سید گاجی شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پیر گاجی شاہ گنج بخش
سندھی: سید گاجي شاھ
سید پیر گاجی شاہ کا مزار
لقبگنج بخش
دیگر نامگاجی شاہ
ذاتی
پیدائش1027ھ بمطابق 1628ء
وفات1102ھ بمطابق 1691ء
مدفنسندھ، پاکستان
مذہباسلام
دیگر نامگاجی شاہ
سلسلہعلی ابن ابی طالب
مرتبہ
مقامسیہون
دورمغلیہ سلطنت کا

سید پیر گاجی شاہ (انگریزی: Syed Pir Gaji Shah) المعروف پیر گاجی شاہ گنج بخش صوبہ سندھ کے بڑے بزرگ اور ولی اللہ ہیں۔ آپ بچپن میں والد کے ساتھ اوچ شریف سے سندھ میں آئے۔ اور میاں نصیر محمد کلہوڑو کے قریبی ساتھی تھے اور اس کے اصرار پر ان کے سپہ سالار بنے۔[1]

ولادت[ترمیم]

سید پیر گاجی شاہ کی ولادت 1027ھ بمطابق 1628ء میں مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں ہوئی۔

حسب نسب[ترمیم]

آپ سید گھرانے کے چشم چراغ تھے۔ آپ کے والد کا نام سید احمد شاہ تھا جن کا حسب نسب حضرت علی بن ابی طالب سے جا کر ملتا ہے۔

حالاتِ زندگی[ترمیم]

سید پیر گاجی شاہ کے مزار کا بیرونی منظر

سید پیر گاجی شاہ المعروف پیر گاجی شاہ گنج بخش کا اصل نام سید غازی شاہ تھا جو عرفِ عام میں گاجی شاہ مشہور ہو گیا۔ آپ اچ شریف سے کمسن عمر میں اپنے والد کے ساتھ سندھ کے ضلع دادو کی تحصیل جوہی کے شہر ٹنڈو رحیم خان کے کھوسہ قبیلے کے سردار روحل کھوسہ کے علائقے میں آئے اور دلشاد کھوسہ کے والد کے ہاں قیام پزیر ہوئے۔ اس وقت اس علاقے کے گاؤں واہی، ہلیلی، ٹنڈو رحیم خان، ٹوڑی اور گورنڈی پر کھوسہ قبیلے کا بڑا اثر رسوخ تھا جو میاں نصیر محمد کلہوڑو کی میانوال تحرک کے حامی تھے۔ آپ کے والد نے کچھ وقت قیام کے بعد حج کا ارادہ کیا اور دلشاد کھوسہ کے والد کو کہا کہ سید بلاول شاہ نورانی کی زیارت کے بعد حج کو جاؤں گا۔ میرا بیٹا غازی شاہ چھوٹا ہے۔ ہو سکتا ہے اتنا لمبا سفر کر نہ سکے۔ دلشاد کھوسہ کی ماں رانی نے عرض کیا کے یہ بچہ میرے حوالے کریں آپ مرشد ہیں جب بھی لوٹیں مجھ سے لے لینا۔ سید احمد شاہ نے یہ ہی کیا اورحج کو چلے گئے لیکن پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ سید گاجی شاہ رانی کے گھر دلشاد کھوسہ کے ساتھ پل پوس کر بڑے ہوئے۔ بچپن سے کرامات اور شجاعت دکھانے شروع کیں۔ سید گاجی شاہ کا کھوسہ قبیلہ مرید ہو گیا۔ بڑے ہو کر نہ صرف بزگ ہستی کے طور پر مشہور ہوئے مگر میاں نصیر کلہوڑو کے ساتھی اور سپہ سالار بھی بنے۔ گاجی شاہ کی کرامات نے لوگوں کو متوجہ کیا۔ میاں نصیر محمد کلہوڑو اس بزرگ کی بڑی عزت اور قدر کرنے لگا۔ اس حد تک کہ میانوال تحریک کی آزی (دعا ئے ارادہ) میں گاجی شاہ کا نام شامل کیا۔ اس زمانے میں خان آف قلات میر احمد اول (1666ء-1695ء) کے سندھ پر حملے کے خطرات بڑھ گئے تھے۔ میاں نصیر محمد کلہوڑو نے سید گاجی شاہ کو ٹنڈو رحیم لک (گزرگاہ) پر مقرر کیا۔

القاب[ترمیم]

آپ بڑے غریب نواز اور سخی تھے۔ ان کے مسکن پر رات دن عام خاص کے لیے لنگر چلتا تھا جس میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس وجہ سے آپ کو گنج بخش کا لقب ملا۔ آپ کے مزار کے قریب مسکن تھا۔ اس مسکن کے ساتھ ساتھ دھونک کی وادی ہے۔ آپ کو دھونک جو دھنی (دھونک وادی کا مالک) کا لقب دیا گیا۔ پہاڑوں میں سے آنے والے چشمے کے نالے کے پانی پر قریبی دھونک کی وادی سیراب ہوتی تھی۔ اس پر اگنے والی فصل کی پیداوار آپ کے لنگر خانے کے حوالے ہوتی تھی۔ گاجی شاہ کے لنگر میں عام خاص کو زیادہ تر جو روٹی کھلائی جاتی تھی اسے گاجی شاہ کا روٹ (بڑی روٹی) کہتے ہیں۔ روٹ آج بی تبرک کے طور مزار پر بانٹا جاتا ہے۔ جنات سید گاجی شاہ کی مٹھی میں تھے اس وجہ سے اسے جنات کے بادشاہ کا لقب بھی دیا گیا اور آج بھی اس لقب سے مشہور ہیں۔

سماع کا شوق[ترمیم]

سید گاجی شاہ کو سماع کا شوق تھا۔ سرندہ کا ساز اسے بہت پسند تھا۔ علائقے کے سرندہ نواز جمع ہوتے تھے۔ ان کے مسکن پر اکثر سرندہ پر سماع کی محفل منعقد ہوتی تھی۔ محفل سماع کا حاضرین پر سحر اور جنون طاری ہو جاتا تھا۔ آج بھی ان کے مزار پر سرندہ پر محفل سماع منعقد ہوتی ہے۔ اور جنات کو ختم کرنے کے لیے بھی سرندہ کا ساز بجایا جاتا ہے اور جنات کے متاثر مرد اور خواتین جنون میں سر ہلاتے ہیں۔ پھر جتات کو تنگ نہ کرنے کے لیے گاجی شاہ کی قسمیں دی جاتی ہیں۔ جنات وعدہ کرتی ہے کہ اب انھیں تنگ نہیں کرے گی۔

آٹے کی چکی[ترمیم]

سید گاجی شاہ کا لنگر خانہ چلانے کے لیے جس چکی پر آٹا پیسا جاتا تھا وہ آج بھی مزار کے قریب پڑی ہے۔

سید پیر گاجی شاہ کی تربت والی چھتری کا منظر

مزار[ترمیم]

سید گاجی شاہ کا مزار مسجد کے احاطے میں ہے جو بہت بلند پہاڑی پر وقع ہے۔ ان کے مزار کی دیواروں پر نقش نگاری بھی تھی مگر ہر سال مرمت کی وجہ سے مٹ گئی۔ مزار کی دیکھ بھال کرنے پر کھوسہ قبیلے کے لوگ مقرر ہیں۔ سید گاجی شاہ کی گادی نشینی بھی کھوسہ قبیلے کے حوالے ہے جو خود کو فقیر کہلواتے ہیں۔ گاجی شاہ کا مزار اعلى طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔

کرامات[ترمیم]

سید گاجی شاہ کی بہت کرامات بیان کی جاتی ہیں مگر ان کی اہم کرامت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں کے لوگ پینے کے پانی کے لیے پریشان تھے۔ گاجی شاہ نے کرامت سے پہاڑوں میں سے پانی کا چشمہ بہایا جو بنجو آبشار کے نام سے مشہور ہے۔ یہ پانی آج بھی نالے کی صورت میں بہتا ہے۔

منسوب مکانات[ترمیم]

یہاں علاقے میں بہت سے مقامات سید گاجی شاہ کی کرامات اور اس کی بزرگی کی وجہ سے ان سے منسوب ہیں۔ گورانڈی میں چکی اور نئہ نلی میں پانی کے کئی چشمے گاجی شاہ سے منسوب ہیں۔

شہادت[ترمیم]

خان آف قلات کے حامیوں نے لک (گزرگاہ) ٹنڈو رحیم پر حملے کے لیے شورش برپا کیا۔ سید گاجی شاہ نے اپنے حامیوں کے ساتھ مقابلہ کیا مگر لڑتے ہوئے سن 1102ھ بمطابق 1691ء میں شہید ہو گئے۔ اس وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔[2]

عرس[ترمیم]

ہر سال دسمبر کے آخر یا جنوری میں ان کے مزار پر سالانہ عرس منعقد ہوتا ہے۔ ملک بھر سے زائرین اور مرید شریک ہوتے ہیں۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]