شاہ عالمی دروازہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شاہ عالمی دروازہ، پاکستان کے پنجاب میں لاہور کے مقام پر واقع ہے۔ یہ مغل دور حکومت میں تعمیر کیا گیا اور یہ اندرون شہر کے راستوں پر تعمیر شدہ تیرہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ جس علاقے میں یہ دروازہ واقع ہے وہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں کئی یادگاریں، حویلیاں اور قدیم بازار واقع ہیں۔ لاہور کی قدیم شاہ عالم مارکیٹ یہیں واقع ہے۔ اس دروازہ کے اندر تقسیم برصغیر سے پہلے ہندو بڑی تعداد میں آباد تھے اور تمام کاروبار ان کے ہاتھوں میں تھا۔

شاہ عالمی گیٹ شہنشاہ بہادر شاہ کے نام پر رکھا گیا۔ آزادی کی تحریک کے دوران اس گیٹ کو جلا دیا گیا اور اب بس اس کا نام باقی ہے۔ اس گیٹ کے قریب لاہور کی بڑی اور بہترین شاہ عالم مارکیٹ موجود ہے کیونکہ اس گیٹ کو دوبارہ تعمیر نہیں کیا جا سکا

تاریخی حیثیت[ترمیم]

شہر قدیم کے جنوب کی سمت موچی دروازے اور لوہاری دروازے کے درمیان شاہ عالمی دروازہ واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے اور جانشین محمد معظم شاہ کے نام سے موسوم ہے۔جس کی وفات لاہور میں ہوئی تھی۔ قبل ازیں اس دروازے کو کسی اور نام سے پکارا جاتا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس دروازے کا پرانا نام بھیر والا دروازہ تھا۔ کنہیا لال تاریخ لاہور میں اس دروازے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ”چند دنوں کے لیے بادشاہ لاہور آیا تو اس نے چاہا کہ اکبر بادشاہ اپنے جدّ اعلیٰ کی طرح ایک دروازہ اس شہر میں اپنے نام سے موسوم کرے اور اپنے رونق افزا ہونے کی یادگار لاہور میں چھوڑ جائے۔ اس نے یہ تجویز قائم کر کے منادی کرادی کہ آئندہ یہ دروازہ شاہ عالمی پکارا جائے گا۔ چنانچہ اس روز سے آج تک شاہ عالمی دروازہ کہلاتا ہے“۔ انگریز دور میں اس دروازے کی پرانی عمارت کو گرا کر از سر نو تعمیر کیا گیا تھا اور محققین کے مطابق اس دروازے کی وضع قطع پرانی عمارت جیسی ہی تھی۔

دور انگریز اور قیام پاکستان[ترمیم]

غافر شہزاد اپنی تصنیف ”گھر، گلیاں اور دروازے“ میں شاہ عالمی دروازے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”یہ دروازہ بھی انگریزی عہد میں دیگر دروازوں کی طرح پرانے اندازِ تعمیر میں1892ءسے قبل چھوٹی اینٹوں سے تعمیر ہوا اور چونے کا مسالا استعمال کیا گیا۔ بالائی منزل پر پولیس کی گارد رہتی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت اندرون شہر کے اس حصے میں زیادہ لوٹ مار ہوئی، عمارتوں کو آگ لگا دی گئی بڑی بڑی عمارات اینٹوں کا ڈھیر بن گئیں ۔ قیام پاکستان کے بعد شاہ عالمی دروازے کو گرا دیا گیا اندرون شاہ عالمی دروازہ ملبہ صاف کر کے قدرے کھلی اور بڑی عمارات بنا دی گئیں جو آج غیر ملکی اشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔“ قیام پاکستان سے پہلے شاہ عالمی دروازے کے اندر ہندو اکثریت کی آبادی تھی اور بازار اتنے تنگ تھے کہ وہاں سے پیدل گذر مشکل سے ہوتا تھا۔ البتہ اس دور میں بھی یہ علاقہ تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔

آج کا شاہ عالمی[ترمیم]

آج شاہ عالمی دروازے کا علاقہ شہر قدیم کے دیگر دروازوں سے بالکل مختلف ہے۔ یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ کبھی یہاں پر شہر لاہور کا تاریخی دروازہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس دروازے کا فقط نام رہ گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے یہ دروازہ دیکھا تھا وہ یہاں سے گزرتے ہوئے اس کے آثار ڈھونڈنے کے لیے کچھ عرصہ ضرور قیام کرتے تھے بلکہ ان کے پاﺅں خود بخود یہاں رک جاتے تھے۔ شاہ عالمی دروازے کے اندر داخل ہوں تو ایک کشادہ سڑک دکھائی دیتی ہے۔ تجارتی مرکز ہونے کی بنا پر یہ دو رویا سڑک تجاوزات اور ٹریفک سے بھری رہتی ہے۔ اس کے بائیں جانب پاپڑ مندی کا بازار شروع ہو جاتا ہے اور متی چوک تک پہنچتا ہے جہاں چھاپہ سٹریٹ اور چوک متی بازار کے راستے بھی آپس میں آن ملتے ہیں۔شاہ عالمی دروازے کی مرکزی سڑک پر آگے بڑھیں تو مچھی ہٹہ بازار سے ہوتے ہوئے رنگ محل چوک پہنچ جاتے ہیں۔ رنگ محل چوک میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا تعمیر کردہ کثیر المنزلہ پارکنگ پلازہ ہے۔ البتہ یہ پلازہ اس علاقے کے پارکنگ کے مسائل کے تناسب سے ناکافی ہے۔ بیرون شاہ عالمی دروازے سے رنگ محل تک کا سارا علاقہ بین الاقوامی تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ علاقہ زیورات سے لے کر گارمنٹس، کراکری، گروسری، مٹی کے برتن ہوں یا الیکٹرانکس کا سامان، بچوں کے کھلونے ہوں یا دفتری اورگھریلو استعمال کی اشیا کی بڑی منڈی ہے ۔ غرض روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی تمام اشیا یہاں دستیاب ہیں۔ تجارتی اعتبار سے سے رنگ محل کا علاقہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور یہ علاقہ صبح سے رات گئے ٹریفک اور لوگوں کے ہجوم سے بھرا رہتا ہے۔

خواتین کی دلچسپی کے بازار : سوہا بازار، کناری بازار، گمٹی بازار، ڈبی بازار اندرون شالمی دروازے میں سونے کے زیورات کے حوالے سے مشہور سوہا بازار بھی ہے۔ سوہا بازار کی تنگ و تاریک گلیوں میں سینکڑوں سنیارے قبل از تقسیم سے یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔

[1]

حوالہ جات[ترمیم]

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]