شاہ ابو محمد ابوالعلائی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت شاہ ابو محمد ابوالعلائی للن میاں کی الہ آباد میں لی گئی ایک قیمتی تصویر۔

حضرت مولانا شاہ ابو محمد ابوالعلائی للن میاں خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کے سابق سجادہ نشیں ہیں۔[1]

پیدائش اور نام[ترمیم]

آپ کی پیدائش 18 جمادی الآخر شنبہ بوقت اشراق 1381ھ موافق 15 مارچ 1952ئ کو داناپور میں ہوئی، آپ کا نام آپ کے جد امجد حضرت شاہ ظفرسجاد ابوالعلائی نے ابو محمد رکھا اور عرفی نام للن میاں ہے۔[2]

تعلیم و تربیت، بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ بچپن ہی سے نیک نیتی، فراخدلی اور کم سخن تھے، چھوٹا ہو یابڑاسب سے ملتے جلتے، ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے دادا ظفرالمکرم حضرت شاہ ظفرسجاد ابوالعُلائی کے زیر اثر ہوئی، جب باشعور ہوئے تو مدرسہ انوارالعلوم،الہ آباد میں تحصیل علم کے لیے داخل ہوئے، کم عمری ہی سے آپ میں آثار ولایت اور آثار سخاوت نمودار تھے، سادہ مزاج تھے، نام و نمود، عیش و عشرت، عروج و اعتلا سے بعید ہوکر متانت و سنجیدگی کے ساتھ ایک عام زندگی گذارتے، تقویٰ و پرہیزگاری کے اعلیٰ نمونہ تھے، مراقبہ و مجاہدہ ان کا خاصہ تھا، اوراد و وظائف ان کی عادت تھی، گویا آپ کی مکمل زندگی سرچشمۂ ہدایت اورمنبعِ فیض ولایت تھی،نفس مجاہدہ اور محنت شاقہ کے ذریعہ آپ نے بہت جلد علم باطنی کی تکمیل کی، سفر ہو یا حضر شروع سے اپنے والد حضرت شاہ محفوظ اللہ ابوالعُلائی کے ہمراہ رہا کرتے اور بیعت و خلافت بھی والد ہی سے حاصل ہوئی، بعض اوراد و وظائف کی اجازت اپنے ماموں حکیم شاہ عزیزاحمد ابوالعلائی سے بھی تھی۔[3]

اوصاف[ترمیم]

آپ نیک سیرت، جوان صالح، ہنس مکھ اور معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے، ان کا سلسلۂ پدری تاج فقیہ حضرت امام محمد سے بڑے صحیح طور پر جا ملتا ہے، بہار میں اسلامی فضا قائم کرنے میں یہ خانوادہ سب سے معتبر اور معظم تسلیم کیا جاتاہے، اسی طرح آپ کے نانا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ کے مدرس مولانا سید عبد الرشید قادری متبحر عالم دین، فاضل متین تھے، گویا آپ کا دادیہال اور نانیہال دونوں علمی فیضان کا مترشح تھا، صبر و شکر اور متانت و سنجیدگی اس کی علامت معلوم ہوتی تھی، آپ کے مریدان کا حلقہ ہند و پاک کے مختلف خطوں میں پایا جاتا ہے، آپ کی زندگی کا مقصد تصوف اور روحانیت کی تعلیم کو عام کرنا تھا ،جن ایثار و قربانی کا تذکرہ و تاریخ کی کتب میں ملتا ہے وہ آپ کی ظاہری زندگی میں نمونۂ عمل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن کبھی بھی آپ کی ہمت و حوصلہ میں فرق نہ آیا اور آخر حق کی فتح ہوئی۔[4]

سجادہ نشینی[ترمیم]

حضرت شاہ محفوظ اللہ ابوالعلائی کے فاتحۂ چہلم کے موقع پر مؤرخہ 7؍شعبان المعظم بروز اتوار 1418ھ موافق 7؍دسمبر 1997 کو خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ، داناپور کے سجادہ نشیں منتخب ہوئے اور تاعمر اس خدمت کو بحسن و خوبی انجام دیا۔[5]

معمولات[ترمیم]

آپ دلائل الخیرات، اشغال سرمدی اور تکبیر عاشقاں وغیرہ کبھی ناغہ نہ کرتے، آپ کو کبھی آرام کرتے نہ دیکھا گیا، رات کے آخر پہر تک مجلس سجی رہتی، قلت طعام اور قلت منام پر بچپن ہی سے عمل تھا، غذا بہت کم تھی، چاے کے بڑے شوقین تھے، خانقاہ میں آنے والے زائرین کوخود سے چائے بناکر پلاتے، ان کی چائے بڑی سخت اور کڑی ہوتی تھی بلکہ بعض دفعہ تو کھانے اور پینے کو چائے پر موقوف کردیتے، بڑی بڑی مصیبت میں بھی آپ صبر و شکر کیا کرتے، چہرے پر کبھی شکن نہ دیکھا گیا، جب کوئی آپ سے دریافت کرتا کہ آپ اپنے لیے دعا کیوں نہیں کرتے تو فرماتے کہ

’’بہتر دوست وہ ہے جو اپنے دوست کے فیصلے پر خوش رہے‘‘

سب سے مسکرا کر ملتے، ہر وقت خانقاہ میں تعویذ لینے والوں کاہجوم، چاہنے والوں کی بھیڑ، صبح سے شام تک لوگوں کے درمیان گھرے رہتے۔[6]

وصال[ترمیم]

آپ کی سجادگی کو صرف چار برس ہوئے تھے کہ 52؍برس کی عمر میں مؤرخہ 5؍ربیع الاول بروز پیر 1422ھ موافق 28؍ مئی 2001ئ کو دہلی میں رحلت کر گئے، مزارمقدس آستانہ مخدوم سجاد پاک، داناپور میں واقع ہے۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. امام شاہ خالد۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  2. ابوالعلائی ریان۔ ذکر محفوظ 
  3. ابوالعلائی ریان۔ ذکر محفوظ 
  4. امام شاہ خالد۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  5. امام شاہ خالد۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر 
  6. ابوالعلائی ریان۔ ذکر محفوظ 
  7. امام شاہ خالد۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ کا تاریخی پسِ منظر