجھا بجھا کر واپس دے دیا کرتے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ کوئی آپ کی خدمت میں رقم بطور نذرانہ پیش کرتا تو بڑے پیار سے فرماتے ”میں نے یہ قبول کر لیے ہیں، اب یہ میرے ہیں لہذا میں جس طرح چاہے استعمال کروں“، پھر اُسی بیلی کی جیب میں اُسکے دیے ہوئے پیسے واپس ڈال دیتے اور اجازت مرحمت فرما دیتے۔ یہ آپ کا وصف ِ عام تھا۔آپ عاجزی و انکسار کو پسند کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نامور عالم حضرت کرماں والا شریف آ گئے تو اُنکی تنظیم کے لوگوں کی طرف سے استقبال کے لیے بہت اہتمام کیے گئے اور بہت سارے تکلفات اُٹھائے گئے۔ ایک شخص ایک پاؤں میں جوتا پہنا رہا ہے تو دوسرا شخص دوسرے پاؤں میں جوتا پہنا رہا ہے۔ جب یہ بات بابا جی ؒ  کے علم میں آئی تو ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ والوں کے پاس عجز و انکسار کے ساتھ جانا چاہیے اور اِس طرح کی حرکات سے گریز کرنا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ یہ جو اتنے اہتمام کے ساتھ جبے پہن کر آتے ہیں کیا یہ رات کو سوتے بھی اِسی جبے میں ہیں یا پھر عام کپڑوں میں سوتے ہیں!

عشق رسول ﷺ[ترمیم]

علما کرام کئی کتابیں لکھتے ہیں مگر لوگوں پر عملاً اثرانداز نہیں ہو پاتے جبکہ حضور شیخ المشائخ بابا جیؒ  نے کوئی کتاب لکھے بغیرہی بے شمار لوگوں کو عملی طور پر نبی کریمﷺ کے عشق و محبت سے سرشار کر دیا اور لوگ گھر گھر محفل میلاد منعقد کروانے لگے۔ جگہ جگہ نبی کریم ﷺ کے ذکر کے ڈنکے بجنے لگے اور محبت ِ رسول ﷺ کا ایک انوکھا رنگ اور اثر ہر طرف اپنی بہاریں دکھانے لگا۔ آپ کی زندگی میں یہ ایک نکتہ بے حد حاوی، اہم اور مکمل طور پر چھایا ہوا نظر آتا ہے کہ آپ دیگر کسی بھی عمل کے لیے تھوڑی یا بہت تاکید کرتے مگر محفل میلاد سجانے کی ترغیب، تلقین اور دعوت آپ  ؒ  نے پوری زندگی سب سے زیادہ اہم اور لازم رکھی۔ نیکی کے دیگر کاموں کی تلقین بھی فرمایا کرتے تھے مگر جس طرح آپ محفل میلاد سجانے کے لیے رغبت دلاتے، اُس کی مثال قریب یا دور محال ہی دکھائی دیتی ہے۔ بابا جی ؒ  کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کے 4 عدد موئے مبارک تھے جن کو آپ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ ہر سال عرب شریف سے 5لاکھ روپے کا عطر منگوایا کرتے جو موئے مبارک کو لگایا جاتا۔آپ   اپنے اسلاف اور بزرگوں کے طریقے کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت ِ اطہار کے ساتھ بے پناہ محبت و عقیدت کا اظہار فرمایا کرتے۔ آپ ہمیشہ اِس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی ایک کی شان میں ذرا سی لغزش بھی ایمان سے خارج کرنے کا باعث بن سکتی ہے، اِس لیے بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔

خلافت کا اجرا[ترمیم]

اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی آپ نے سلسلہ ء خلافت کا آغاز فرمایا اور تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد افراد کو خلافت و اجازت سے نوازا۔ بعض لوگوں نے اعتراضات کیے تووضاحت بھی فرمائی کہ یہ جو درگاہوں پر سجادگان بیٹھے ہیں کیا وہ سب اُن مسندوں کے اہل ہیں؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر میں نے دین کے فروغ کے لیے خلافت کا اجرا کیا ہے تو اِس میں کیا حرج ہے؟ پھر فرمایا کہ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا، میں خود اِس سجادہ کے قابل نہیں ہوں۔

دین کی تبلیغ[ترمیم]

آپ نے سب سے پہلے خود سلسلہ ء تبلیغ کا آغاز فرمایا اور بے شمار گاؤں اور شہروں میں تبلیغی دورے کیے اور لوگوں کو عشقِ رسول ﷺ کے فروغ کے لیے دعوت دی۔ ہر گاؤں، محلے، ٹاؤن اور علاقے میں ”مرکز محفل میلاد“قائم کروائے۔ آپ کا تبلیغی سلسلہ صرف دینی مقاصد کے لیے قائم رہا اور آپ  نے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی قائم نہیں کی۔آپ ساری زندگی احیائے سنت ِ مصطفٰی ﷺ کے علمبردار رہے، خود بھی حضورﷺ کی سنت اپنانے کی کوشش فرماتے اور تمام مریدین کو بھی شریعت کا راستہ اور سنت کا طریقہ اپنانے کی تلقین فرمایا کرتے۔ آپ کا تبلیغی پیغام حسب ِ ذیل ہوا کرتا تھا۔ ”اللہ رب العالمین محض اپنے فضل و رحم سے ہر ایک مرد و عورت مسلمان کا انجام بخیر فرماویں۔ ذکر الٰہی و شریعت کی پابندی بہرحال ضروری ہے۔ دنیا یوم ِ چند۔آخر کار باخداوند۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔ شریعت کی پاسداری اور درود شریف کی کثرت کرتے رہیں۔ ہر ماہ اپنی تربیت اور دوسروں کو تبلیغ کرنے کے لیے ایک دن وقف کریں۔ اپنے گھر میں ہر ماہ کم از کم ایک مرتبہ محفل میلاد منعقد کریں جس کے لیے اہتمام شرط نہیں بلکہ محبت و خلوص لازمی ہے خواہ پانی کا ایک گلاس ہی میسر آئے۔والسلام الیٰ یوم القیام“

شریعت کی پابندی[ترمیم]

آپ ؒ  ہمیشہ اِس بات کی تاکید فرمایا کرتے تھے کہ بزرگوں کا عرس شریف، میلے کی شکل ہرگز اختیار نہ کرے۔ اِس مقصد کے لیے آپ بذات ِ خود عرس مبارک کی محافل کے دوران میں گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے کہ جو بیلی عرس شریف میں شامل ہیں وہ گھومنے پھرنے کی بجائے باوضوہو کر محفل میں بیٹھیں، تربیتی بیانات سنیں، نعت شریف سنیں اور لنگر شریف کھایا کریں۔ آپ اکثر ارشاد فرمایا کرتے کہ باہر سے خرید کر چیزیں کھانے کی بجائے لنگر شریف کھایا کرو۔

اخلاق و تصرفات[ترمیم]

آپ   اپنی ذات سے رونما ہونے والی کسی بھی خارقِ عادت بات کو کرامت کے طور پر ظاہر کرنے سے سخت گریز فرماتے تھے۔ اگر کسی نے اِس ضمن میں کوئی بات کہہ دی تو آپ بڑے کمال انداز سے لطیف پیرائے میں ٹال دیا کرتے اور ہر معاملہ نبی کریم ﷺ کی مہربانی سے جوڑدینا آپ کا خاصہ تھا یا پھر اکثر اوقات منفرد معاملات کو بزرگوں یعنی حضرت صاحب کرماں والے ؒ   کی نسبت اور کرامت سے جوڑ دیتے تھے۔آپ ؒ کی خدمت میں جب کوئی مست یا مجذوب آ جاتا تو آپ زیادہ توجہ کے ساتھ شفقت و مہربانی کا اظہار فرماتے۔ حضرت کرماں والا شریف گاؤں میں ایک مست بیلی رات کے وقت نمازپڑھنے کے لیے آوازیں لگایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ سردی کے موسم میں وہ حضور شیخ المشائخ بابا جی ؒ  کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے دیکھا کہ اُس نے صرف قمیص پہن رکھی ہے اور سردی سے بچنے کے لیے کوئی اضافی چیز نہیں ہے۔یہ دیکھ کر آپ ؒ  نے اپنی قیمتی چادر اُسے عنایت فرما دی۔اِسی طرح ایک مرتبہ ایک غریب بیلی آپ ؒ   کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوا تو اُس نے بھی سردی سے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ چونکہ اُس وقت بابا جی ؒ   کمرے میں تشریف فرما تھے اور آپ نے خود کوئی اضافی چیز نہیں پہنی ہوئی تھی اِس لیے ارشاد فرمایا کہ کوئی اِسے جرسی سویٹر دے تو  ایک بیلی ”پہلوان“ نامی نے اُسی وقت اپنی قیمتی جیکٹ اُتار کر اُس بیلی کو پہنا دی۔ حضور شیخ المشائخ بابا جیؒ  نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور پہلوان کے لیے بار بار دعا فرماتے اور اُس کو شاباش دیتے رہے۔

فرمودات و ارشادات[ترمیم]

آپ ؒ  اکثر و بیشتر مثبت روّیے پر بات کیا کرتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی کو اچھا اچھا کہتے رہو گے تو وہ اچھا بن جائے گا اور اگر کسی کو بُرا بُرا کہتے رہو گے تو وہ بُرا بن جائے گا۔ کئی مرتبہ ارشاد فرماتے کہ حضرت صاحب کرماں والے ؒ  کی خدمت میں جب کوئی عرض کرتا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے تو حضرت کرماں والے ؒ فوراً ارشاد فرماتے، بیلیا! رب کریم نے تو جواب نہیں دیا۔ پھر بابا جیؒ   ارشاد فرماتے کہ دیکھو! کیسے اللہ کے بندے ایک مایوس انسان کی نااُمیدی دور کر دیا کرتے اور اُسے اللہ کریم کی ذات ِ قادرِ مطلق پر اپنا پختہ ایمان لانے کی نصیحت فرما دیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل لوگ پیرخانے جاتے ہیں تو ذہن میں ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ پیر وہاں پر تماشے دکھائے، کرامات دکھائے اور مداری کی طرح کرتب کرے لیکن میں تو یہ جانتا ہوں کہ پیر پکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کریم اور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت و غلامی کی طرف دل کو مائل کر دے، پیر کا صحیح مطلب یہی ہے  اور  جو حضور ﷺ کی محبت پیدا کر دے، باعمل بنا دے، وہی پیر ہے۔ نیز فرمایا کہ آج کل لوگ سکون تلاش کرتے پھرتے ہیں، کوئی روٹی میں سکون تلاش کرتا ہے، کوئی دولت میں، کوئی اونچے گھروں میں، لیکن اِن چیزوں میں سکون نہیں ہوتا، اصل سکون تو نبی کریم ﷺ کی محبت میں ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر میں ہے۔ اِسی طرح ارشاد فرمایا کہ ”عام“ اور ”خاص“ کے درمیان میں بہت کم فرق ہے، معمولی فرق ہے!  کسی شخص کو اگر کوئی دوسرا گالی دے اور وہ بھی جواباً گالی دے تو یہ عام بات ہے لیکن اگریہ خاموشی اختیار کر لے تو خاص ہو گیا۔ ایک بار کسی نے عرض کیا کہ میرے بڑے دشمن ہیں، تو فرمایا، سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے اِس کا مقابلہ کرنے کی تدبیر سوچ۔فرمایا: میرا دل کرتا ہے کہ صبح ایک ارب روپیہ ہو اور شام تک سارا تقسیم ہو جائے  اور کیا یہ بات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ اگلی صبح پھر ایک ارب روپیہ عنایت فرما دے؟

اولاد امجاد[ترمیم]

اللہ تعالیٰ نے آپ ؒ کو اپنے فضل و کرم سے اولاد جیسی عظیم نعمت یعنی بیٹی اور بیٹوں سے نوازا  جن میں ایک آپ کی صاحبزادی اور دو بیٹے ہیں۔ صاحبزادوں کے اسمائے گرامی 1۔ پیر سیّدمحمد میرام شاہ بخاری  2۔ پیر سیّدشہریار شاہ بخاری ہیں۔پیر سیّدشہریار شاہ بخاری مدظلہ‘ العالی اپنے ابا جانؒ  کی صفات ِ مبارکہ سے متصف ہیں۔ وابستگانِ سلسلہ عالیہ کے ساتھ اُنس و محبت، روحانیت کی طرف خاص توجہ اور قلندرانہ سادگی جیسے اوصاف سے متصف ہیں۔ بچپن سے ہی خانقاہی نظام اور سلسلہ عالیہ کے اُمور میں دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ آپ ؒ نے اپنی زیر نگرانی نومبر 2019ء؁ میں آستانہ عالیہ حضرت کرماں والا شریف کا اگلا سجادہ نشین مقرر فرما دیا تھا۔

وفات[ترمیم]

آپ امسال مورخہ 15 جنوری 2022ء؁ کی شب 51 سال کی عمر مبارک میں اپنے خدام، مریدین، محبین، وابستگان اور احباب کو سخت غمژدہ چھوڑ کر اِس جہان فانی سے رخصت ہوئے اور خالق ِ حقیقی پروردگار ِ عظیم کی بارگاہ میں پیش ہو گئے۔آپ کے وصال کی خبر فی الفور دنیا بھر میں پھیل گئی اور آپ کے محبین غم سے نڈھال ہو گئے۔ سوشل میڈیا کے اِس دور میں راتوں رات ہر جگہ اطلاع پہنچ گئی اور ہر گاؤں، محلے، ٹاؤن، شہر اور علاقے میں اعلانات ہونے لگے۔ نمازِ جنازہ اُسی دن یعنی مؤرخہ 15 جنوری 2022ء؁ بروز ہفتہ بعد نمازِ عصر آستانہ عالیہ حضرت کرماں والا شریف اوکاڑا میں حضرت پیر حافظ القاری میاں محمد ابوبکر شرقپوری سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرق پور شریف نے پڑھائی۔ اِس موقع پر کئی جذباتی مناظر دیکھنے والوں کے دُکھ اور غم کو اور زیادہ مہمیز لگا دیتے، یوں لگتا تھا جیسے اِن انسانوں کی ساری دنیا لُٹ گئی ہو۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے یہ ہزاروں انسان بیک وقت یتیم ہو گئے ہیں بس ہر ایک کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اور لبوں پر اپنے پیرومرشد کے لیے سلام ِ عقیدت تھا۔آپ ؒ  کے جسد ِ خاکی کو بسلسلہ تدفین، اولیائے حضرت کرماں والے رحمہم اللہ علیہم اجمعین کے مزارِ اقدس میں آپ کے والد ِ بزرگوار سیّد عثمان علی شاہ بخاریؒ  کے قدمین کی جانب لحد میں اُتارنے کے لیے لیجایا گیا۔ جہاں پر آپ کی وصیت کے مطابق موئے مبارک آپ کے ہمراہ لحد میں اُتار دیے گئے۔ یوں حضور شیخ المشائخ بابا جی ؒ  کائنات کا عظیم خزانہ اور اپنا کُل اثاثہ اور مال و دولت اپنے ساتھ لے کر اِس جہان  سے پوشیدہ ہو گئے۔آپ کا  عرس مبارک مورخہ27-28 فروری کوہر سال آستانہ عالیہ حضرت کرماں والا شریف اوکاڑا میں منعقد ہوتا ہے۔ [1][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. حضرت کرماں والا شریف
  2. پیر ثناء اللہ طیّبی ایڈیٹر ماہنامہ مجلہ حضرت کرماں والا شریف