شاہ ابو المعالی
شاہ ابوالمعالی صاحبِ اسرار و معارفِ یزدانی،شہبازِ لامکانی لاہور کے بڑے قادری بزرگ ہیں۔
نام و نسب
[ترمیم]نام سید خیر الدین محمد۔ کنیت: ابوالمعالی۔ لقب: اسد الدین۔تخلص: اشعار میں معالی کے علاوہ ’’غربتی‘‘ بھی بطورِ تخلص استعمال کرتے تھے۔لیکن شاہ ابو المعالی کے نام سے زیادہ معروف ہیں۔
سلسلہ نسب
[ترمیم]شاہ ابوالمعالی قادری بن سید رحمت اللہ بن سید فتح اللہ۔ ۔ شیخ المشائخ داؤدکرمانی آپ کے حقیقی چچا تھے۔آپ ان کے داماد اور خلیفۂ اعظم تھے۔ بزرگوں کا وطن ’’کرمان‘‘ تھا۔ خاندانی تعلق ساداتِ کرمان سے ہے۔ سلسلہ ٔ نسب اٹھائیس واسطوں سے امام محمد تقی پر منتہی ہوتاہے۔ [1]
ولادت
[ترمیم]تاریخ پیدائش10 ذو الحجہ 960ھ بمطابق 16/نومبر 1552ء کو’’شیر گڑھ‘‘تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ پنجاب پاکستان میں ہوئ۔سید رحمت اللہ کے بیٹے ہیں۔ سید رحمت اللہ بن میر سید فتح اللہ کرمانی تین بھائی تھے۔ ایک شیخ داؤد کرمانی دوسرے سید جلال الدین کرمانی تیسرے یہی سید رحمت اللہ کرمانی جو شاہ ابوالمعالی قادری کے والد گرامی قدر ہیں۔
تحصیل علم
[ترمیم]ایک علمی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ جو صدیوں سے علم و فضل میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کے والدِ محترم سید رحمت اللہ ایک عالمِ متبحر و عارف باللہ تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت والدِ گرامی کے زیرِسایہ ہوئی۔ تمام علوم ِ منقولات ومعقولات انھیں سے حاصل کیے۔اس وقت کے تمام مروجہ علوم کے ماہر ِ کامل اور عربی وفارسی ادب کے بہترین ادیب تھے۔آپ نے علم حدیث کی صرف درس تدریس ہی کے ذریعے اشاعت نہیں کی بلکہ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے سب سے زیادہ مشہور و مسلّم کتاب لمعات ہے۔ شیخ عبد الحق دہلوی جیسے بزرگ تسکین قلب اور فیوض باطنی کے لیے جس کی توجہ کے طالب اور اکثر دستگیری و رہنمائی کے محتاج رہتے تھے۔ شیخ محدّث ان کی زیارت کے لیے دہلی سے لاہور آتے تو یہ سختی سے ان کو روک دیتے ہیں۔
سلسلہ قادریہ
[ترمیم]شاہ ابوالمعالی:۔ جناب میاں میرکے زمانے میں قادری سلسلے کے بزرگ شیخ شاہ ابو المعالی قادری بھی تھے۔سید موسیٰ گیلانی کے ایک مشہور پیر بھائی داؤد شیر گڑھی کے جانشین تھے۔ آپ نے لاہور میں شاہ ابوالمعالی کے نام سے شہرت پائی۔ آپ بھیرہ ضلع سرگودہا کے رہنے والے بتائے جاتے ہیں۔ دارالشکوہ نے لکھا ہے کہ آپ نجیب الطرفین سید تھے۔ قادری سلسلے میں آپ کو شیخ داؤد کرمانی سے نسبت تھی۔ حد یقتہ الاولیاءمیں لکھا ہے کہ شیخ داؤد کرمانی شیر گڑھی کے بھتیجے ہیں۔
شاعری
[ترمیم]شاہ صاحب ایک شاعر بھی تھے۔ غربتی اور معالی آپ کا تخلص تھا۔ عربی اور فارسی میں شعر کہتے تھے۔ جن میں اکثر صوفیانہ خیالات ہی کا اظہار ہوتا تھا۔
سیرت وخصائص
[ترمیم]شاہ ابوالمعالی اپنے وقت کے شیخِ کامل اور عالمِ اکمل تھے۔آپ کی ذات وا لا صفات سے دینِ اسلام اور سلسلہ عالیہ قادریہ کو بہت فروغ حاصل ہوا۔خرقۂ خلافت کے بعد شیخ کی طرف سے لاہورمیں رشد وہدایت پر مامور کیے گئے۔چنانچہ شیر گڑھ سے لاہور تک جہاں قیام فرمایا وہاں سرائے،کنواں،تالاب اور باغ لگواتے گئے۔آج بھی راستے میں ایسے مقامات و سرائے اور مکانات و بستیاں موجود ہیں جو آپ کے نام سے ہیں۔جب آپ لاہور میں تشریف لائے تو مخلوقِ خدا جوق در جوق حلقۂ ارادت میں داخل ہونے لگی اور آپ نے بڑی قبولیت حاصل کی۔آپ کی بڑی کرامت یہ تھی کہ جو شخص آپ سے بیعت ہوتا اس کو اسی رات محبوبِ سبحانی غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا دیدار نصیب ہوتا۔
تصنیفات
[ترمیم]آپ نے جناب سید عبد القادر جیلانی کی منقبت میں’’ رسالہ غوثیہ‘‘اور آپ کی کرامات کے موضوع پر ’’تحفہ قادریہ ‘‘کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا نیز’’ حلیہ سروردوعالم‘‘،’’گلدستہ باغ ارم‘‘، ’’مونس جاں‘‘ اور’’ زعفران زار ‘‘کتابیں بھی آپ کی یادگار ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کا ایک قلمی نسخہ ’’ہشت محفل‘‘ کے نام سے پنجاب یو نیورسٹی لاہور کی لائبریری میں بھی محفوظ ہے۔ جسے آپ کے صاحبزادے جناب محمد باقر نے مرتب کیا تھا۔ اس نسخے میں شاہ صاحب کے ملفوظات جمع کیے گئے ہیں۔
وفات
[ترمیم]سال وفات16 ربیع الاول 1024ھ بمطابق 1615ءہے شاہ ابوالمعالی نے پینسٹھ برس کی عمر پائی۔ لاہور میں لکشمی کے قریب شاہ ابو المعالی روڈ کے کنارے مدفون ہیں[2]