شاہد احمد دہلوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہد احمد دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش 22 مئی 1906ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی،  برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 27 مئی 1967ء (61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی،  پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن گلشن اقبال،  کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مترجم،  صحافی،  مدیر،  خاکہ نگاری  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل ادارت،  ترجمہ،  موسیقی  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ساقی (جریدہ)  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک  ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

شاہد احمد دہلوی (پیدائش: 22 مئی 1906ء — وفات: 27 مئی 1967ء) اردو کے صاحب طرز ادیب، ادبی مجلہ ساقی کے مدیر، مترجم اور ماہرِ موسیقی تھے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

شاہد احمد دہلوی 22 مئی 1906ء کو دہلی برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2][3] ان کا تعلق اردو کے ایک اہم ادبی و علمی خانوادے سے تھا۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔ جنوری 1930ء میں انھوں نے دہلی سے اردو کا ایک باوقار جریدہ ساقی جاری کیا۔ 1936ء میں وہ ادب کی ترقی پسند تحریک میں شامل ہوئے اور اس کی دہلی شاخ کے سیکریٹری بن گئے۔ تقسیم ہند کے بعد شاہد احمد دہلوی نے کراچی منتقل ہو گئے، یہاں انھوں نے ساقی کا دوبارہ اجرا کیا جس کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔[2]

ادبی خدمات[ترمیم]

وہ اردو کے ایک بہت اچھے نثرنگار تھے۔ ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر ، بزم خوش نفساں، بزم شاہد اور طاق نسیاں کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دلی کی بپتا اور اجڑا دیار کے نام سے مرحوم دلی کے حالات قلم بند کیے۔ وہ ایک اچھے مترجم بھی تھے اور انھوں نے انگریزی کی لاتعداد کتابیں اردو زبان میں منتقل کیں۔[2]

فن موسیقی[ترمیم]

شاہد احمد دہلوی کو موسیقی میں بھی کمال حاصل تھا۔ انھوں نے دہلی گھرانے کے مشہور استاد، استاد چاند خان سے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ شاہد احمد دہلوی تقسہم ہند کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے تھے، جہاں وہ ایس احمد کے نام سے موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔ انھوں نے موسیقی کے موضوع پر بھی لاتعداد مضامین قلم بند کیے جن کا مجموعہ مضامین موسیقی کے نام سے اشاعت پزیر ہو چکا ہے جسے اردو کے ممتاز محقق و شاعر عقیل عباس جعفری نے مرتب کیا ہے۔[2]

اعزازات[ترمیم]

حکومت پاکستان نے شاہد احمد دہلوی کو ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں 14 اگست، 1963ء کو صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔[2]

تصانیف[ترمیم]

  • گنجینۂ گوہر (خاکے)
  • بزمِ خوش نفساں (خاکے)
  • بزم شاہد (خاکے)
  • طاق نسیاں (خاکے)
  • دلی کی بپتا (دلی کی یاداشتیں)
  • اجڑا دیار (مضامین)
  • سرگزشت ِعروس (ناول)
  • بچوں کی دلچسپیاں (جی فریڑرک کیوڈر) (ترجمہ)
  • بچوں کی جنسی تعلیم (لیسٹراے کرکنڈال) (ترجمہ)
  • خودشناسی (ولیم سی میجر) (ترجمہ)
  • بچوں کی نشو و نما ( ولارڈسی اولسن، جون لی ولن) (ترجمہ)
  • بچوں کا خوف ( ہیلن راس) (ترجمہ)
  • انتخاب معاش (ہمفریز جے انتھی) (ترجمہ)
  • دھان کا گیت (مس آئی لن چانگ) (ترجمہ)
  • غریب لڑکے جو نامور ہوئے (یولٹن) (ترجمہ)
  • بچوں میں جذبہ عداوت (سپل سکلونا ) (ترجمہ)
  • بچوں کے جذباتی مسائل (اوسپرجن، سٹوراٹ ایم قچ ) (ترجمہ)
  • بچوں کی معاشرتی زندگی (ایلس وٹنرمین) (ترجمہ)
  • والدین اور معلمین (ایوایچ گرانٹ) (ترجمہ)
  • آپ کے بچے کی وراثت (ایل گارٹن) (ترجمہ)
  • نرگس جمال (مارس مترلنک) (ترجمہ)
  • حیرت ناک کہانیاں (نتھینیل ہوتھورن) (ترجمہ)
  • انوکھی کہانیاں (نتھینیل ہوتھورن) (ترجمہ)
  • فاؤسٹ (جان ولف کانگ گوئٹے) (ترجمہ)
  • پروین و ثریا (مارس مترلنک) (ترجمہ)
  • پھانسی (اندریف) (ترجمہ)
  • مضامین موسیقی (ترتیب عقیل عباس جعفری)

وفات[ترمیم]

شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1967ء کو پاکستان کے کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔[1][2][3][4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب شاہد احمد دہلوی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 272
  3. ^ ا ب بدلتے وقت کی کہانی، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، روزنامہ ڈان پاکستان، 3 جون 2008ء
  4. پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 132