شاہ بانو کیس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عدالتسپریم کورٹ آف انڈیا
مقدمے کا مکمل نامشاہ بانو کیس
تاریخ فیصلہ23 اپریل، 1985ء
حوالہ جات1985 SCR (3) 844
کیس ہسٹری
سابقہ کارروائیفوجداری ترمیمی نمبر۔ 320 of 1979, عدالت عالیہ، مدھیہ پردیش
اخذ شدہ قانون
آرا مقدمہ
اتفاق رائےY. V. Chandrachud (چیف جسٹس)، رنگ ناتھ مشرا، ڈی اے دیسائی، O Chinnappa Reddy, E S Venkataramiah
نافذ قوانین
تعزیرات ہند

شاہ بانو کیس (1985 SCR (3) 844) ایک متنازع معاملہ ہے جو بھارت میں سیاسی تنازعات کو جنم دینے کے لیے معروف بلکہ بدنام ہے۔ اس کو اکثر سیاسی فوائد اور اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہندو شدت پسند اس کوشش کو اقلیتوں کو خوش کرنے کی کوشش باور کراتے ہیں۔

شاہ بانو بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور سے تعلق رکھنے والی ایک باسٹھ سالہ مطلقہ خاتون اور پانچ بچوں کی ماں تھیں۔

قانونی تفصیلات[ترمیم]

شاہ بانو کو سنہ 1978ء میں ان کے شوہر محمد احمد خان نے طلاق دے دی۔ مسلمانوں کے عائلی قانون کے مطابق شوہر بیوی کی مرضی کے خلاف طلاق دے سکتا ہے۔

اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے شاہ بانو کے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہ تھا، چنانچہ اس نے شوہر سے اخراجات اور نفقہ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے درخواست کی۔ عدالت عظمی میں اس معاملے کو سات برس ہو گئے، بعد ازاں عدالت نے تعزیرات ہند کی دفعہ 125 کے تحت فیصلہ کیا، یہ دفعہ ہر بھارتی شہری پر نافذ ہوتی ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب، ذات یا فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ عدالت نے ہدایت دی کہ شاہ بانو کو نفقہ دیا جائے۔

بھارت کے بیشتر مسلمانوں کے نزدیک یہ فیصلہ ان کی عائلی قوانین اور شرعی احکام کی خلاف ورزی اور مداخلت تھا چنانچہ انھوں نے اس فیصلہ کی زبردست مخالفت کی۔ ان کے رہنما اور ترجمان ایم جے اکبر اور سید شہاب الدین تھے۔ ان لوگوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ تمام بڑے شہروں میں تحریک کی دھمکی دی۔ آخرکار اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ان مطالبات کو تسلیم کر لیا۔ اس واقعہ کو "بھارتی سیکولرزم" کے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

سرکاری اقدام[ترمیم]

سنہ 1986ء میں کانگریس پارٹی نے جسے پارلیمنٹ میں مکمل اکثریت حاصل تھی، ایک قانون منظور کیا جو شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس تھا۔ اس قانون کے مطابق:

مطلقہ خاتون کی وہ درخواستیں جو عدالتوں میں تعزیرات ہند 1973ء کی دفعہ 125 کے تحت زیر غور ہیں، اب ان تمام درخواستوں کے فیصلے اس قانون کے مطابق کیے جائیں گے، خواہ مذکورہ دفعہ میں کچھ درج ہو۔

چونکہ حکومت کو اس وقت مکمل اکثریت حاصل تھی، اس لیے عدالت عظمی کے فیصلے کے برعکس مسلم خواتین (تحفظ حقوق طلاق) ایکٹ 1986ء انتہائی آسانی سے منظور ہو گیا۔

اس قانون کے مطابق جب کوئی مطلقہ مسلمان خاتون عدت کے بعد اپنے اخراجات برداشت نہیں کر سکتی تو عدالت مطلقہ خاتون کے رشتہ داروں کو اسے نفقہ دینے کا حکم دے گی جو اسلامی قانون کے مطابق اس کے اثاثوں کے جانشین ہیں۔ لیکن اگر ایسے رشتہ دار نہیں ہیں یا وہ اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو اس صورت میں عدالت ریاستی وقف بورڈ کو نفقہ دینے کا حکم دے گی۔ یوں طلاق دینے کے بعد شوہر کے ذمہ محض عدت کے دوران کے اخراجات ہی باقی رہتے ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]