شاہ جہاں مسجد، ووکنگ

متناسقات: 51°19′18.5″N 0°32′51″W / 51.321806°N 0.54750°W / 51.321806; -0.54750
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہ جہاں مسجد
Shah Jahan Mosque
بنیادی معلومات
متناسقات51°19′18.5″N 0°32′51″W / 51.321806°N 0.54750°W / 51.321806; -0.54750
مذہبی انتساباہل سنت اسلام
ملکمملکت متحدہ
ویب سائٹshahjahanmosque.org.uk
تعمیراتی تفصیلات
معمارW. I. Chambers
نوعیتِ تعمیرمسجد
طرز تعمیرIndo-Saracenic Revival
سنہ تکمیل1889ء (1889ء)
تفصیلات
گنبد1
مینار0 (2 miniature)

شاہ جہاں مسجد (Shah Jahan Mosque) (جسے ووکنگ مسجد بھی کہا جاتا ہے) اورینٹل روڈ، ووکنگ، انگلستان میں واقع ایک مسجد ہے۔ یہ مملکت متحدہ کی پہلی بامقصد (عام طور پر کسی عمارت کو مسجد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہء) مسجد ہے۔ اسے 1889ء میں گوٹ لیئیب ویل ہیلم لیئیٹنر ایک برطانوی مستشرق نے تعمیر کروایا۔ یہ لندن کے جنوب مغرب میں 30 میل (50 کلومیٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔

تعمیر[ترمیم]

شاہ جہاں مسجد 1889ء میں تعمیر کی گئی۔ جس کے جزوی اخراجات سلطان شاہ جہاں، بیگم بھوپال کے ادا کیے، جس کا بنیادی مقصد اورینٹل انسٹی ٹیوٹ ووکنگ کے طالب علموں کے کیے عبادت گاہ کا قیام تھا۔[1]

اورینٹل انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد 1881ء میں گوٹ لیئیب ویل ہیلم لیئیٹنر نے رکھی، جس کے لیے یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس نے ووکنگ، انگلستان میں سابقہ رائل ڈرامیٹک کالج کی عمارت خرید کر مشرقی ادب کے فروغ کے لیے ادارہ قائم کیا تھا۔ یہاں سے جامعہ پنجاب، لاہور سے ڈگری عطا کی جاتی تھی۔[1][2]

تاریخ[ترمیم]

2 اگست 1889ء میں بنائی گئی ایک تصویر

مسجد انگلستان میں پہلی باضابطہ اسلامی عبادت گاہ بن گئی۔ ملکہ وکٹوریہ جب قلعہ ونڈسر میں ہوتی تو اس کے ہندوستانی ملازم اور ہندوستانی سیکرٹری منشی عبد الکریم اس مسجد کو استعمال کرتے تھے۔ 1899ء میں لیئیٹنر کی وفات تک معززین، طالب علم اور مہمانوں کی ایک قلیل تعداد مسجد کو استعمال کرتی رہی، جبکہ اس کے بعد مسجد بند کر دی گئی۔[1]

احمدیہ دور[ترمیم]

1899ء میں لیئیٹنر کی وفات بعد سے 1912ء تک مسجد بند رہی۔ 1913ء میں خواجہ کمال الدین ایک ہندوستانی احمدیہ ایڈووکیٹ جو ووکنگ مسلم مشن" کا بانی تھا دوبارہ مسجد کو کھولا۔ اس نے شاہی مہمانوں اور مشہور برطانوی نومسلموں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جیسے محمد مارمادوک پکتھال اور لارڈ ہیڈلی۔ مسجد مملکت متحدہ میں اسلام کا مرکز بن گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اس وقت کے احمدیہ امام صدر الدین نے برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ مسجد کی قریبی زمین ہندوستانی مسلمان فوجیوں کی تدفین کے لیے عطا کی جائے۔ 1917ء میں حکومت برطانیہ نے اس قبرستان کی تعمیر کی اور یہاں 19 سپاہیوں کی تدفین کی گئی۔[1]

1960ء کی دہائی میں برطانیہ میں پاکستانی تارکین وطن کی آمد تک، شاہ جہاں مسجد برطانیہ میں اسلام کا مرکز تھی۔ اسی مسجد سے اسلامی ریویو (Islamic Review) شائع ہوتا تھا اور احمدی مصنف محمد علی نے قرآن کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا۔ یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا نام یہیں سوچا گیا تھا۔[3] اس وقت میں مسجد کا دورہ کرنے والے لوگوں میں فیصل بن عبدالعزیز آل سعود، محمد علی جناح، ہائلی سلاسی، آغا خان سوم، میر یوسف علی خان اور تونکو عبدالرحمان شامل ہیں۔[4]

سنی دور[ترمیم]

1960ء کی دہائی تک مقامی مسلم معاشرے پر اس کا اثر و رسوخ ختم ہو گیا اور اسے صرف ایک ایک مقامی مسجد کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ 1970ء کی دہائی میں اس کا باگ دوڑ اہل سنت کے ہاتھ میں آ گئی اور اسے کمیونٹی میں عبادت کے ایک اہم جگہ کے طور پر بحال کیا گیا۔[5] 2016ء کے سیلاب سے مسجد بری طرح متاثر ہوئی۔[6]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت "Shah Jahan Mosque, Woking"۔ Exploring Surrey's Past۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 
  2. "Shah Jahan Mosque"۔ Woking Borough Council۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 
  3. Jonathan Glancey (17 June 2002)۔ "The ideal dome show"۔ The Guardian۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 
  4. "The History of the Shah Jahan Mosque in Woking"۔ Islam in British Stone۔ 20 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 
  5. "History of the Mosque - Part 3"۔ Shah Jahan Mosque۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 
  6. "Woking's Shah Jahan Mosque damaged in flooding"۔ getSurrey۔ 11 May 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2016 

بیرونی روابط[ترمیم]